Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام امام مہدی نے فرمایا، میرا ظہور اس وقت ہوگا جب آرزوئیں طولانی ہوجائیں گی، دل پتھر ہوجائیں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی بحارالانوار ابواب النصوص من اللہ تعالیٰ باب 23 حدیث1
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

انبیاء اور آئمہ کا ظالموں کے خلاف ڈٹ جانے کا فلسفہ

آية الله سید علی خامنه ای

کہا جاتا ھے کہ اگرانبیاء دنیا کے ظالم و آمروں کے سامنے ڈٹ نہ جاتے تو جنگ و جدال کی نوبت ہی نہ آتی۔ یہ جو قرآن میں کہا گیا ہے کہ «و كأيّن من نبىّ قاتل معه ربيّون كثير» بہت سے پیغمبروں نے مومنوں کے ساتھ مل کر جنگ کی تو اس سے مراد کون سے لوگوں کے خلاف جنگ ہے؟ انبیاء کی جنگ میں مد مقابل یہی بدعنوان حکومتیں، تباہ کن طاقتیں اور تاریخ کے آمر تھے جو بشریت کو تباہ کر رہے تھے۔ انبیاء در اصل انسانوں کے نجات دہندہ ہيں اسی لئے قرآن مجید میں انبیاء اور رسولوں کا ایک بڑا مقصد مساوات کی ترویج قرار دیا گیا ہے۔ «لقد ارسلنا رسلنا بالبيّنات و أنزلنا معهم الكتاب و الميزان ليقوم النّاس بالقسط» در اصل کتب آسمانی اور انبیاء کی آمد کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ سماج میں عدل و انصاف قائم کریں یعنی ظلم و بدعنوانی کے مظہر کو مٹا دیں۔ امام حسین علیہ السلام کی تحریک ایسی ہی تھی۔ آپ نے فرمایا : «انّما خرجت لطلب الأصلاح فى امّة جدّى».، اسی طرح آپ نے یہ بھی فرمایا «من رأى سلطانا جائرا مستحلا لحرام الله او تاركا لعهداللَّه مخالفا لسنة رسولاللَّه فعمل فى عباداللَّه بالاثم والعدوان ثمّ لم يغيّر عليه بقول و لا فعل كان حقا على اللَّه أن يدخله مدخله»؛ یعنی اگر کسی کو ظلم و بدعنوانی کا مرکز نظر آئے اور وہ خاموش بیٹھا رہے، تو خدا اسے اس کے ہی ساتھ محشور کرے گا۔ آپ نے کہا کہ میں جبر و استبداد اور حکمرانی کے لئے نہيں نکلا ہوں۔ عراقی عوام نے امام حسین علیہ السلام کو حکومت کی دعوت دی تھی اور آپ نے ان کے اسی بلاوے کو قبول کیا۔ امام حسین علیہ السلام کو علم تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو ان کی خاموشی اور ان کے سکوت کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ جب کوئی طاقت تمام سماجی وسائل کے ساتھ کسی سماج پر غالب ہو اور ظلم و جور کا راستہ اختیار کرے اور آگے بڑھے تو اگر حق کے علمبردار اس کے سامنے نہ کھڑے ہوں اور اس کے راستے کو نہ روکیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی تائید کرتے ہيں۔ یعنی اس صورت میں غیر ارادی طور پر اہل حق بھی ظلم و جور کے حامیوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ گناہ تھا جس کے اس دور میں بڑے بڑے سردار اور بنی ہاشم کے بزرگان مرتکب ہوئے تھے۔ امام حسین علیہ السلام نے ایسا نہيں کیا اور اسی لئے انہوں نے قیام کیا۔ منقول ہے کہ جب امام زین العابدین علیہ السلام واقعہ عاشور کے بعد مدینہ لوٹے تو ایک شخص نے آپ کی خدمت میں پہنچ کر عرض کیا : اے فرزند رسول ! دیکھا آپ گئے تو کیا ہوا؟ وہ سچ کہہ رہا تھا یہ کاروان جب گیا تھا تو اس کی قیادت اہل بیت کے خورشید درخشاں، فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کر رہے تھے۔ بنت علی عزت و سرافرازی کے ساتھ گئی تھیں۔ علی کے بیٹے حضرت عباس، امام حسین علیہ السلام کے بیٹے، امام حسن علیہ السلام کے بیٹے، بنی ہاشم کے بہادر جوان سب لوگ اس قافلے میں موجود تھے لیکن جب یہ قافلہ واپس آیا تو اس میں صرف ایک مرد تھا، امام زين العابدین علیہ السلام۔ عورتوں کو اسیر کیا گیا۔ بے پناہ مظالم ڈھائے گئے۔ امام حسین نہیں رہے، علی اکبر چلے گئے، یہاں تک کہ شیر خوار بچہ بھی قافلہ کے ساتھ واپس نہ آیا۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے اس شخص کو جواب دیا : سوچو اگر ہم نہ جاتے تو کیا ہوتا۔ جی ہاں اگر وہ لوگ نہ جاتے تو جسم تو زندہ رہتے لیکن روح کا وجود نہ رہتا، ضمیر مرجاتے۔ تاریخ میں عقل و منطق کو شکست ہوتی اور اسلام کا نام بھی باقی نہ رہتا۔