Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جب کھانے کی خواہش ہو تو کھانا کھاؤ اور خواہش باقی ہو تو ہاتھ اٹھا لو بحارالانوار ج59 ص290، تتمۃ کتاب السماء والعالم، ابواب الادویۃ وخواصہا، باب89نادر
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

آج کا انسان اور دس ہزار سال قبل کا انسان

آية الله سید علی خامنه ای

آج کا انسان ، ایک ہزار سال قبل یا دس ہزار سال قبل کے انسان سے، بنیادی ضرورتوں کے لحاظ سے مختلف نہيں ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں یہ ہیں: وہ امن و تحفظ چاہتا ہے، آزادی چاہتا ہے، شناخت چاہتا ہے، پر سکون زندگی چاہتا ہے۔ امتیازی سلوک سے دوری چاہتا ہے۔ ظلم سے بچنا چاہتا ہے۔ ہر زمانے کی ضرورتوں کی تکمیل، ایسی چیز ہے جو ان ضرورتوں کے دائرے اور سائے میں ممکن ہے۔ یہ بنیادی ضرورتيں صرف دین خدا کے سائے میں ہی پوری ہو سکتی ہیں اور بس۔ یہ دنیا کے تمام ازم اور یہ انسانی مکاتب فکر اپنے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ، انسانوں کو نجات دینے پر قادر نہيں ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ مادیات، یعنی دولت، وہ بھی دولت کی ہر قسم کچھ لوگوں کے لئے اچھی زندگی کا باعث بنتی ہیں لیکن کیا یہ انسان کی ضرورت ہے؟ آج کے انسان کی ضرورت یہ ہے کہ فلاں ملک میں قومی پیداوار اتنے ارب تک پہنچ گئ ہے جبکہ یہ پیداوار اسی سماج کے بہت سے لوگوں کا پیٹ بھرنے پر قادر نہيں ہے؟ کیا یہ کافی ہے؟ کیا ہم یہ چاہتے ہيں؟ اس کا کیا فائدہ کہ ملک مالدار رہے لیکن اس میں بہت سے لوگ بھوکے رہیں۔ پیداوار زیادہ ہو لیکن سماج میں امتیازی سلوک اور لوگوں میں تفریق ہو۔ کچھ لوگ ایسے ہوں جو ملک کی بے پناہ دولت کے سہارے عوام کے ایک بڑے حصے پر ظلم کرنے پر قادر ہوں۔ اپنی مرضی چلائيں اور طاقت کا غلط استعمال کریں ! کیا اس کے لئے انسان کا کام کرنا مناسب ہے؟ کیا اس چیز کے لئے انسان کی جانب سے قربانی پیش کرنا مناسب ہے؟ قربانی، عدل و انصاف و آزادی و خوشحالی و قلبی سکون کے لئے دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ دین سے حاصل ہوتا ہے۔ قربانی اس لئے ہوتی ہے تاکہ انسان اچھے سلوک اور اچھی صفات سے آراستہ ہو جائيں۔ انسانوں میں باہمی محبت کا جذبہ ہو۔ اس چیز کے لئے کام کرنا چاہئے۔ اس کی تشہیر کریں اس چیز کو رائج کریں ۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں، میں نے ایک حدیث دیکھی ہے اس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے کے لئے جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک «رفيق فيما يأمر و رفيق فيما ينهى» ہے جہاں نرمی مناسب ہو وہاں نرمی کرے ویسے اکثر اوقات نرمی کا ہی مقام ہوتا ہے۔ تاکہ محبت کے توسط سے ان حقائق کو لوگوں کے دل و دماغ میں اتارا جا سکے۔ تبلیغ اسی لئے ہوتی ہے۔ تبلیغ الہی و اسلامی احکام کو حیات نو بخشنے کے لئے ہوتی ہے ۔ آج خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں یہ موقع حاصل ہے اور مالداروں کے دل میں دین کا درد ہے ہاں غیر ملکی پروپگنڈوں میں یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ملک کے حکام اور اہم لوگ یا ان میں سے کچھ لوگوں کو دینی امور میں دلچسپی نہيں ہے۔ جی نہيں ایسا نہیں ہے۔ ان میں سے کچھ کی تو سمجھ میں نہيں آتا اور کچھ دوسرے لوگ عمدا چشم پوشی کرتے ہيں وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح سے پروپیگنڈہ کریں وہ لوگوں کو بد گمان کرنا چاہتے ہيں۔ آج ہمارے ملک میں، صف اول کے حکام کے دل میں دین کا درد ہے۔ دین کے بارے میں انہيں جتنا علم ہے اس پر سماج میں عمل در آمد چاہتے ہیں۔ حالات سازگار ہیں۔ البتہ یہ سب کا فریضہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں لیکن آپ لوگوں کو مسجد و امام بارگاہوں اور عزاداری کے دوران تبلیغ کا جو موقع حاصل ہوا ہے اسے غنیمت سمجھیں، اس کی قدر کریں یہ بہت زیادہ موثر اور بابرکت ہے۔ لوگوں کی رہنمائی کریں ، لوگوں کے ذہنوں میں روشنی بھریں، لوگوں کو دین کے بارے میں معلومات بڑھانے کی جانب راغب کریں۔ انہیں صحیح دین کی تعلیم دیں۔ انہيں اخلاقی فضائل سے آشنا کریں۔ عمل اور زبان کے ذریعے اخلافی خوبیاں ان میں پیدا کریں، لوگوں کو نصحت کریں۔ خدا کے عذاب، خدا کے قہر و غضب اور آتش دوزخ سے انہیں ڈرائيں۔ انہيں ڈرائيں، ڈرانے کا بھی بہت بڑا کردار ہے اسے نہ بھولیں، انہيں خدا کی رحمت کی خوشخبری دیں۔ مومنین، صالحین، مخلصین اور با عمل لوگوں کو بشارت دیں۔ انہيں عالم اسلام کے بنیادی مسائل اور ملک کے بنیادی معاملات سے آگاہ کریں۔ تب اسے وہ روشن مشعل کہا جائے گا جسے آپ میں سے جو بھی جہاں بھی جلائے گا وہاں لوگوں کے دل روشن ہو جائيں گے۔ آگاہی پیدا ہوگی، سرگرمی پیدا ہوگی، ایمان میں استحکام پیدا ہوگا۔ اس ثقافتی یلغار اور دشمن کے حملے کا مقابلہ کرنے کا سب سے اہم حربہ یہی ہے۔ مجھے بڑی تشویش ہے۔ وہ نہيں چاہتے کہ نوجوان، مومن، بہادر، آگاہ، اچھی فکر والے علماء، مختلف مقامات پر، یونیورسٹیوں میں، بازار میں، گاؤں میں، شہر میں اور کارخانے میں اپنا کام کریں۔ ان کی سازشوں سے مقابلے کے لئے آپ کا وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے جسے اخلاص کے ساتھ انجام دیا جانا چاہئے «لم يكن منافسة فى سلطان ولا التماس شىء من فضول الحطام».