Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، جب تک تمہیں کسی کام کا تجربہ حاصل نہ ہو جائے، اس کے بارے میں کوئی اقدام نہ کرو۔ غررالحکم حدیث11134
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

قرآن اور انسانی اقدار

آية اللہ شہید مرتضیٰ مطہری

انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔(یہاں قرآنی آیات کا مفہوم بیان کیا گیا ہے نہ کہ تفصیلی ترجمہ) ”اور جب تیرے رب نے انسان کو پیدا کرنا چاہا تو فرشتوں کو آگاہ کیا فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟ اللہ نے فرمایا: بے شک مجھے وہ معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔“( سورہ بقرہ آیت ۳۰) ”اور اسی خدا نے تم (انسانوں) کو زمین میں اپنا نائب بنایا ہے تاکہ تمہیں دیئے ہوئے سرمائے کے ذریعے تمہارا امتحان لیا جائے۔“ ( سورہ انعام آیت ۱۶۵) ۲۔ انسان کی علمی استعداد دوسری تمام مخلوقات کی ممکنہ استعداد سے زیادہ ہے۔ ”اور اللہ نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیئے (اسے تمام حقائق سے آشنا فرمایا) پھر ”ملکوتی مخلوق“ فرشتوں سے کہا: مجھے ان کے نام بتاؤ کہ کیا ہیں؟ وہ بولے: ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا کہ تو نے ہمیں خود سکھایا فرمایا: اے آدم تو ان کو ان چیزوں کے نام سکھا دے اور آگاہ کر پھر اس نے سب چیزوں کے نام سکھا دیئے اور آگاہ کر دیا تو اللہ نے فرشتوں سے فرمایا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی چھپی ہوئی چیزوں کو خوب جانتا ہوں وہ بھی جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور وہ بھی جانتا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور چھپاتے ہو۔“( سورہ بقرہ آیت ۳۱ تا ۳۳) ۳۔ انسان کی فطرت خدا کی آشنائی ہے اور وہ اپنی فطرت کی گہرائی میں خدا کو پہچانتا ہے اور اس کے وجود سے آگاہ ہے تمام شکوک و شبہات اور افکار انسانی فطرت سے انحراف اور بیماریاں ہیں۔ ”ابھی آدم کے فرزند اپنے والدین کی پیٹھوں میں ہی تھے کہ خدا نے ان سے اپنے وجود کے بارے میں گواہی لی اور انہوں نے گواہی دی۔“( سورہ اعراف آیت ۱۷۲) ”تو اپنا چہرہ دین کی طرف رکھ وہی جو خدائی فطرت ہے اور اس نے سب لوگوں کو اسی پر پیدا کیا ہے۔“( سورہ روم آیت ۴۳) ۴۔ انسانی فطرت میں ان مادی عناصر کے علاوہ جو جمادات نباتات اور حیوانات میں ہیں ایک آسمانی اور روحانی عنصر بھی موجود ہے گویا انسان جسم اور روح (عالم مادہ اور عالم معنی) کا مرکب ہے۔ ”اس نے جو چیز بنائی خوب بنائی انسان کی پیدائش گارے سے شروع کی پھر اس کی اولاد کو نچڑے ہوئے حقیر پانی سے قرار دیا پھر اس کو آرائش دی اور اس میں اپنی روح پھونکی۔“( سورہ حم ۷۔۹) ۵۔ انسان کی پیدائش اتفاقی نہیں بلکہ ایک مقررہ طریقے پر ہوئی ہے اور وہ خدا کا برگزیدہ اور منتخب کیا ہوا ہے۔ ”خدا نے آدم کو منتخب کیا پھر اس کی جانب متوجہ ہوا اور اس کو ہدایت کی۔“( سورہ طہٰ آیت ۱۲۲) ۶۔ انسان آزاد اور مستقل شخصیت کا مالک ہے۔ وہ خدا کا امانت دار اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ اس سے یہ بھی چاہا گیا ہے کہ وہ اپنے کام اور کوششوں سے زمین کو آباد کرے اور سعادت و شقاوت کے راستوں میں سے ایک کو اپنی مرضی سے اختیار کرے۔ ”اور ہم نے آسمانوں زمین اور پہاڑوں کو اپنی امانت دکھائی اسے کسی نے قبول نہ کیا کہ اٹھائے اور ڈر گئے جب کہ انسان نے اس کو اٹھا لیا بے شک یہ بڑا ظالم اور نادان ہے۔“( سورہ احزاب آیت ۷۲) ”ہم نے انسان کو مرکب نطفے سے بنایا تاکہ اس کا امتحان لیں پھر ہم نے اس کو سننے والا اور دیکھنے والا کر دیا پھر ہم نے اس کو راستہ دکھایا اب یا وہ شکر کرنے والا ہے یا ناشکری کرنے والا یا وہ ہمارے دکھائے ہوئے سیدھے راستے پر چلے گا اور سعادت پائے گا یا کفران نعمت کرے گا اور منحرف ہو جائے گا۔“( سورہ دہر آیت ۲۔۳) ۷۔ انسان ذاتی شرافت اور کرامت کا مالک ہے۔ خدا نے انسان کو دیگر بہت سی مخلوقات پر برتری بخشی ہے لیکن وہ اپنی حقیقت کو خود اسی وقت پہچان سکتا ہے جب کہ وہ اپنی ذاتی شرافت کو سمجھ لے اور اپنے آپ کو پستی ذلت اور شہوانی خواہشات اور غلامی سے بالاتر سمجھے۔ ”بے شک ہم نے اولاد آدم کو عزت دی اور ہم نے ان کو صحرا اور سمندر پر حاکم کر دیا اور ہم نے ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر برتری دی۔“( سورہ بنی اسرائیل آیت ۷۰) ۸۔ انسان باطنی اخلاق کا حامل ہے اور وہ اپنی فطری قوت سے ہر نیک و بد کو پہچان لیتا ہے۔ ”اور قسم ہے نفس انسان کی اور اس کے اعتدال کی کہ اس کو (خدا نے) اچھی اور بری چیزوں کی پہچان دی۔“( سورہ شمس آیات ۷۔۹) ۹۔ انسان کے لئے اطمینان قلب کے حصول کا واحد ذریعہ ”یاد خدا“ ہے اس کی خواہشات لامتناہی ہیں لیکن خواہشوں کے پورا ہو جانے کے بعد وہ ان چیزوں سے بے زار ہو جاتا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کی لامتناہی ذات سے مل جائے۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ”بے شک اللہ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔“( سورہ رعد آیت ۲۸) ”اے انسان تو اپنے رب تک پہنچنے میں بہت تکلیف اٹھاتاہے اور آخرکار تمہیں اس سے ملنا ہے۔“( سورہ انشقاق آیت ۶) ۱۰۔ زمین کی تمام نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ ”وہی ہے جس نے سب جو کچھ زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔“( سورہ بقرہ آیت ۲۹) ”اور مسخر کر دیا تمہارے لئے اپنی طرف سے سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو فکر کرتے ہیں۔“( سورہ جاثیہ آیت ۱۳) خدا نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ دنیا میں صرف اپنے خدا کی عبادت اور اس کے احکام کی پابندی کرے پس اس کی ذمہ داری امر خدا کی اطاعت ہے۔ ”اور ہم نے جن اور انسان کو نہیں پیدا کیا مگر اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں۔“( سورہ حشر آیت ۱۹) ۱۲۔ انسان خدا کی عبادت اور اس کی یاد کے بغیر اپنے آپ کو نہیں پا سکتا اگر وہ خدا کو بھول جائے تو اپنے آپ کو بھی بھول جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ وہ کون ہے اور کس لئے ہے؟ اور یہ کہ وہ کیا کرے؟ اسے کیا کرنا چاہئے؟ اور کہاں جانا چاہئے؟ ”بے شک تم ان لوگوں میں سے ہو جو خدا کو بھول گئے۔ پھر خدا نے ان کے لئے ان کی جانی بھلا دیں۔“( سورہ حشر آیت ۱۹) ۱۳۔ انسان جونہی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور اس کی روح کے چہرے سے جسم کا پردہ جو کہ روح کے چہرے کا حجاب ہے اٹھ جاتا ہے تو اس وقت اس پر ایسے بہت سے حقائق ظاہر ہوتے ہیں جو دنیا میں اس سے پوشیدہ رہتے ہیں: ”ہم نے تجھ پر سے پردہ ہٹا دیا تیری نظر آج تیز ہے۔“ ( سورہ ق آیت ۲۲) ۱۴۔ انسان دنیا میں ہمیشہ مادی مسائل کے حل کے لئے ہی کوششیں نہیں کرتا اور اس کو صرف مادی ضرورتیں ہی متحرک نہیں کرتیں بلکہ وہ بعض اوقات کسی بلند مقصد کے حصول کے لئے بھی اٹھتا ہے اور ممکن ہے کہ اس عمل سے اس کے ذہن میں سوائے رضائے خداوندی کے حصول کے اور کوئی مقصد نہ ہو۔ ”اے نفس مطمئنہ تو اپنے رب کی طرف لوٹ جا تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔“( سورہ فجر آیات ۲۷۔۲۸) ”اللہ نے ایمان والے مردوں اور عورتوں کو باغوں کا وعدہ دیا ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور نفیس مکانوں کا بھی۔ لیکن اللہ کی رضامندی ان سب سے بڑی ہے یہی بڑی کامیابی ہے۔“( سورہ توبہ آیت ۷۳) اوپر جو کچھ کہا گیا ہے اس کی بجائے یہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کی نظر میں: ”انسان خداوند تعالیٰ کی طرف سے منتخب شدہ ہستی ہے۔ وہ زمین پر اس کا خلیفہ اور جانشین ہے وہ روحانی اور مادی عناصر کا مرکب خدا آشنا فطرت کا مالک آزاد اور مختار پیغام خداوندی کا امین دنیا کا اور اپنا ذمہ دار فطرت زمین اور آسمان پر مسلط اور نیکی اور بدی کو سمجھنے والا ہے۔ اس کی زندگی کا آغاز کمزوری سے ہوتا ہے اور قوت اور کمال کی طرف بڑھتا ہے لیکن جب وہ حالت رشد و سن تمیز کو پہنچتا ہے تو اسے صرف اسی صورت میں سکون قلب ملتا ہے کہ وہ بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو کر اس کی یاد میں مشغول ہو جائے اس کی علمی اور عملی استعداد لامحدود ہے۔ وہ ذاتی شرافت اور کرامت کا حامل ہے اس کی خواہشات پر کسی طرح کا مادی اور طبیعی رنگ نہیں چڑھتا اس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں سے جائز فائدہ اٹھائے لیکن وہ اپنے خدا کے سامنے اپنے فرائض کی انجام دہی کا ذمہ دار بھی ہے۔“