Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، گناہوں پر دل سے پشیمان ہونا، گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ مستدرک الوسائل حدیث13674
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

امامت کے لحاظ سے رسول اکرمﷺ کی حیثیت

آية اللہ شہید مرتضیٰ مطہری

پیغمبر اکرم، دین اسلام کی خصوصیت و جامعیت کی بنا پر قرآن اور خود اپنی سیرت طیبہ کے مطابق اپنے زمانہ میں کئی حیثیتوں اور ذمہ داریوں کے حامل تھے، یعنی ایک ہی وقت میں کئی امور آپ کے ذمہ تھے اور آپ کئی نصبوں پر کام کررہے تھے چنانچہ پہلا منصب جو خداوند عالم کی جانب سے آپ کو عطاہوا تھا اور جس پر آپ عملی طور سے کاربند تھے، پیغمبری و رسالت تھی ۔ یعنی آپ الٰہی احکام و قوانین کو بیان فرماتے تھے ۔ اس سلسلہ میں قرآن کا ارشاد ہے :"ماآتاکم الرسول فخذوہ وما نھیٰکم عنہ فانتھوا [2] "یعنی جو کچھ پیغمبر تمہارے لئےلایاہے اسے اختیار کرلواور جن چیزوں سے تمہیں منع کرتا ھے انھیں چھو ڑدو ۔ یعنی پیغمبر احکام و قوانین سے متعلق جو بھی کہتا ہے خدا کی جانب سے کہتا ہے ۔ اس اعتبار سے پیغمبر صرف ان چیزوں کا بیان کرنے والا ہے جو اس پر وحی کی شکل میں نازل ہوئی ہے ۔ دوسرا منصب جس پر پیغمبر اسلام فائز تھے قضاوت کا منصب تھا یعنی وہ تمام مسلمانوں کے درمیان قاضی کی حیثیت رکھتے تھے ۔ کیونکہ اسلام کی نظر میں منصب قضاوت بھی کوئی یوں ہی سا بے معنی منصب نہیں ہے کہ جہاں کہیں دو آدمی آپس میں اختلاف کریں ایک تیسرا آدمی قاضی بن کر فیصلہ کر دے ۔ قضاوت اسلامی نقطہ ٔنظر سے ایک الٰہی منصب ہے کیونکہ یہاں عدل کا مسئلہ در پیش ہے ، قاضی وہ ہے جو نزع و اختلاف کے درمیان عادلانہ فیصلہ کرے ۔ یہ منصب بھی قرآن کے مطابق خداوند عالم کی جانب سے پیغمبر اکرم کو تفوین ہوا اور آپ خدا کی جانب سے حق رکھتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ فرمائیں : فلا و ربک لا یؤمنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینہم ثم لا یجدو ا فی انفسہم حرجا مما قضیت ویسلمو تسلیما [3] " معلوم ہوا یہ بھی ایک الٰہی منصب ہے کوئی معمولی عہدہ نہیں ہے اور پیغمبر عملی طور پر قاضی بھی تھے ۔ تیسرا منصب جس پر پیغمبر قانونی طور سے فائز تھے یعنی قرآن کی رو سے آپ کو عطا کیا گیا تھا اور آپ اس پر عمل پیرابھی تھے ، یہی ریاست عامہ ہے یعنی وہ مسلمان معاشرہ کے حاکم و رہبر تھے ۔ دوسرے لفظوں میں آپ مسلمانوں کے نگرا ں اور اسلامی معاشرہ کے سر پرست تھے ۔ کہتے ہیں کہ : "اطیعو اللہ و اطیعو االرسول و اولی الامر منکم "کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر تمہارے معاشرے کا حاکم و رہبر ہے ۔ وہ تمہیں جو حکم دے اسے تسلیم کر و ۔ لہٰذا یہ تینوں صرف ظاہری اور دکھاوے کے نہیں ہیں بلکہ بنیادی طور پر پیغمبر سے ہم تک جو کچھ پہنچا ہے اس کی تین حیثیتیں ہیں ۔ ایک پیغمبر کا وہ کلام جو فقط وحی الٰہی ہے ۔ یہاں پیغمبر بذات خود کوئی اختیار نہیں رکھتے جو حکم خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ پیغمبر اسے پہنچانے کا صرف ایک ذریعہ ہیں ۔ مثال کے طور پر جہاں وہ دینی قوانین بیان کرتے ہیں کہ نمازیوں پڑھو ، روزہ ایسے رکھو وغیرہ ۔ وہاں رسول کا ارشاد حکم خدا اور وحی ہے ۔ لیکن جب لوگوں کے درمیان قضاوت کرتے ہیں اس وقت ان کے فیصلے وحی نہیں ہوتے ۔ یعنی دو آدمی آپس میں جھگڑتے ہیں، پیغمبر اسلامی قوانین کے مطابق دونوں کے درمیا ن فیصلہ فرمادیتے ہیں کہ حق مثلا اس شخص کے ساتھ ہے یا اس شخص کے ۔ اب یہاں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ جبرءیل پیغمبر پر نازل ہوں اور وحی کے ذریعہ بتائیں کہ اے رسول آپ کہءے کہ حق اس شخص کے ساتھ ہے یا نہٰں ہے ۔ ہا ں اگر کوئی استثنائی موقع ہوتو دوسری بات ہے ورنہ کلی طور پر پیغمبر کے فیصلہ انہیں ظاہری بنیادوں پر ہوتے ہیں جن پر دوسرے فیصلے کرتے ہیں فرق یہ ہے پیغمبر کے فیصلے بہت ہی دقیق اور اعلیٰ سطح کے ہوتے ہیں آپ نے خود ہی فرمایا ہے کہ میں ظاہر پر حکم کرنے کے لئےمامور کیا گیا ہوں یعنی مثلامدعی اور مدعیٰ الیہ اکٹھا ہوں اور مدعی کے ساتھ دو عادل گواہ بھی ہوں تو پیغمبر اسی ثبوت کی بنیاد پر فیصلہ صادر فرماتے ہیں یہ وہ فیصلہ ہے جو خود پیغمبر نے فرمایا ہے۔ آپ پر وہی نہیں نازل ہوئی ہے ۔ تیسری حیثیت بھی جس کے بموجب پیغمبر معاشرہ کے نگراں اور رہبر ہیں اگر اس کے تحت وہ کوئی حکم دے یہ حکم بھی اس فرمان سے مختلف ہوگا جس میں پیغمبر وحی خدا کو پہچانتے ہیں ۔ خدا نے آپ کو ایسی ہی حاکمیت و رہبری کا اختیار دیا ہے اور ایک حق کی صورت میں آ پ کو منصب عطا فرمایا ہے اور وہ بھی رہبر ہونے کی حیثیت سے اپنے فراءض انجام دیتے ہیں لہٰذا اکثرآپ بعض امور میں لوگوں سے مشورہ بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ ہم تاریخ میں دیکھتے ہیں کہ آپ نے بدر اور احد کی جنگوں میں ۔ نیز بہت سے دوسرے مقامات پر اپنے اصحاب سے مشورہ فرمایا ۔ جب کہ حکم خدا میں تو مشورہ کی گنجاءش ہی نہیں ہوتی کیا کبھی پیغمبر نے اپنے اصحاب سے یہ مشورہ بھی لیا کہ مغرب کی نماز ایسے پڑھی جائے یا ویسے ؟ بلکہ اکثر ایسے مسائل پیش آتے تھے کہ جب آپ سے ان مو ضوعات کے متعلق پو چھا جاتا تھا تو صاف فر مادیا کرتے تھے کہ مسائل کا میری ذات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کی جانب سے ہی ایسا ہے اور اس کے علاوہ کچھ ہو بھی نہیں سکتا لیکن (احکام خدا کے علاوہ) دوسرے مسائل میں پیغمبر اکثر مشورہ فرماتے تھے اور دوسروں کی رآئے دریافت کیا کرتے تھے اب اگر کسی موقع پر پیغمبر کوئی حکم دے کہ ایسا کرو تو یہ اس اختیار کے تحت ہے جو خدا نے آپ کو عطا فرمایا ہے ۔ ہاں اگر کسی سلسلہ میں مخصوص طور پر وحی بھینازل ہوجائے تو ایک استثنائی بات ہوگی ۔ اس کو عام مسائل سے الگ سمجھا جائے گا نہ یہ کہ تمام امور اور جزئیات میں معاشرہ کا حاکم اور رہبر ہونے کی حیثیت سے معاشرہ کے لئےپیغمبر جو کام بھی انجام دیتے تھے ۔ خدا ان کے لئےان پر وحی نازل فرماتا تھا کہ یہاں یہ کرو وہاں یہ کرو اور اس طرح کے مسائل میں بھی پیغمبر صرف اک پیغام رساں کی حیثیت رکھتا رہا ہولہٰذا پیغمبر اسلام یقینی طور پر بیک وقت ان متعدد منصبو ں پر فائز رہے ہیں ۔