Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، اپنی آخرت کے لیے اپنی دنیا سے حصہ مقرر کر لو غررالحکم حدیث2429
Karbala TV Live
ترتیل قرآن کریم اردو

اسلامی افکار

اسلام میں جمہوریت کی بنیاد

آية الله سید علی خامنه ای

ایک مسئلہ جس پر میں نے بارہا تاکید کی ہے، یہ ہے کہ اسلامی نظام میں اسلامی بنیاد عوامی بنیاد سے الگ نہیں ہے۔ اسلامی نظام میں عوامی بنیاد ہی اسلامی بنیاد بھی ہے۔ جب ہم " اسلامی نظام" کی بات کرتے ہیں، تو ممکن نہیں ہے کہ عوام کو مد نظر نہ رکھا جائے۔ انتخابات میں عوام کے حق کی بنیاد اور اساس خود اسلام ہے۔ بنابریں دینی جمہوریت کی اپنی ایک بنیاد اور اس کا اپنا ایک فلسفہ ہے۔ دینی جمہوریت اور شریعت الہی میں یہ بات واضح ہے کہ عوام حاکم کو پسند کرتے ہوں، تاکہ اس کو قبول کیا جائے اور اس کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہو۔ (کسی مسلمان سے پوچھیں) تم مسلمان ہو بتاؤ کہ عوام کی رائے کیوں معتبر ہے؟ کہے گا "اس لئے کہ ہم مسلمان ہیں، اس لئے کہ ہم اسلام پر عقیدہ رکھتے ہیں اور اس لئے کہ اسلام کی منطق میں عوام کے رائے ، خدا کی نظر میں انسان کی جو خاص منزلت ہے اس کی بنیاد پر لوگوں کی رائے معتبر ہے۔ اسلام میں انسانوں پر کسی کی بھی حکومت اور ولایت قبول نہیں ہے سوائے اس کے جس کو خدا معین کرے۔ بہت سے فقہی مسائل میں حاکم، قاضی یا مومن کی ولایت کے مسئلے میں جب شک ہوتا ہے کہ اس ولایت پر شرعی جواز ہے یا نہیں، تو ہم کہتے ہیں کہ نہیں۔ کیوں؟ اس لئے کہ "اصل عدم ولایت ہے" (اسلامی فقہ کا ایک اصول جس کی رو سے مشکوک چیز کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے)۔ یہ اسلام کی منطق ہے۔ ولایت صرف اس وقت قبول کی جاتی ہے جب اس کے بارے میں شارع ( شریعت بنانے والے یا رسول اسلام ) کا حکم ہو اور حکم شارع اس بات پر ہوتا ہے کہ جس کو ہم ولایت دے رہے ہیں، وہ ولایت کے جس مرتبے پر بھی فائز ہو، اس کوصلاحیت اور اہلیت کا مالک یعنی صاحب تقوا و عادل اور عوام میں مقبول ہونا چاہئے۔ دینی جمہوریت کی منطق یہ ہے جو بہت گہری اور محکم ہے۔ مومن پورے اعتقاد کے ساتھ اس منطق کو قبول کرکے اس پر عمل کر سکتا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔