Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، بخل تمام عیبوں کا مجموعہ ہے، وہ ایسی مہار ہے جس کے ذریعہ ہر برائی کی طرف کھینچ کر لے جایا جاتا ہے۔ نھج البلاغۃ حکمت 378

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

عا شورہ کے اخلاقی و عرفا نی پہلو

سوا ل ۶۲ : نہضت اما م حسینؑ کے اخلاقی اور عرفانی پہلوؤں کی وضاحت کریں ؟
جواب : آسما ن کر بلا کے ستا روں کی طرح کسی اور آسما ن کے ستا روں نے ایسی عظمت وفضیلت نہیں دیکھی ہو گی ، سور ج جتنا مر دّد ، بے رنگ اور لر زید ہ عا شورہ کے دن تھا اتنا کسی اوردن نہ ہو ا ہوگا، رو ئے زمین کے کسی نقطے پر اس طرح خو بصورتی و بد صورتی ساتھ ساتھ نظر نہ آئی ہو گی جیسے نینوا میں دیکھی گئی ، تاریخ انسانی کے کسی حا د ثے میں انسان و انسا نیت کے لئے اس طرح کاپیغا م نہیں ہو گا، جیسا پیغام واقعہ عا شورہ میں تھا ۔
میدا ن کربلا میں توحید پھر زند ہ ہوئی ،عشق کے معنی معلو م ہو گئے ، قرآن کو حیات نوملی، فرشتوں کے سجد ۂ آدم کے راز سے پر دہ اٹھ گیا ، اور ایک جملے میں خدا وند کی اپنے تمام جلال وجما ل کے سا تھ تجلی ہوئی۔
عباس علیہ السلام نے نہر علقمہ کے کنا رے تشنہ لبوں کے ساتھ ، معرفت ، غیر ت ، حریت ، وفا اور ایثا ر کے چشمے تا ابد حقیقت طلب دلوں کی خشک زمین پر جا ری کر دئیے ۔
کر بلا کے گر م اور خو نی صحرا کے علمدا ر کا علم قیا مت تک باطل کے خلاف حق کی اور بدصورتی و رذیلت کے خلاف خو بصورتی و فضیلت کی فتح و کا مرا نی کا نشان بن کر لہراتا رہے گا ، کربلا مکمل طو ر پر انسا ن سا زی اور معیار معرفت کا مکتب ہے۔
کسی دا نش گا ہ سے اس طرح کا میاب و کا مرا ن افرا د نہیں نکلے جتنے دا نش گا ہ کربلا سے نکلے ،کسی مکتب میں اتنے مختلف شعبوں کے طلبہ نہیں ہو ں گے جتنے کر بلا کے مکتب میں ہیں ، یہاں معرفت ، عشق ، عظمت ، ہد ف کے راستے میں استقا مت ، صبر ، شجاعت اور خالص عبو دیت کی کلاسوں میں پیر و جو ان ، زن و مر د ،طفل وشیر خوا ر اور غلام سیا ہ سب ہی سا تھ ساتھ نظر آتے ہیں اور شہادت کے عظیم معلّم سے در س لیتے نظر آتے ہیں ، وہ متعلمین ان سخت تعلیما ت اور مشکل امتحانات سے اس طرح سر بلند اور سر خرو ہو کر نکلے کہ ان کے نام ان کے پاک اما م کے نام کے ساتھ جرید ہ عالم پر لکھے گئے ہیں اوروہ زیا رت ناحیہ میں امام زما ن کے سلام و درود کے مستحق ٹھہر ے ۔
ہرگز نمیر د آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است بر جرید ۂ عالم دوام ما
عاشورہ کا ہر لحظہ معرفت ، فضیلت اور اخلا ق کے عطر سے معطّر ہے اور سر زمین کربلا کا چپہ چپہ حق کے سا منے روح بند گی و تسلیم کی گو اہی دے رہا ہے۔
کر بلا کے جا وید حما سہ کا ور ق ور ق عظمت ، عزت ، عبو دیت اورافتخا ر کے خطوط سے لکھا گیا ہے۔ اس دفتر کے ورق ورق اور سطر سطر کا مطا لعہ تو ہماری اس گفتگو میں نہیں سما سکتا ہم صرف اس کے بعض درخشا ں اوراق ہی کھو ل سکیں گے۔
پہلا : اما م حسینؑ کے اخلاق ، عظمت اور معرفت کی ایک جھلک
اپنے کر دا ر اورگفتا ر کے ذریعے تو حید کی دعو ت ہی تما م الٰہی معا رف کا محو ر اور تمام انبیاء کی دعو ت کی بنیا د رہی ہے اور اما م حسینؑ کے قیا م کے تما م مرا حل ابتدا ء سے انتہا ء تک توحید کے محور پر گھو متے نظر آتے ہیں ـ ،اول سے آخر تک آپ کا کوئی لحظہ یا د خدا اور ذکر خدا سے خالی نظر نہیں آتا، مکہ سے عرا ق کی طرف سفر اختیا ر کر تے وقت آپ نے پہلی
با ت ہی یہ فر ما ئی ’’الحمد للّٰہ وما شا ء اللّٰہ لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ ’اور آپ نے اپنی زند گی کے آخر ی لمحو ں میں جب آپ زخمی بد ن کے سا تھ پیا سے زمین پرگر ے توآسما ن کی طر ف نظر کی اور عر ض کیا :
’’ صبرا علی بقضا ئک یا رب لا معبود سواک یاغیاث المستغثین (۱)
’’خدا یا تجھ سے تیر ی قضا ء پر صبر کا طلب گا ر ہو ں تیر ے علاوہ کوئی معبو د نہیں ہے اے پناہ طلب کر نے والوں کی پنا ہ ‘‘
دوسرا: شر عی ذمہ داری نبھا نا اور انسانی اعلیٰ اقدار کی مضبوطی
جو شخص بھی میدا ن جنگ میں قد م رکھتا ہے اور دشمن کے مقا بل کھڑا ہوتا ہے اس کامقصد اپنی کامیابی اوردشمن کی شکست ہوتا ہے ، اما م حسینؑ کا بھی یہی مقصد تھا لیکن شکست اور کامیابی آپ کی نظر میں ایک الگ مفہو م رکھتی ہے جس کا بعض لو گوں کے لئے سمجھنا مشکل ہے ،یہی وجہ ہے کہ جب آپ کے ایک چاہنے والے طر ماح بن عد ی نے ایک منز ل میں آپ سے ملاقات کی اور آپ نے اس سے کو فہ کے حالا ت پو چھے تو اس نے جواب دیا کوفہ کے بڑے بڑے سردار اور قبا ئل کے رؤسا و سربر اہ ابن زیاد سے بھاری رشو تیں لے کر اس کے ساتھ مل چکے ہیں اور لوگوں کے دل آپ کے ساتھ ہیں لیکن ان کی تلو ا ریں آپ کے خلاف ہیں ،یا بن رسول اللہ آپ کو خدا کا وا سطہ اس سفر سے وا پس ہو جا ئیں ، آپ قبیلہ بنی طے کی طرف چلے جائیں کہ وہ بڑ ی پر امن اور دشمن کی پہنچ سے دور جگہ ہے۔آپ نے طرما ح کو شرعی ذمہ داری اور انسا نی اقدا ر کی مضبو طی من جملہ عہدوپیمان کی وفا دا ری جیسے اہم نکات کی طرف متو جہ کر تے ہو ئے فر ما یا :
’’میر ے اور اہل کو فہ کے در میا ن عہدو پیما ن ہو ا ہے جس کی وجہ سے میرا لوٹنا نا ممکن ہے دیکھیں نتیجہ کیا نکلتا ہے‘‘
علی سعادت پرور، فروغ شہادت ، ص ۱۸۵
یعنی میں نے کوفہ جاکرلو گوں کی دینی رہنما ئی ورہبریت کا ان سے وعد ہ کر لیا ہے اورانہوں نے بھی ہما ری ہر طرح کی مدد کا وعد ہ کر لیا ہے، اب میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنا وعدہ پورا کر وں اگرچہ اس راہ میں ہر طرح کے خطرات سے دو چا ر ہو نا پڑے ، چاہے کوفہ والے اپنے عہدوپیما ن کا پا س کریں یا نہ کریں ۔(۲)