Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، آنکھوں کا گریہ اور دل کا خوف، اللہ کی رحمت ہوتے ہیں، لہٰذا جب تمہیں یہ حاصل ہوجائیں تو دعا کو غنیمت جانو۔ مستدرک الوسائل حدیث5706

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

ٹیرر( دھوکہ سے قتل ) کا عدم جواز

سو ال ۲۸:حضر ت مسلم کے اس واقعہ کے پیش نظر کیا اسلامی مملکت میں کسی شخص کے اس طرح قتل کا حکم دیا جا سکتا ہے یا بغیر کسی حکم کے کسی کو اس طرح قتل کیا جا سکتا ہے ؟
جوا ب : اسلام لوگوں کے چاہے وہ مسلما ن ہو ں یا غیر مسلم ہوں شر ف و احترا م پر تاکید کرنے کے علا وہ اسلامی مملکت میں رہنے والے افراد کی جان و مال کی حفاظت اسلامی حکومت کی ذمہ داریوں میں سے قرا ر دیتا ہے ، جان کی حفاظت اور حق زند گی اسلام کی نظر میں اس حدتک اہمیت رکھتا ہے کہ اسلام ایک بے گناہ انسان کے قتل کوتما م انسانوں کا قتل اور ایک شخص کو زندگی دینے کو تمام انسانوں کو زند گی دینے کے برا بر قرار دیتا ہے۔(۴)
لہٰذازندگی کا حق خدا کا عطا کر دہ ہے اور اسے چھیننے کا کسی کو حق نہیں ہے سوا ئے ان ضروری مو ارد کے کہ جہاں ارتدا د ( جو کہ اسلامی معاشر ہ کے عمو می نظم و امنیت کوتبا ہ کر دیتا ہے) یا اسلامی نظام کے خلاف بغا وت و جنگ یا بے گنا ہوں کے قتل جیسی صورت حال پیش
(۵) مجلہ سیا ست خارجی سا ل ہفتم تا بستا ن و پا ئنہ، ۱۳۷۲شما ر ہ ۲و ۳ ،ص ۴۳۰
لہٰذازندگی کا حق خدا کا عطا کر دہ ہے اور اسے چھیننے کا کسی کو حق نہیں ہے سوا ئے ان ضروری مو ارد کے کہ جہاں ارتدا د ( جو کہ اسلامی معاشر ہ کے عمو می نظم و امنیت کوتبا ہ کر دیتا ہے) یا اسلامی نظام کے خلاف بغا وت و جنگ یا بے گنا ہوں کے قتل جیسی صورت حال پیش آجائے تو یہ خاص موارد اپنا حکم رکھتے ہیں ،اگر کوئی شخص اپنے ظلم و زیادتی اور اپنے اختیارات سے غلط فا ئد ہ اٹھا تے ہو ئے اپنے آپ سے حق زندگی چھین لے اور کسی اسلامی سزا کا اپنے آپ کو مستحق بنا لے تو یہ سب بھی اسلام کے عا دلا نہ نظا م عد ل کے اصولوں کے مطابق انجام پائے گا اور قتل کے حوا لے سے صریح و صاف جوا ب کے لئے مفہو م شناسی کی بحث کی ضرورت ہے ۔
ڈیو ڈ آرو ن شورٹزنے ایک مقالہ بعنوان ’’بین الملل ٹیرز اور اسلامی حقوق ‘‘ میں لکھاہے، اس چیز کے بارے صحیح قضا ئی نقطہ نظر مغربی قو انین کی نظر میں منحصر نہیں ہو نا چاہیے، مغرب اگر بین الاقوا مین ٹیر ر ا زم کو صحیح طور پرسمجھ کر رو کنا چا ہتا ہے تو اسے دیکھنا ہو گا کہ اسلامی حقو ق یعنی شر یعت کا نظر یہ ٹیر ر اور شہا دت کے حوا لے سے کیا ہے اور اس کا کیا حل پیش کر تا ہے۔ (۵)
لہٰذاب ہم اس مسئلہ کی وضا حت کے لئے پہلے مغر بی اد ب اور پھر اسلامی ادب میں ٹیرر کے مسئلہ کے با رے میں تحقیق کر تے ہیں ـ:
الف ) ٹیر ر( دہشت گردی) مغر بی ادب
مغر بی لغا ت میں ٹیر ر کی تعر یف یوں کی گئی ہے :
’’ایک فردیا گر و ہ کا جابرانہ رو یہ اپنانایا دہشت گردی و دھو نس جیسے طریقو ں سے کوئی سیاسی مقصد یا اقتدار حاصل کر نے کی کوشش کر نا ‘‘
مغر ب میں ٹیرر کے مفہو م کی بہت اہمیت ہے کہ ہر ملک نے اپنے مفاد کی بنیا د پر اس کی الگ تعریف کی ہے جس کی وجہ سے اس کے مصا دیق میں اختلاف واقع ہو ا ہے۔ مثلاً جولوگ یا طبقات زند گی کے حق سے محرو م ہیں وہ جو سخت اقدا ما ت اٹھا تے ہیں اگرچہ وہ عام عوام کے خلاف نہ ہوں کیا انہیں بھی دہشت پسند ی کی زمرے میں شمار کیا جائے گا۔
کیا فلسطینی جنہیں تما م حقو ق سے محرو م کر دیا گیا ہے۔ جب وہ اسرا ئیل کی دہشت گردی کے خلاف اپنا دفا ع کر تے ہیں مو ر د مذمت قرار پا ئیں گے، لہٰذا انہیں اسرا ئیلی غاصبوں کے سامنے سر جھکا دینا چاہیے؟ یا اصل دہشت گرد اسرا ئیل اور اس کی حامی ان حکومتوں کو قرار دیا جا نا چاہیے جنہوں نے نا حق ان انسا نوں کو حق زندگی سے محرو م کر دیا ہے؟
ب )اسلامی ادب میں ٹیرر
اسلامی ادب میں ٹیر ر کے ہم معنی و مترادف لفظ ’’الفتک‘‘ہے جس کے معنی کسی کو دھو کے سے یا چھپ کر قتل کر نے کے ہیں ۔
فقہی نقطہ نظر سے :
۱)بے گنا ہ انسانوں کا قتل حرا م ہے، چاہے وہ کسی فر قے یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں اور جہاں پر بھی ہوں ۔رہبر معظم انقلا ب سید علی خا منہ ای نے امر یکہ میں نا ئن الیو ن (نو ستمبر ) کے واقعہ کی جس میں بہت سے بے گنا ہ افرا د ما رے گئے تھے مذمت کر تے ہوئے فر ما یا تھا کہ:
’’ اسلام کی نظر میں بے گناہ و بے دفا ع انسانوں کا قتل چاہے وہ عیسائی ہوں یا مسلمان یاکوئی اور ، ہرجگہ پرہرطریقہ سے ایٹم بم کے ساتھ یا میز ائل کے ساتھ یا کیمیائی اسلحہ کے ساتھ یا جنگی جہازوں کے ساتھ کوئی ملک یا تنظیم یہ کا م کر ے سب کے سب حرام ہیں اور فرق نہیں کر تا کہ یہ قتل ہیر و شیما ہو ، نا گاساکی میں ہو ، قا نا میں ہو، صبر ا و شتیلا میں ہو، دہر یاسین میں ہو، یا بوسنیا میں ہو ،عرا ق میں ہو یا واشنگٹن و نیویارک میں ہو ‘‘
اسی وجہ سے رسو ل ؐ خدا سے رو ایت وار د ہے:
(۶) محمد ی ری شہر ی ، میز ان الحکمۃ ،ج۹ ،ص ۴۵۰۸
الا یما ن قیدالفتک یا الاسلام قید الفتک (۶)
یہ رو ایت اس مو ر د کے بارے میں ہے اگر چہ اس کا اطلا ق دوسرے ادلہ کے پیش نظر مراد نہیں ہوگا اور اسے قید لگے گی ۔
۲)بعض افرا د اپنے جر م کی وجہ سے مہدورا لدم ( جن کا خو ن مبا ح ہو ) شما ر ہوتے ہیں ان افراد کا قتل قوا نین کے مطا بق وا جب ہو جا تا ہے ۔ ان کے جر م کی نو عیت ہوسکتاہے مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شرکت کی ہو یااسلامی نظا م کے خلاف قیا م کیا ہو یا اسلامی مقدسات کے خلاف سا زش میں شر یک ہو ں جیسے رسو ل ؐ خدا و آئمہ ہد یٰ کو گا لیاں دینا یا انہیں اذیت رسا نی کر نا ، یا ظالم و طا غو تی حکومت کہ جس کے ہا تھ ہز اروں مسلمانوں کے خون سے آلو دہ و ر نگین ہوں کی مضبو طی کے لئے کوششوں میں شریک ہوں ۔ یہ بات تاریخی طور مسلّم ہے کہ فتح مکہ کے مو قع پر لشکر اسلام کے مکہ میں داخل ہو نے سے پہلے رسول ؐ خدا نے تما م سپہ سالاروں کو بلا کر ارشا د فر ما یا :
’’ میری پو ری کوشش رہی مکہ بغیر خو نرریزی کے فتح ہو، لہٰذا تم لوگ مقابلہ نہ کر نے والوں میں سے کسی کو قتل نہ کر نا لیکن ان میں سے دس افرا د ایسے ہیں کہ جنہیں جہاں بھی پا ؤ حتیٰ کہ اگر غلاف کعبہ سے لٹکے ہو ئے ہوں انہیں فو راً قتل کر دینا‘‘
یہ دس افرا د یہ تھے :
۱۔ عکر مہ بن ابی جہل ۲۔ ھبا ر بن اسو د ۳۔ عبدا للہ بن سعد ابی سرح
۴۔ مقیس بن صبا بہ لیثی ۵۔ حو یرث بن نفیل ، ۶۔ عبدا للہ بن خطل
(۷) الف۔ابن ہشا م ، اسیرۃ النبو ۃ ،ج۴ ،ص ۵۱،۵۴،ب: تفسیر مجمع البیا ن ،ج۹ ، ۱۰ ،ص ۸۴۸ ( تفسیر سور ہ نصر)پ : القمی عباس ،سفینۃ البحا ر، ج۷، ص ۱۷، ت۔واقدی محمد بن عمر مغازی، تاریخ جنگ ھا ی پیا مبر ؐ ج۲ ص ۶۳۱،ث ۔جعفر سبحا نی، فراز ھا یی از تا ریخ پیا مبر اسلامؐ ،ص ۴۴۳
۷۔ صفوا ن بن امیہ ۸۔ وحشی بن حر ب (قاتل حمزہ) ۹۔ عبداللہ بن الزبیر ی
۱۰۔ حا رث بن طلا طلہ ۔
اور چا ر عو رتوں کا بھی یہی حکم تھاجن میں سے ایک ہند زوجہ ابوسفیان تھی اور دو عورتیں گانے والی تھیں جو رسو ل ؐ خدا کے خلا ف تو ہین آمیز ترانے گاتی تھیں ، یہ سب افرا د مجرم یا سازشی تھے جن کے بارے میں حضو ر اکر م ؐ نے حکو متی حکم کے تحت قتل کا حکم صا در فرمایا۔(۷)
وہ نکتہ جس کی بہت اہمیت ہے وہ اس مسئلہ کے نا فذ کر نے کا طر یقہ کا ر ہے:
پہلا یہ کہ : یہ حکم مخفی و پو شید ہ نہیں ہے جب ولی امر مسلمین سمجھے کہ ایک شخص یا ایک گروہ دہشت گردی کی کا رو ائیوں میں مصر و ف رہا ہے یا سا زشی عنا صرہیں جن کو ان کے جرم کی پاداش میں سزا دینا ضروری ہے جو اب اسلامی سزامیں مطلوب ہیں اور اسلامی حکومت کے قابو نہیں آرہے اس صورت میں وہ علی الا علا ن یہ حکم صا در کر تے ہیں جہاں بھی ملے اسے قتل کر دیا جا ئے، جیسا کہ رسول ؐ خدا نے مذ کو رہ افراد کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور سپہ سالاروں کے ذریعہ لشکر کے تما م سپا ہیوں تک یہ حکم پہنچا دیا گیا۔ اس وجہ سے تما م لشکر کو بھی معلو م ہو گیا کہ کن افرا د کو قتل کیا جا نا ہے اور کفا ر کو بھی پتہ چل گیاکہ کون لو گ مہدور الدم ہوچکے ہیں ۔ اس مسئلہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسلامی حکومت کے باسیوں یا دوسرے افرا د کی امنیت کو خطر ہ در پیش ہو ،بلکہ اصل و بنیادی اصول وہی ہے کہ سب انسانوں (خواہ وہ کوئی بھی مسلک یا عقیدہ رکھتے ہو ں ) کی جا ن ، نا مو س اور ما ل محفو ظ ہیں اور ان کے تما م حقو ق محفو ظ ہیں ، سوائے ان افرا د کے جنہوں نے جر م و خیا نت کا ارتکا ب کیا ہو ،ایسی صورت میں بھی ان کا حکم واضح و علی الا علا ن بیا ن کیا جا ئے گا ،اما م خمینی ؒ نے سلما ن رشدی کے بارے میں اس طرح حکم صاد ر فرما یا کہ:
’’میں تما م دنیا کے غیو ر مسلمانوں کو مطلع کر دینا چاہتا ہوں کہ
(۸) صحیفہ نور ،ج۲۱، ص ۸۶
’’میں تما م دنیا کے غیو ر مسلمانوں کو مطلع کر دینا چاہتا ہوں کہ ’’آیات شیطانی ‘‘نامی کتا ب کا مصنف جس نے اسلام ، رسول ؐ خدا اور قرآن کے خلاف کتا ب لکھی ہے ، نیز اس کے نا شر جو اس کتاب کے مطا لب سے آگا ہ و وا قف تھے سب حکم اعدا م (قتل) سے محکوم ہیں ،میں غیرت مند مسلمانوں سے چاہتا ہوں کہ ان افرا د کو جہاں بھی پائیں انہیں قتل کردیں اور جو بھی اس راہ میں مارا جائے انشاء اللہ شہید ہو گا اور اگر کسی کو مصنف کتاب کے بارے میں خبرہو لیکن وہ خو د اس کے قتل پر قا درنہ ہوتوا س پر لازم ہے کہ لوگوں کو اس کے بارے میں خبردے تاکہ اس کے اعما ل کی سزا دی جاسکے ‘‘(۸)
اسی طرح رہبر معظم سید علی خا منہ ای مد ظلہ نے بھی قا نو نی و غیر قا نو نی شد ت کے حوالے سے صریح طور پر فر ما یا:
’’ بعض سا زشی عنا صر کے قتل کا حکم جو کہ اسلامی عدا لت کی پہنچ سے دور ہیں ، اسلام میں موجود ہے لیکن حا کم اسلام جب بھی ایسا حکم صادر کر نا چاہے تو اسے صاف و علی الاعلان کہنا چاہیے نہ کہ مخفی و پو شید ہ ایسا حکم جا ری کرے ‘‘
دوسرا یہ کہ : جن مو ار د میں ما ر پیٹ کی ضرور ت پیش آتی ہے سا ب النبی والا ئمہ (رسول ؐ خدا اور آ ئمہ طا ہرین کو گا لی دینے والے) کے علا وہ در ج ذیل امور مد نظر رکھنا ہوں گے۔
الف ) ایسے تمام مو ا رد میں آگا ہ اسلامی رہبر سے اذن و اجا ز ت کی ضرور ت ہو گی ( جو کہ غیبت امام کے دور میں فقہا ء ہیں ) (۹)
(۹) تحر یر الو سیلۃ، ج۱ ،ص ۴۶۲
(۱۰) مزید تفصیلا ت دیکھیں : الف : فاضل لنکرا نی ،، تفصیل الشریعہ فی شر ح تحر یر الوسیلہ کتاب الحدود،ص ۳۲۵،۳۱۸،ب مو سوی اردبیلی آیت اللہ سید عبدا لکریم ،فقہ الحدو د والتعزیرات، ص ۵۲۱۔۵۱۱
ب ) اگر اسلامی حکومت مو جو د ہو تو خو د حکومت جس کی سر برا ہی عا دل ،مدبر ،سمجھدار اور فقیہ کے ہاتھ میں ہے اقدا م کر ے گی ، لیکن اگر تما م شہر وں میں حکومت یا مو ثر فقیہ موجود نہ ہو تو تما م فقہا ء میں سے کوئی بھی اس کی اجا ز ت دے سکتا ہے۔
ج)یہ اجا ز ت کسی فر د یا جماعت کو اس کے موارد کے تعین کے ساتھ دی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ فقیہ بلند مر تبہ و بے نظیر اما م خمینی ؒکے مبارزائی پر وگر ا م میں سر فہر ست یہ تھا کہ سابق فا سد حکومت اور اس کے کار ندوں کی نابو دی کے لئے کوششیں کی جا ئیں ۔
تیسرا یہ کہ : رسو ل ؐ خدا ، آئمہ ہد یٰ اور سید ہ فا طمہ زہر اء علیہم السلام کو نعو ذ با للہ گا لی دینے والے کا الگ حکم مقرر کیا گیا ہے۔ (۱۰)
خلا صہ یہ ہو ا کہ اسلام کی نظر میں بے گنا ہ انسانوں کا قتل دہشت گر دی کے عنوا ن سے ہو یا اس کے علا وہ ، سیا سی مقصد کی خا طر ہو یا مذہبی ، مسلمان کاہو یا عیسا ئی یا یہودی یا کوئی اور، دنیا میں جہاں بھی ہو ،جس طر یقہ سے بھی قتل کیا جا ئے صحیح نہیں ہے ،بلکہ یہ کام گناہ شمار ہوتا ہے اور اس کے مرتکب کو سز ادی جا ئے گی۔
اب وہ اعدا م اور پھا نسیا ں جو انقلا ب اسلامی سے پہلے انجا م پا ئی ان کی دوقسمیں تھیں :
الف :ـ ان میں سے بعض گر وہ اور انجمنیں جیسے فدا ئیان اسلام یہ لوگ شرعی حدو د کے پابندتھے اور مجتہد ین کے سا تھ را بطے میں تھے، اگر وہ کسی کے قتل کے مر تکب ہو تے تو مجتہد جامع الشرا ئط سے اس کے مفسد اور وا جب القتل ہو نے کا باقا عد ہ فتو یٰ لیتے تھے جیسے ہژیر، کسروی ، رزم آراو… وغیر ہ کا قتل تھا۔ لہٰذا یہ قتل شر عی معیا ر کے مطا بق تھا ،چو نکہ فقیہ
(۱) نمونہ کے طور پر دیکھیں : عمید زنجانی انقلا ب اسلامی ایرا ن و ریشہ آن سید حمید روحانی ، نہضت اما م خمینی منوچہر محمد ی، تحلیل بر انقلاب اسلامی ، علی دوانی ، نہضت روحانیوں ایران ، جمیلہ رویا ویی انقلا ب اسلامی ایران وا مریکہ ۔
(۲) میشل فوکو، ایرانی ھاچہ رویا یدرسردارند ؟ ترجمہ حسین معصومی ھمدا نی
الف :ـ ان میں سے بعض گر وہ اور انجمنیں جیسے فدا ئیان اسلام یہ لوگ شرعی حدو د کے پابندتھے اور مجتہد ین کے سا تھ را بطے میں تھے، اگر وہ کسی کے قتل کے مر تکب ہو تے تو مجتہد جامع الشرا ئط سے اس کے مفسد اور وا جب القتل ہو نے کا باقا عد ہ فتو یٰ لیتے تھے جیسے ہژیر، کسروی ، رزم آراو… وغیر ہ کا قتل تھا۔ لہٰذا یہ قتل شر عی معیا ر کے مطا بق تھا ،چو نکہ فقیہ جامع الشرا ئط کا فتویٰ اسلامی قوانین کی رو سے معتبر اور حجت ہے۔
ب:۔ وہ قتل جو سیا سی اہدا ف وغیر ہ کی خا طر بغیر کسی فقہی و شر عی حکم کے انجا م پا تے جیسے کہ مجاہدین خلق یا کیمو نسٹوں نے قتل کئے ایسے قتل اسلامی قو انین کے معیا ر پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہو ں گے۔