Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام محمد باقر نے فرمایا، جو شخص بددیانت کو امین بنائے گا وہ خدا سے کسی قسم کی شکایت نہیں کرسکتا۔ وسائل الشیعۃ حدیث24217

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

عا شورہ اور دین وسیا ست میں رابطہ

سوال۲۶ : کیا اما م حسین علیہ السلام کا قیا م اورعا شورائی نہضت ان لوگوں کے خلاف دلیل بن سکتے ہیں جو دین و سیا ست کی جدائی کے قائل ہیں ( یعنی سیکو لرازم )؟
جو اب: بعض لو گ دین و سیاست کی جدا ئی ثابت کر نے کے لئے یہ بات کر تے ہیں کہ اما م حسینؑ کا قیا م سو فیصد ڈیمو کریٹک اور لوگوں کی خواہش کے مطا بق انجا م پا یا ، اس طریقے سے وہ لوگ خدا وند کی حاکمیت نفی کی نسبت امام حسینؑ کی طرف دیتے ہیں ان کے بقو ل :
’’اما م حسینؑ کا مدینہ سے مکہ کی طرف سفر اور مکہ سے کر بلا و کوفہ کی طرف سفر ،کوفہ کے لوگوں کی باقا عد ہ دعو ت اور خطو ط اور شدید اصرار کی وجہ سے تھا ،تاکہ آپ انہیں امو ی حکمرانی کے ظلم و فسا د سے نجا ت دلا کر ان کی حکمرا نی و اما رت کے معاملات خو د سنبھالیں ، یہ دعو ت سوفیصد عوا می اور ڈیمو کریٹک تھی‘‘
اما م حسینؑکی جنگ ، نہضت آپ کی اور آپ کے سا تھیوں کی شہا دت جو کہ ایک مکمل دفا عی عمل تھا جو اسلام کی حیثیت اوراپنی جا ن و نا مو س کی حفا ظت کی خا طر انجا م پایا ، اس کے علا وہ آپ کا عمل یہ بھی ثابت کر تا ہے کہ اما م اور اسلا م کی نظر میں خلافت و حکومت نہ یزید و خلفا ء کا حق تھی ، نہ آپ کا اپنا حق تھی اور نہ خدا کی طر ف سے تھی بلکہ امت کی طرف سے ان کے اپنے انتخا ب سے تھی۔ (۱)
(۱) مہد ی بازر گا ن ، آخر ت و خدا ہد ف بعثت تہران، ص ۴۳
تاریخی واقعا ت اور اما م حسینؑ کی گفتگو ؤں کی تحلیل سے مکمل واضح ہو جا تا ہے کہ امام حسینؑ کے سیا سی اقدا ما ت الٰہی ودینی تھے جو کہ سیکو لرا زم کے حامی حضرا ت کے نظریہ کو ر د کر تے ہیں ۔ اس موضوع کی وضاحت اور یہ کہ اما م حسینؑکے اقدا ما ت کس نوع کی حکومت کی خاطر تھے، ضرور ی ہے کہ دینی حکو مت اور سیکرلر حکومت کے در میان اہم فرق کو بیان کیا جا ئے کیونکہ حکومت کی یہ دو اقسام بڑے اہم امو ر جیسے حکومت کا فلسفہ اوراس کے اہدا ف، حکومت کے جوا ز کی نو عیت ، اسلامی حا کم کی شر ائط وغیر ہ میں بنیادی فرق رکھتی ہیں ، لہٰذا مختصر طور پر ان موضو عات کے بارے میں سید الشہد ا ء کا نظر یہ بیا ن کر تے ہیں :ـ
پہلا )حکومت کا فلسفہ اورا ہدا ف
اما م حسین علیہ السلام سیکولریا دنیا میں را ئج دوسرے نظام حکومت کے برخلاف حکومت کے مقاصد کو لوگوں کے امن وامان ، دنیا وی آسا ئش اور معیشت جیسے مسا ئل سے کہیں بڑھ کر سمجھتے تھے ،آپ نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے کہ جب ابھی تک کوفیوں کی دعوت وبیعت کی بات ہی نہیں ہو ئی تھی،اپنے قیا م کے مقا صد و اہدا ف میں سے ایک ہدف معاشر ہ کی اصلاح اور وظیفہ امر بالمعر وف و نہی عن المنکر کی انجا م دہی کو قرار دیا۔
انما خر جت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی ارید
ان امر با لمعر و ف و انہیٰ عن المنکر (۲)
اما م علیہ السلام کے اس ہد ف کا معنی یہ ہو گا کہ اگر اما م قطع نظر از علم غیب کوفیوں کی عہد شکنی اور حکومت کے تشکیل نہ پا سکنے کے با رے میں مطمئن ہو تے تب بھی آپ قیا م ضرور فر ماتے کیونکہ آپ کے قیام کا اصلی مقصد دین کا احیا ء تھا، حکومت و اقتدا رتو بعد کے مراحل سے مربوط تھے، اما م حسین علیہ السلام نے معاویہ کے آخر ی ایام میں حج کے موسم میں منیٰ میں ایک تو بڑ ااہم خطبہ ارشاد فرما یا جس میں اس دور کی بڑ ی بڑ ی سیا سی و مذہبی شخصیات
(۳) تحف العقول ،ص ۲۴۳
(۴) سید جو ا د ورعی ، حکومت از دید گا ہ اما م حسین،ؑ ص ۲۸۸
بھی موجود تھیں اس میں آپ نے حکومت کے حصول کے حوا لے سے اپنے مقا صد کو یوں بیان فر ما یا :
اللھم انک تعلم انہ لم یکن ما کا ن منا تنا فسا فی سلطان ولا التما سا فی فضو ل الحطا م ولکن لنزی المعالم من دینک ونظھر الاصلاح فی بلا دک و یا من المظلومون من عبا دک و یعمل بفرا ئضک و سننک
واحکا مک ۔(۳)
آپ نے فرما یا نہ حکومت حاصل کر نے کا شو ق ہے اور نہ دنیا وی مال و ثر و ت حاصل کر نے کی تمنا بلکہ میر امقصد در ج ذیل امور ہیں :
۱)دین الٰہی کی نشا نیوں کو آشکا ر کر نا
۲)روئے زمین پر اصلا ح کر نا
۳)مظلوموں کے لئے امنیت ایجا د کر نا
۴) الٰہی و اجبا ت ، سنن اور احکا م پر عمل کو ممکن بنا نا (۴)
اما م حسین علیہ السلام نے مکہ سے کوفہ کے راستے میں منز ل صفا ح پر فرزدق جوسے گفتگو فرما ئی اس میں آپ فر ما تے ہیں :
یا فرزدق ان ھولاء قو م لزمو ا طا عۃ الشیطا ن وترکوا اطاعۃ الرحمن واظھر وا لفسا د فی الا رض، وابطلوا الحد و د و شربوا الخمو دو استا ثر وا فی اموال الفقرا و المسا کین وانا اولی من قام بنصرۃ دین اللّٰہ واعزاز شرعۃ والجھا د فی سبیلہ لتکو ن کلمۃ اللّٰہ ھی العلیاء۔(۵)
(۵) مو سو عہ کلما ت اما م حسینؑ ،ص ۳۳۶
اس گفتگو میں اما م پا کؑبنی امیہ کو اسلامی معاشرے کے اندر سب سے پہلے حقیقی سیکولر کے طور پر ذکر کر تے ہیں ،جو دین الٰہی کو ایک طرف کر دینا چاہتے ہیں اور آپ ان کے مقابلے سے اپنا مقصد دین الٰہی کی برپائی بیا ن کر تے ہیں اور آپ بڑی وضا حت سے حکومت کا فلسفہ کلمۃ اللہ کی برتری کو قرار دیتے ہیں او ر واضح ہے کہ اگر دین خدا مکمل طورپر رائج ہو جا ئے تو اسی میں لوگوں کی دینی و اخروی سعا دت ہے۔
دوسرا )الٰہی حکومت کا جواز
اما م حسین علیہ السلام کی گفتگو اور خطبا ت پر تو جہ سے یہ بات ثا بت ہو جا تی ہے کہ حکومت کا جوا ز صرف الٰہی ہو نے کی صورت میں ہے اور فقہا ء کی حکو مت کو یہ الٰہی جواز حاصل ہے ۔ لوگوں کی بیعت اور رائے کو جوازو مشروعیت حکومت میں کوئی دخالت حاصل نہیں ہے ،اگرچہ حکومت کے مو ثر ہو نے میں یہ چیز دخیل ہے اور نا واقف ،مغرب زدہ یا مفاد پرست افراد جو حکومت کو سیکو لر قراردیتے ہیں ( حتیٰ کہ ظہو ر و حضو ر اما م کے دور میں بھی ) ان کا مقصد حکومت سے الٰہی و آسما نی پہلو کا انکا ر کر نا ہے۔
جب مد ینہ کے گو ر نر نے اما م حسین علیہ السلا م سے یز ید کی بیعت کا تقا ضا کیا تو آپ نے فرمایا :
ایھا امیر انا اہل بیت النبو ۃ و معد ن الر سا لۃ و مختلف الملا ئکۃ و محل الر حمۃ و بنا فتح اللّٰہ وبنا یختم و یز ید رجل فا سق شا ر ب الخمر و قاتل النفس المحترمۃ معلق بالفسق و مثلی لا یبا یع مثلہ(۶)
اس گفتگو میں آ پ اسلامی معا شرہ پر اپنے استحقا ق حکومت اور حکومت یزید کے
(۶) بحارالا نوار ،ج۴۴ ص ۳۲۵
(۷) قدردا نی قرا ملکی، محمد حسن ، سیکو لا رلیسم ، درمسیحیت واسلام ،ص ۳۱۷
(۸) موسوعہ کلما ت امام حسینؑ ،ص ۲۷۸
اس گفتگو میں آ پ اسلامی معا شرہ پر اپنے استحقا ق حکومت اور حکومت یزید کے ناجائز و غیرمشروع ہو نے کے دلا ئل ذکر کر تے ہیں جس میں فر ما یا یزید، الٰہی انتخا ب نہ رکھنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اسلامی مملکت کی حکمرا نی و رہبر ی کا جواز نہیں رکھتا بلکہ الٰہی محار م کے ارتکاب اور حدو د الٰہی کی پاسدا ری نہ کر نے کی وجہ سے اس کی بیعت میں کسی قسم کی کوئی مصلحت بھی نظر نہیں آتی۔
اکثر لوگوں کی طرف سے یزید کی بیعت کے با وجو د اما م حسین علیہ السلام کی اس کی بیعت نہ کرنا اور اس کے خلاف قیا م کر نا ثا بت کر تا ہے کہ حا کم کی الٰہی مشر و عیت ضروری ہے اور دین و سیا ست میں گہر ا ارتبا ط موجود ہے جس سے سیکر لر نظر یہ کا رد ثا بت ہو تا ہے اگرچہ آپ یزید کے خلاف قیام نہ کرتے تب بھی آپ کا صرف یز ید کی بیعت نہ کر نا بھی اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے کافی تھا۔اما م حسینؑنے متعدد مو اقع پر یہ بات ذکر کی کہ ہم ائمہ علیہ السلام کو حکومت کا جوا ز و مشروعیت وحی و پیغمبر اکرم ؐ کے ذریعے حاصل ہو ئی ہے آپ فرماتے ہیں ۔
ان مجا ری الا مو ر والا حکام علی اید ی
العلما ء باللّٰہ الال مفا ء علی حلالہ و حرامہ(۷)
اس روایت میں بڑ ی وضا حت سے اس نکتہ کی طرف ا شا ر ہ ہو ا ہے کہ آپ نہ صرف لوگوں کو حکومت کا متولی نہیں سمجھتے بلکہ آپ کی نظر میں حکمرانی کا حق علماء کوحاصل ہے کہ اس کے یقینی مصداق خود ائمہ معصومینؑہیں ۔ (۸)
جب عبد اللہ بن زبیر نے آپ سے یزید کی بیعت کے بارے میں سوا ل کیا تو آپ نے فرمایا ہرگز اس کی بیعت نہیں کروں گا اورا س کی وجہ یہ ذکر کی کہ بھا ئی حسن کے بعد اسلامی معاشرہ میں حاکمیت و حکمرانی کاحق صرف مجھ کو حاصل ہے۔
(۹) مو سوعہ کلما ت اما م حسین،ؑ ص ۳۱۵
(۱۰) حوالہ سابق، ص ۳۷۷
(۱۱) مو سوعہ کلما ت اما م حسینؑ، ص ۳۱۷
انی لا ابایع لہ ابدا لا ن الا مر انما کان لی من بعد اخی الحسن (۹)
اسی طرح آپ نے بصرہ والوں کو جو خط لکھا اس میں فر ما یا :
ہم اہل بیت رسول ہیں ، ہم ان کے ولی،وہی اوروارث ہیں اور حضو ر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جا نشینی کے لئے سب سے زیادہ ہم حقدارہیں ، دوسروں نے یہ حق ہم سے چھین لیا اور ہم وحدت کی خاطر خاموش ہو گئے، حالانکہ ہم یہ بات جا نتے تھے کہ امر ولایت کے ہم ہی حقدا ر ہیں ۔ (۱۰)
اسی طرح کوفہ کے سر کر دہ افرا د کے نام خط میں آپ نے فرمایا:
انی احق بھذ ا الا مر لقرابنی من رسول اللّٰہ (۱۱)
’’میں امر حکومت کا زیا دہ حق رکھتا ہوں اپنی قرا بت رسو ل کی وجہ سے ‘‘
تیسرا ) اسلامی حاکم کی شرائط
اما م حسین علیہ السلام کی نظر میں حکومت کا فلسفہ و مقصد دینی احکا م و قو ا نین کی حکمرا نی ہے، تاکہ اس کے زیر سایہ لوگوں کو دنیا و آخر ت کی سعا دت حاصل ہو سکے اور اس کی مشروعیت وجواز صرف الٰہی انتخا ب و نصب سے ہے، لہٰذا حا کم کے لئے خا ص شر ائط کا ہو نا ضرور ی ہو گا ۔جیسے :
۱)احکام الٰہی کاعلم
اما م حسین علیہ السلام کی خلفا ء کے ساتھ مخالفت کا ایک محو ر یہی نکتہ تھا ۔آپ نے ایک
اما م حسین علیہ السلام کی خلفا ء کے ساتھ مخالفت کا ایک محو ر یہی نکتہ تھا ۔آپ نے ایک گفتگو میں خلیفہ دوم کو ارشاد فر ما یا :
صر ت الحا کم علیھم بکتا ب نز ل فیھم لا تعرف
معجمہ ولا تد ری تا ویلہ الا سما ع الا ذان (۱۲)
’’تم ان پر حا کم بن گئے ہو اس کتا ب کے ذریعے جو ان ( اہل بیتؑ)پر نا زل ہو ئی اور تم اس کتا ب سے کچھ نہیں جا نتے، نہ سر بستہ مطالب کو نہ تا ویل کو سوا ئے اس کے جو سنی سنا ئی با تیں ہیں ‘‘
آپ نے منٰی میں بہت سی سیا سی و مذ ہبی شخصیا ت کے اجتما ع میں فر ما یاـ:
’’امور کااختیار علماء باللہ کے ہا تھ میں ہونا چاہیے جو کہ خداو ند کے حلال و حرا م کے امین ہیں اور اما م کی موجودگی میں حضور امام میں اس کا روشن مصدا ق خو د ا ما م معصو مؑہے‘‘
۲)خدا کی کتاب اور سنت رسول پر عامل ہو
آپ نے کوفیوں کے نا م اپنے ایک خط میں اس با رے میں فر ما یا :
فلعمر ی فا الا ما م الا العامل بالکتا ب والآخذبا لقسط والدا ئن بالحق والحا بس نفسہ علی ذات اللّٰہ (۱۳)
اس فرما ن میں آپ نے واضح لفظو ں میں قرا ٓن پر عمل اور را ہ خدا میں اپنے آپ کو وقف کر دینے کو حا کم کی شرائط میں قرا ر دیا ہے۔
۳)عدالت برپا کر نے والا ہو
اما م حسینؑ کی نظر میں اسلامی حکمرا ن کی اہم تر ین شر ا ئط میں سے عدل و انصاف کا برپا کرنا ہے ،جیسا کہ آپ نے کوفیوں کے نا م اپنے خط میں اس بارے فرما یا والا ٓخذ بالقسط اور نیز متعدد دوسر ے مو ا ر د میں آپ نے خلفا ء اور امو ی حکمر ا نوں کی عدم
(۱) مقتل ابی مخنف
اما م حسینؑ کی نظر میں اسلامی حکمرا ن کی اہم تر ین شر ا ئط میں سے عدل و انصاف کا برپا کرنا ہے ،جیسا کہ آپ نے کوفیوں کے نا م اپنے خط میں اس بارے فرما یا والا ٓخذ بالقسط اور نیز متعدد دوسر ے مو ا ر د میں آپ نے خلفا ء اور امو ی حکمر ا نوں کی عدم مشروعیت کی وجہ اس شر ط کے نہ ہو نے کو قرار دیا۔
بنا برین اما م حسینؑ اور عا شورا ئی فر ہنگ کے مطا بق دین کا سیا ست کے ساتھ انتہائی محکم و اٹو ٹ رابطہ ہے ، حکومتوں کے اہدا ف و مقا صد، حا کم و امیر کی شر ائط و جو از، حکومت کی کار کر دگی سب کے سب الٰہی تعلیما ت و احکا م کی بنیا د پر ہو نے چاہئیں اور اسی ہدف کی خا طر ہوں تا کہ دنیاوی و آخر ت کی سعا دت کی ضمانت فراہم ہو سکے ۔