Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، تجربے سے عبرت حاصل کرو۔ غررالحکم حدیث10150

محرم الحرام کے بارے میں اہم سوال و جواب

یزید کی حکومت کے خطرات

سوا ل۲۰ : ولید نے جب اما م حسینؑ سے یز ید کی بیعت طلب کی تواما مؑ نے{ انا للّٰہ واناا لیہ راجعون} پڑھا، اس کا مطلب کیا تھا ،کیوں امام پا کؑ نے فرما یا کہ یز ید کی حاکمیت کی صورت میں اسلام کا فا تحہ پڑھ دیا جائے؟
جوا ب : اما م حسینؑ نے جس خطر ے کی طرف اشا رہ کیا ہے یہ کلمہ استر جاع کہلا تا ہے اور اس کے پڑ ھنے سے اس خطرے کو استر جاعی خطرہ کہہ سکتے ہیں اور یہ اس دور میں اسلام یا اسلامی معاشروں کو پیش آنے والے خطرا ت میں سے سب سے اہم اورسب سے زیادہ تباہ کن خطر ہ تھا۔ اس ارتجاعی دیو کا مطلب جاہلیت، بت پر ستی اور شرک کے دور کی طرف لوٹنا تھا اورآہستہ آہستہ اس کا یہ منحو س و خو فنا ک چہر ہ نما یاں ہو تا جا رہا تھا ،بنی امیہ کے اسلامی معاشرہ کی دینی اقدار کو مٹا نے ، اسلامی نظا م کو ختم کر نے اور دینی شعا ئر کی تحقیر جیسے خطرناک عزائم ، دھونس و زبر دستی کے ذریعے نافذ کئے جا رہے تھے ۔ بڑے بڑے اسلامی شہر جہاں بڑی بڑی اسلامی شخصیات سکونت پذیر تھیں جیسے مکہ و مدینہ ، کوفہ اور بصرہ
(۱) سمو المعنی ،ص ۲۸
(۲) تذکر ہ الخو اص، ص ۲۸۳
جوا ب : اما م حسینؑ نے جس خطر ے کی طرف اشا رہ کیا ہے یہ کلمہ استر جاع کہلا تا ہے اور اس کے پڑ ھنے سے اس خطرے کو استر جاعی خطرہ کہہ سکتے ہیں اور یہ اس دور میں اسلام یا اسلامی معاشروں کو پیش آنے والے خطرا ت میں سے سب سے اہم اورسب سے زیادہ تباہ کن خطر ہ تھا۔ اس ارتجاعی دیو کا مطلب جاہلیت، بت پر ستی اور شرک کے دور کی طرف لوٹنا تھا اورآہستہ آہستہ اس کا یہ منحو س و خو فنا ک چہر ہ نما یاں ہو تا جا رہا تھا ،بنی امیہ کے اسلامی معاشرہ کی دینی اقدار کو مٹا نے ، اسلامی نظا م کو ختم کر نے اور دینی شعا ئر کی تحقیر جیسے خطرناک عزائم ، دھونس و زبر دستی کے ذریعے نافذ کئے جا رہے تھے ۔ بڑے بڑے اسلامی شہر جہاں بڑی بڑی اسلامی شخصیات سکونت پذیر تھیں جیسے مکہ و مدینہ ، کوفہ اور بصرہ سخت دباؤ کی صور ت مر گ بارسکوت کا شکار تھے ، زیاد ، سمر ہ اور مغیر ہ جیسے اموی حکمرانوں کا ظلم و تشدد، بے گنا ہوں کا بے مہا با قتل و کشتار ، مار دھاڑ ، مسلمانوں کی اہانت و تذلیل اور جعلی رپورٹوں نے لوگوں کو سخت خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا تھا۔ امو ی اسلامی معنو یت کو ختم کر کے دین دار اور اسلامی آدا ب و اقدا ر کے پابند افراد کو جنہیں معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاتھا سرکو ب و نا بود کردینا چاہتے تھے ۔
علائلی لکھتے ہیں : اسلامی مفکرین کے نزدیک یہ بات ثا بت ہے کہ بنی امیہ جر ثومہ فساد تھے اور جا ہلی زند گی کی تما م رسو م و حد ود کو زند ہ کر نا ان کی طبیعت کا جز و ِ لا ینفک تھا(۱)
سبط ابن جو زی لکھتے ہیں : میرے جد نے کتا ب التبصرہ میں لکھا ہے کہ جب اما م حسینؑ نے دیکھاکہ شر یعت مٹا ئی جا رہی ہے تو اس قو م کی طرف تشر یف لے گئے تا کہ شریعت کی بنیا دوں کو استو ار کیا جا سکے۔ (۲)
اگر بنی امیہ کی خیا نتوں کے لئے یز ید کو کھلی چھٹی دے دی جا تی تو جیسا کہ معاویہ چاہتا تھا اذان اور توحید و رسا لت کی گوا ہی ختم کر دی جا تی اور اسلام کا نام تک باقی نہ رہتا اگر نام باقی رہتا تو بھی اسلام کا مطلب وہ طریقہ ہوتا جو یز ید و بنی امیہ کی رو ش اورطریقہ تھا۔
اگر یز ید کی خلافت کے خلاف اسلامی معاشرہ میں اتنا شدید رد عمل نہ ہوتا تو یزید کو جانشین رسو ل کے طور پر قبو ل کر لیا جا تا اور اسلامی مملکت بد کا ری ، فحاشی ، رقص و غناء ، شراب و کبا ب ، اور سگ بازی و بندر بازی جیسے گنا ہوں کا مرکز بن کر رہ جا تی، کیوں کہ معاشرے اپنے امرا ء و سلاطین کی پیر وی کر تے ہیں اور ان کے کاموں کو اپنے لئے نمو نہ عمل بنا تے ہیں ۔
لہٰذااسلام کی حفا ظت اور ارتجا عی خطرہ جو یز ید کی رو ش سے در پیش تھا سے دفا ع کی خا طر ایسی تحر یک و نہضت کی ضرور ت تھی جس سے سب لوگوں پر واضح و روشن ہو جائے کہ اموی حکمران اسلامی اصولوں کو پاما ل کر رہے ہیں ،اس خا طر لوگوں کے دینی جذبات ان کے خلاف ابھا ر نے کی ضرور ت تھی تا کہ لوگ ان کی مخالفت میں شدت کا مظا ہر ہ کریں اوران کے کرتوتوں اور کاموں سے آگاہ ہو کر انہیں اسلام کے دشمن اور خائن کے طور پر پہچا ن لیں ، ان دو مقاصد کی خاطرسیدالشہداء کا قیا م ضروری تھا یعنی بنی امیہ کے کر دا ر سے پردہ ہٹا کر ان کی اسلامی معاشرے میں پہچا ن کروا نا اور لوگوں کے دینی جذبات کو ان کے خلا ف ابھارنا اور لوگوں کی تو جہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف مبذول کروا نا تا کہ اسلامی شعائر باقی رہ سکیں ـ۔
دشمن کی انتہا ئی سنگدلی بھی امام پا ک علیہ السلام کو راہ خدا میں جہا د سے نہ رو ک سکی ، کیونکہ آپ ایسے مجا ہد تھے جس نے حکم خد ا سے قیا م شر وع فرمایا، اب آپ کے لئے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑ تا تھا کہ آپ کو ظا ہری غلبہ حاصل ہو یا نہ ہو کیونکہ دونوں صورتیں آپ کے لئے شر ف تھیں قرآن فر ما تاہیـ :
قل ھل تر بصو ن بنا لا احدی الحسنیین
’’کہہ دو ہما رے بارے میں تم کس بات کے منتظر ہو سوائے دو
اچھائیوں میں سے ایک کے یعنی شہا دت اور کامیا بی‘‘
پس اما م حسینؑ راہ خدا و راہ حق میں شہید ہو ئے اور آپ کے قاتل، خدا ،تما م ملائکہ اور تما م لوگوں کی لعنت میں گرفتا ر ہو گئے اور آپ خدا وند کے ہاں بلند ترین مرتبے پر فائز ہو گئے۔(۳)
( ۳) مع الذین انعم اللّٰہ علیھم من النبیین والشہداء والصالحین۔ (مجلۃ العدل شما رہ ۹ سال۲)