Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، جس شخص میں یہ تین خوبیاں پائی جائیں گی اس کا ایمان کامل ہوگا ۱۔عقل ۲۔حلم اور۳۔علم غررالحکم حدیث4658

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 82: عمروبن عاص کے بارے میں

نابغہ کے بیٹے پر حیرت ہے کہ وہ میرے بارے میں اہل شام سے یہ کہتا پھرتا ہے کہ مجھ میں مسخرہ پن پایا جاتا ہے اور میں کھیل و تفریح میں پڑا رہتا ہوں اس نے غلط کہا اور کہہ کر گنہگار ہوا۔ یاد رکھوکہ بد ترین قول وہ ہے جو جھوٹ ہو ، اور وہ خود بات کرتا ہے ، تو جھوٹی اور وعدہ کرتا ہے تو اس کے خلاف کرتا ہے ۔ مانگتا ہے تو لپٹ جاتا ہے اور خود اس سے مانگا جائے تو اس میں بخل کر جاتا ہے وہ پیمان شکنی اور قطع رحمی کرتا ہے ۔ اور جنگ کے موقعہ پر بڑی شان سے بڑھ بڑھ کر ڈانٹتا اور حکم چلاتا ہے مگر اسی وقت تک کہ تلواریں اپنی جگہ پر زور نہ پکڑ لیں ۔ اور جب ایسا وقت آتا ہے ، تو ا سکی بڑی چال یہ ہوتی ہے کہ (۱) اپنے حریف کے سامنے عُریاں ہو جائے ۔ خدا کی قسم! مجھے تو موت کی یاد نے گھیل کوُد سے باز رکھا ہے اور اسے عاقبت فراموشی نے سچ بولنے سے روک دیا ہے ۔ اس نے معاویہ کی بیعت یوں ہی نہیں کی ، بلکہ پہلے اس سے یہ شرط منوالی کہ اسے اس کے بدلے میں صلہ دینا ہو گا، اور دین کے چھوڑنے پر ایک ہدیہ پیش کرنا ہوگا۔

(۱) ”فاتح مصر“عمرو ابنِ عاص نے اپنی عریانی کو سپر بنا کر جو جوانمردی دکھائی تھی ، اس کی طر ف اشارہ فرمایا ہے ۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ جب میدانِ صفین میں امیر الموٴمنین علیہ السلام سے اور اس سے مڈ بھیڑ ہوئی تو اس نے تلوار کی زد سے بچنے کے لئے اپنے کو برہنہ کر دیا۔ امیر الموٴمنین نے اس کی اس ذلیل حرکت کو دیکھا تو منہ پھیر لیا ، اور اس کی جان بخشدی۔

عرب کے شاعر فرزوق نے اس کے متعلق کہا ہے #

ّّ” کسی ذلیل حرکت کے ذریعے کزند کو دُور کرنے میں کوئی خوبی نہیں ۔ جس طرح عمرو نے ایک دن برہنہ ہو کر اپنے سے گزند کو دُور کیا۔

عمرو کو اس قسم کے دنی حرکتوں میں بھی اجتہاد ِ فکر نصیب نہ تھا۔ بلکہ ان میں بھی دوسروں ہی کا مقلد تھا۔ کیونکہ سب سے پہلے جس شخص نے یہ حرکت کی تھی ، وہ طلحہ ابن ابی طلحہ تھا۔ جس نے احد کے میدان میں امیر الموٴمنین کے سامنے برہنہ ہو کر اپنی جان بچائی تھی ، اور اسی نے دوسروں کو بھی یہ راستہ دکھا دیا تھا۔ چنانچہ عمرو کے علاوہ بسر ابن ابی ارطاة نے بھی حضرت کی تلوار کی زد پر آکر یہی حرکت کی ۔ اور جب یہ کارِ نمایان دکھانے کے بعد معاویہ کے پاس گیا، تو اس نے عمرو ابنِ عاص کے کارنامے کو بطور سند پیش کر کے اس کی خجالت کو مٹانے کے لئے کہا:۔

اے بسر! کوئی مضائقہ نہیں ۔ اب یہ لجانے شرمانے کی بات کیا رہی جبکہ تمہارے سامنے عمرو کا نمونہ موجود ہے