Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، کسی شخص کی رائے اس کے تجربہ کے مطابق (قابلِ قدر) ہوتی ہے۔ غررالحکم حدیث10146

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 66: محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا

محمد ابن ابی بکر کو جب حضرت (ع) نے مصر کی حکومت سپرد کی۔ اور نتیجہ میں ان کے خلاف غلیہ حاصل کر لیاگیا اور وہ قتل کر دیئے گئے ، تو حضرت نے فرمایا:۔

میں نے تو چاہا تھا کہ ہاشم ابن عتبہ کو مصرکا والی بناؤں ، اور اگر اسے حاکم بنا دیا ہوتا، تو وہ کبھی دشمنوں کے لئے میدان خالی نہ کرتا، اور اگر اسے حاکم بنا دیا ہوتا، تو وہ کبھی دشمنوں کے لئے میدان خالی نہ کرتا ، اور نہ انہیں مہلت دیتا۔ اس سے محمد ابن ابی بکر کی مذمت مقصود نہیں ۔ وہ تو مجھے بہت محبوب اور میرا پروردہ تھا۔

(۱) محمد ابن ابی بکر کی والدہ گرامی اسماء بنت عمیس تھیں ۔ جن سے امیرالمومنین نے حضرت ابو بکر کے انتقال کے بعد عقد کر لیا تھا ۔ چنانچہ محمد نے آپ ہی کے زیر سایہ تعلیم و تربیت حاصل کی اور آپ ہی کے طور طریقوں کو اپنایا۔ امیرالموٴمنین بھی انہیں بہت چاہتے تھے اور بمنزلہ اپنے فرزند کے سمجھتے تھے ۔ اور فرمایا کرتے تھے ” مُحمد ابنی من صلب ابی بکر ۔“ محمد میرا بیٹا ہے اگرچہ ابو بکر کی صلب سے ہے ۔“ سفر حجتہ الوداع میں پید ا ہوئے اور ۳۸ ھء میں اٹھائیس برس کی عمر میں شہادت پائی۔

امیرالموٴمنین نے مسندِ خلافت پر آنے کے بعد قیس ابن سعد ابن عبادہ کو مصر کا حکمران منتخب کیا تھا مگر کچھ حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ انہیں معزول کر کے محمد ابن ابی بکر کو وہاں کا والی مقرر کرنا پڑا۔ قیس ابن سعد کی روش یہاں پر یہ تھی کہ وہ عثمانی گروہ کے خلاف تشددانہ قدم اٹھانا مصالح کے خلاف سمجھتے تھے۔ مگر محمد کا رویہ اس سے مختلف تھا۔ انہوں نے ایک مہینہ گزارنے کے بعد انہیں کہلوا بھیجا، کہ اگر تم ہماری اطاعت نہ کرو گے ، تو تمہارا یہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ اس پر ان لوگوں نے ان کے خلاف ایک محاذ بنا لیا اور چپکے چپکے ریشہ دوانیاں کرتے رہے ۔ مگر تحکیم کی قرارداد کے بعد پر پُر زے نکالے اور انتقام کا نعرہ لگا کر شر وفساد پھیلانے لگے اور مصر کی فضا کر مکدر کر کے رکھ دیا۔ امیرالموٴمنین (ع) کو جب ان بگڑے ہوئے حالات کا علم ہوا۔ تو آپ(ع) نے مالک ابنِ حارث اشتر کو مصر کی امارت دے کر ادھر روانہ کیا تا کہ وہ مخالف عناصر کو دبا کر نظم و نسق کو بگڑنے نہ دیں ۔ مگر اموی کارندوں کی و سیسہ کاریوں سے نہ بچ سکے اور راستے ہی میں شہید کر دیئے گئے اور مصر کی حکومت محمد ہی کے ہاتھوں میں رہی ۔

ادھر تحکیم کے سلسلہ میں عمرو ابن عاص کی کارکردگی نے عماویہ کو اپنا وعدہ یاد دلایا۔ چنانچہ اس نے چھ ہزار جنگ آزما اس کے سپرد کر کے مصر پر دھاوا بولنے کے لئے اسے روانہ کیا۔ محمد ابن ابی بکر نے جب دشمن کی بڑھتی ہوئی یلغار کو دیکھا۔ تو امیرالموٴمنین (ع) کو کمک کرکے لئے لکھا۔ حضرت نے جواب دیا کہ تم اپنے آدمیوں کو جمع کرو ۔ میں مزید کمک تمہارے لئے روانہ کیا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ محمد نے چار ہزار آدمیوں کو اپنے پرچم کے نیچے جمع کیا، اور انہیں دو حصوں پر تقسیم کر دیا۔ ایک حصہ اپنے ساتھ

رکھا، اور ایک حصہ کا سپہ سالار بشر بن کنانہ کو بنا کر دشمن کی روک تھام کے لئے آگے بھیج دیا۔ جب یہ فوج دشمن کے سامنے پڑاؤ ڈال کر اُتر پڑی، تو ان کی مختلف ٹولیوں نے ان پر چھاپے مارنے شروع کر دیئے ۔ جنہیں یہ اپنی جراٴت و ہمت سے روکتے رہے آخر معاویہ ابن خدیج کندی نے پوری فوج کے ساتھ حملہ کر دیا۔ مگر ان سرفروشوں نے تلواروں سے منہ نہ موڑا، اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۔ اس سکشت کا اثر یہ ہوا کہ محمد ابن ابی بکر کے ساتھ ہراساں ہو گئے ، اور ان کا ساتھ چھوڑ کر چلتے بنے ۔ محمد نے جب اپنے کو اکیلا پایا، تو بھاگ کر ایک خرابے میں پناہ لی۔ مگر دشمنوں کو ایک شخس کے ذریعہ ان کا پتہ مل گیا اوران سنگدلوں نے پانی دینے سے انکار کر دیا، اور اسی تشنگی کے عالم میں انہیں شہید کر دیا اور ان کی لاش کو ایک مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کر جلا دیا۔

کوفہ سے مالک ابنِ کعب ارجی دو ہزار آدمیوں کو لے کر نکل چکتے تھے، مگر ان کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن مصر پر قبضہ کر چکا تھا۔