Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، ایمان اور عمل (گویا)دو حقیقی بھائی ہیں، خداوندعالم کسی ایک کو دوسرے کے بغیر قبول نہیں کرتا کنزالعمال حدیث59

نہج البلاغہ خطبات

اپنے اصحاب سے فرمایا:۔

میرے بعد جلد ہی تم پر ایک ایسا شخص مسلط ہو گا جِس کا حقل کشادہ ، اور پیٹ بڑا ہو گا، جوپائے گا۔ نِگل جائے گا۔ اور جو نہ پائے گا، اس کی اسے ڈھونڈ لگی رہے گی (بہتر تو یہ ہے کہ ) تم اسے قتل کر ڈالنا ۔ لیکن یہ معلوم ہے کہ تم اسے ہرگز قتل نہ کرو گے ۔ وہ تمہیں حکم دے گا کہ مجھے بُرا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو۔ جہاں تک بُرا کہنے کا تعلق ہے ، مجھے بُرا کہہ لینا ۔ اس لئے کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سبب اور تمہارے لئے (دشمنوں سے) نجات پانے کا باعث ہے ۔ لیکن (دل سے ) بیزاری اختیار نہ کرنا اس لئے کہ مَیں (دین ) فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان و ہجرت میں ساقب ہوں ۔

(۱) اس خطبہ میں جس شخص کی طرف امیرالموٴمنین (ع) نے اشار کیا ہے ۔ اس سے بعض نے زیاد ابن ابیہ ، بعض نے حجاج ابنِ یوُسف اور بعض نے مغیرہ ابن شعبہ کو مراد لیا ہے ۔ لیکن اکثر شارحین نے اس سے معاویہ مرا دلیا ہے ، اور یہی صحیح ہے ، کیونکہ جو اوصاف حضرت (ع) نے بیان فرمائے ہیں ، وہ اس پر پورے طور سے صادق آتے ہیں ، چنانچہ ابن ابی الحدید نے مُعاویہ کی زیادہ خوری کے متعلق لکھا ہے کہ پیغمبر (ص) نے ایک دفعہ اسے بُلوا بھیجا، تو معلوم ہوا کہ وہ کھانا کھا رہا ہے ۔ پھر دوبارہ سہ بارہ آدمی بھیا، تو یہی خبر لایا۔ جس پر آنحضرت (ص) نے فرمایا۔ ” الّٰلھم لا تشبع بطنہ“ (خدا یا اس کے پیٹ کو کبھی نہ بھرنا) اس بد دُعا کا اثر یہ ہوا کہ جب کھاتے کھاتے اکتا جاتا تھا تو کہنے لگتا تھا ۔” ارفعو افو اللہ ماشبعت ولکن مللت و تعبت“ دستر خوان بڑھاؤ۔ خدا کی قسم میں کھاتے کھاتے عاجز آ گیا ہوں ، مگر پیٹ ہے کہ بھرنے ہی میں نہیں آتا، یونہی امیرالموٴمنین (ع) پر سب و شتم کرنا اور اپنے عاملوں کو اس کا حکم دینا تاریخی مسلمات میں سے ہے کہ جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں اور منبر پر ایسے الفاظ کہے جاتے تھے، کہ جن کی زد میں اللہ و رسول بھی آجاتے تھے ۔ چنانچہ ام المومنین ام سلمہ نے معاویہ کو لکھا:۔ ” انکم تلعنون اللہ ورسولہ علی منابر کم و ذلک انکم تلعنون علی ابن ابی طالب ومن احبہ و انا اشہد ان اللہ احبہ ورسولہ‘ (عقد الفرید ج ۳ صفحہ ۱۳۱) تم اپنے منبروں پر اللہ اور اس کے رسول (ص) پر لعنت کرتے ہو۔ وہ یوں کہ تم علی ابن ابی طالب اور انہیں دوست رکھنے والوں پر لعنت کرتے ہو، اور میں گواہی دیتی ہوں کہ علی (ع) کوا للہ بھی دوست رکھتا تھا اور اس کا رسول (ص) بھی ۔“

خدا عمر ابنِ عبدالعزیز کا بھلا کرے کہ جس نے اسے بند کر دیا، اور خطبوں مین سب و شتم کی جگہ اس آیت کو رواج دیا۔

اللہ تمہیں انصاف اور حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے اور لغو باتوں برائیوں اور ستم کاریوں سے روکتا ہے ۔ اللہ اس سے تمہیں نصیحت کرتا ہے شاید کہ تم سوچ بچا ر سے کام لو۔“

حضرت نے اس کلام میں اس کے قتل کا حکم اس بناء پر دیا کہ پیغمبراسلام کا ارشا دہے :۔

”جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو، تو اسے قتل کر دو۔“

خطبہ 57: معاویہ کے بارے میں فرمایا