Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، ایمان سارے کا سارا عمل ہے اور قول اس عمل کا حصہ ہے جو خدا کی طرف سے فرض کیا گیا ہے او جسے اللہ نے اپنی کتاب میں واضح کردیا ہے اصول کافی کتاب الایمان والکفر باب فی ان الایمان مثبوت، مستدرک الوسائل حدیث12661

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 22: قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں

معلوم ہونا چاہیئے کہ شیطان نے اپنے گروہ کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اپنی فوجیں فراہم کر لی ہیں تاکہ ظلم اپنی انتہا کی حد تک اور باطل اپنے مقام پر پلٹ آئے۔ خدا کی قسم! انہوں نے مجھ پر کوئی سچا الزام نہیں لگایا اور نہ انہوں نے میرے اورا پنے درمیان انصاف برتا۔ وہ مجھ سے اس حق کا مطابلہ کرتے ہیں ۔ جسے خود ہی انہوں نے چھوڑ دیا۔ اور اس خون کا عوض چاہتے ہیں ۔ جسے انہوں نے خود بہایا ہے اب اگر اس میں مَیں ان کا شریک تھا تو پھر اس میں ان کا بھی تو حصہ نکلتا ہے اور اگر وہی اس کے مرتکب ہوئے ہیں ، مَیں نہیں تو پھر اس کی سزا صرف انہی کو بھگتنا چاہیئے جو سب سے بڑی دلیل وہ میرے خلاف پیش کریں گے وہ انہی کے خلاف پڑے گی۔ وہ اس ماں کا دودھ پینا چاہتے ہیں جس کا دودھ منقطع ہو چکا ہے ۔ اور مری ہوئی بدعت کو پھر سے زندہ کر نا چاہتے ہیں ۔ اُف کتنا نا مراد یہ جنگ کے لئے پکارنے والا ہے ۔ یہ ہے کون جو للکارنے والی ہے اور کس مقصد کے لئے اس کی بات سنا جا رہا ہے اور میں تو اس سے خوش ہوں کہ ان پر اللہ حجت تمام ہو چکی ہے اور ہر چیز اس کے علم میں ہے ۔ اگر ان لوگوں نے اطاعت سے انکار کیا، تو میں تلوار کی باڑ ان کے سامنے رکھ دوں گا جو باطل سے شفا دینے اور حق کی نصرت کے لئے کافی ہے ۔ حیرت ہے کہ وہ مجھے یہ پیغام بھیجتے ہیں کہ میں نیزہ زنی کے لئے میدان میں اتر آؤں اورتلواروں کی جنگ کے لئے جمنے پر تیار رہوں ۔ رونے والیں ان کے غم میں روئیں ۔ مَیں تو ہمیشہ ایسا رہا کہ جنگ سے مجھے دھمکایا نہیں جا سکا اور شمشیر زنی سے خوفزدہ نہیں کیا جا سکا اور میں اپنے پروردگار کی طرف سے یقین کے درجہ پر فائز ہوں اور اپنے دین کی حقانیت میں مجھے کوئی شک نہیں ہے ۔

----------------------------------------------------------

(۱) جب امیرالموٴمنین علیہ السلام پر قتلِ عثمان کی تہمت لگائی گئی تو اس غلط الزام کی تردید میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں الزام رکھنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ انتقام کی رٹ لگانے والے یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ تنہا میں ہی قاتل ہوں اور اس میں کوئی اور شک نہ تھا اور نہ یہ کہہ کر سامنے کے واقعات کو جھٹلاسکتے ہیں کہ وہ خود اس سے بے تعلق تھے، تو پھر اس انتقام کے لئے مجھے ہی کیوں آگے دھر لیا ہے ۔ میرے ساتھ اپنے کو بھی شریک کریں اور اگر مَیں اسے سے بری الذمہ ہوں تو وہ تو خود اپنی برائت ثابت نہیں کر سکتے ۔ لہذا اس پاداش سے اپنے کوکیوں الگ کرتے ہیں ۔
حقیقت امر یہ ہے کہ مجھے موردِ الزام ٹھہرانے سے ان کا مقصد یہ ہے کہ میں ان سے وُہی روش اختیار کروں جس کے یہ عادی رہ چکے ہیں ۔ لیکن ان کو مجھے سے یہ توقع نہ رکھنا چاہیئے کہ میں سابقہ دور کی بدعتوں کو پھر سے زندہ کروں ۔ رہا جنگ کا سوال تو میں نہ اس سے کبھی ڈرا ہوں اور نہ اب خائف ہوں ۔ میری نیت کو اللہ جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ یہ انتقام کا سہارا لے کر کھڑے ہونے والے ہی ان کے خون سے ہاتھ رنگنے والے ہیں ۔ چنانچہ تاریخ اس سے ہمنوا ہے کہ جن لوگوں نے اشتعال دلا کر ان کی موت کا سرو سامان کیا تھا اور جنازہ پر پتھر برسا کر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے تک سے مانع ہوئے تھے وہ وہی لوگ تھے، جو ان کے خون کا بدلہ لینے لے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس سلسلہ میں طلحہ ابنِ عبید اللہ ، زبیر ابنِ عوام اور اُم الموٴمنین عائشہ کا نام سرِ فہرست نظر آتا ہے اور دونوں موقعوں پر ان کی کوششیں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں ۔
چنانچہ ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :۔
جن لوگوں نے قتلِ عثمان کے سلسلے میں واقعات تحریر کئے ہیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے قتل کے دن طلحہ کی یہ حالت تھی کہ وہ لوگوں کی نظروں سے بچنے کے لئے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے حضرت عثمان کے گھر پر تیِر بارانی کر رہے تھے۔
اور اس سلسلہ میں زبیر کے خیالات کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :۔
مورّخین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ زبیر یہ کہتے تھے کہ عثمان کو قتل کر دو۔ اس نے تمہارا دین ہی بدل ڈالا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ کا بیٹا تو ان کے دروازے پر کھڑا ہوا ، ان کی حفاظت کر رہا ہے ۔ آپ نے کہا کہ خواہ میرا بیٹا ہی پہلے کام آجائے ۔ مگر عثمان قتل کر دیا جائے ۔ یہ تو کل پُل صراط پر مردار کی صورت میں پڑا ہو گا۔
مغیرہ ابنِ شعبہ حضرت عائشہ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا۔ اے ابو عبدا للہ ! کاش تم جمل کے موقعہ پر میری حالت دیکھتے کہ کس طرح تِیر میرے ہووج کو چیرتے ہوئے نکل رہے تھے۔ یہاں تک کہ کچھ تو میرے جسم سے ٹکرا جاتے تھے مغیرہ نے کہا کہ خدا کی قسم میں تویہ چاہتا تھا کہ ان میں سے ایک آدھ تیر آپ کا خاتمہ کر دیتا ۔ آپ نے کہا کہ خدا تمہارا بھلا کرے یہ کیسی بات کہہ رہے ہو۔ اس نے کہا کہ یہ اس لیے کہ حضرت عثمان کے خلاف جو آپ نے تگ و دو کی تھی اس کا کچھ تو کفارہ ہو جاتا۔