Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، جو تمہیں امین سمجھے اس سے خیانت نہ کرو خواہ وہ تم سے خیانت کرے اور نہ ہی اس کے کسی راز کو فاش کرو خواہ وہ تمہارا کوئی راز فاش کرے۔ مستدرک الوسائل حدیث10476

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 191: متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر اور ابن کوا کی غلط فہمی کا ازالہ

بیان کیا گیا ہے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) کے ایک (۱) صحابی نے انہیں کہ جنہیں ہمام کہا جاتا ہے اور جو بہت عبادت گذار شخص تھے حضرت سے عرض کیا کہ یا امیرالمومنین[ع]مجھ سے پرہیز گاروں کی حالت اس طرح بیان فرمائیں کہ ان کی تصویر میری نظروں میں پھرنے لگے ۔حضرت نے جواب دینے میں کچھ تامل کیا ۔پھر اتنا فرمایا کہ اے ہمام اللہ سے ڈرو اور اچھے عمل کرو ،کیونکہ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی و نیک کردار ہوں ۔ ہمام نے آ پ کے اس جواب پر اکتفا نہ کیا اور آپ کو (مزید بیان فرمانے کے لیے) قسم دی جس پر حضرت نے خدا کی حمد و ثنا کی اور نبی پر درود بھیجا اور یہ فرمایا:

اللہ سبحانہ٘ نے جب مخلوقات کو پیدا کیا تو ان کی اطاعت سے بے نیاز اور ان کے گناہوں سے بے خطر ہو کر کار گا ہ ہستی میں انہیں جگہ دی کیونکہ اسے نہ کسی معصیت کا ر کی معصیت سے نقصا ن ہے اور نہ کسی فرمانبردار کی اطاعت سے فائد ہ پہنچتا ہے ۔اس نے زندگی کا سرو سامان ان میں بانٹ دیا ہے اور دنیا میں ہر ایک کو اس کے مناسب حال محل و مقام پہ رکھا ہے ۔چنانچہ فضیلت ان کے لےے ہے جو پرہیزگار ہیں کیو نکہ ان کی گفتگو جچی تلی ہو ئی پہناوا میانہ روی اور چال ڈھال عجز وفروتنی ہے ۔اللہ کی حرام کرد ہ چیزوں سے انہوں نے آنکھیں بند کر لیں اور فائدہ مندعلم پر کا ن دھر لےے ہیں ان کے نفس زحمت و تکلیف میں بھی ویسے ہی رہتے ہیں جیسے آرام و آسائش میں اگر(زندگی مقررہ)مدت نہ ہوتی جو اللہ نے ان کے لےے لکھ دی ہے توثواب کے شوق اور عتاب کے خوف سے ان کی روحیں ان کے جسموں میں چشم زدن کے لےے بھی نہ ٹھہرتیں خالق کی عظمت ان کے دلوں میں بیٹھی ہوئی ہے ۔اس لےے کہ اس کے ماسوا ہر چیز ان کی نظروں میں ذلیل و خوار ہے ۔ان کو جنت کا ایسا ہی یقین ہے جیسے آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتاہے تو گویا وہ اسی وقت جنت کی نعمتوں سے سر فراز ہیں اور دوزخ کا بھی ایسا ہی یقین ہے جیسے کہ وہ دیکھ رہے ہیں تو انہیں ایسا محسوس ہو تا ہے کہ جیسے وہاں کا عذاب ان کے گردو پیش موجود ہے ان کے دل غمزدہ مخزون اور لوگ ان کے شر و ایذا سے محفوظ و مامون ہیں ان کے بدن لاغر ،ضروریا ت کم اور نفس نفسانی خواہشوں سے بری ہیں ۔انہوں نے چند مختصر سے دلوں کی( تکلیفوں پر)صبر کیا جس کے نتیجہ میں دائمی آسائش حاصل کی ۔یہ ایک فائدہ مند تجارت ہے جو اللہ نے ان کے لےے مہیا کی ،دنیا نے انہیں چاہا مگر انہوں نے دنیا کو نہ چاہا اس نے تمہیں قیدی بنایا تو انہوں نے اپنے نفسوں کا فدیہ دے کر اپنے کو چھڑالیا ۔رات ہوتی ہے تو اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں ،جس سے اپنے دلوں میں غم واندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا چارہ ڈھونڈتے ہیں ۔جب کسی ایسی آیت پر ان کی نگاہ پڑتی ہے جس میں جنت کی ترغیب دلائی گئی ہو ،تو ا س کے طمع میں ادھر جھک پڑتے ہیں اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل نے تابانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ (پر کیف )منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے اور جب کسی ایسی آیت پر ان کی نظر پڑتی ہے کہ جس میں (دوزخ سے )ڈرایا گیا ہو ،تو اس کی جانب دل کے کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور یہ گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ و پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے ،وہ (رکوع میں )اپنی کمریں جھکائے اور (سجدہ میں اپنی پیشانیاں ہتھیلیاں گھٹنے اور پیروں کے کنارے انگھوٹھے) زمین پر بچھائے ہوئے ہیں اور اللہ سے گلو خلاصی کے لےے التجائیں کرتے ہیں ۔دن ہو تا ہے تو وہ دانشمند عالم ،نیکو کاراور پرہیز گار نظر آتے ہیں ۔خوف نے انہیں تیروں کی طرح لاغر کر چھوڑا ہے۔دیکھنے والا انہیں کو دیکھ کر مریض سمجھتا ہے ،حالانکہ انہیں کوئی مرض نہیں ہوتا اور جب ان کی باتوں کو سنتا ہے تو کہنے لگتا ہے کہ ا ن کی عقلوں میں فتو ر ہے (ایسا نہیں )بلکہ انہیں تو ایک دوسرا ہی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔وہ اپنے اعمال کی کم مقدار سے مطمئن نہیں ہوتے اور زیادہ کو زیادہ نہیں سمجھتے وہ اپنے ہی نفسوں پر(کو تا ہیوں )کا الزام رکھتے ہیں اور اپنے اعمال سے خوف زدہ رہتے ہیں ،جب ان میں سے کسی ایک کو (صلاح و تقویٰ کی بنا پر)سراہا جاتا ہے تو وہ اپنے حق میں کہی ہوئی باتوں سے لرز اٹھتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ میں دوسروں سے زیادہ اپنے نفس کو جانتا ہوں ،او ریہ کہ میرا پروردگار مجھ سے بھی زیادہ میرے نفس کو جانتا ہے ۔خدایا ان کی باتوں پر میری گرفت نہ کرنا اور میرے متعلق جو یہ حسن ظن رکھتے ہیں مجھے اس سے بہتر قرار دینا اور میرے ان گناہوں کو بخش دینا جو ان کے علم میں نہیں ۔

ان میں سے ایک کی علامت یہ ہے کہ تم ا س کے دین میں استحکام ،نرمی و خوش خلقی کے ساتھ دور اندیشی ،ایمان میں یقین و استواری ،بردباری کے ساتھ دانائی ،خوش حالی میں میانہ روی ،عبادت میں عجزو نیاز مندی فقر و فاقہ میں آن بان ،مصیبت میں صبر ،طلب رزق میں حلال پرنظر،ہدایت میں کیف و سرور اور طمع سے نفرت و بے تعلقی دیکھو گے۔ وہ نیک اعمال بجالانے کے باوجود خائف رہتا ہے ۔شام ہوتی ہے تو اس کے پیش نظر اللہ کا شکراور صبح ہو تی ہے تو اس کا مقصد یا د خدا ہوتا ہے۔ رات خوف و خطر میں گزارتا ہے اور صبح کو خوش اٹھتا ہے خطرہ اس کا کہ رات غفلت میں نہ گز ر جائے اور خوشی ا س فضل و رحمت کی دولت پر جو اسے نصیب ہوئی ہے ۔اگر اس کا نفس کسی ناگوار صورت حال کے برداشت کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ ا س کی من مانی خواہش کو پورا نہیں کرتا ،جاودانی نعمتوں میں ا س کے لےے آنکھو ں کا سرور ہے اور دار فانی کی چیزوں سے بے تعلقی و بیزاری ہے ۔اس نے علم میں حلم اور قول میں عمل کو سمو دیا ہے تم دیکھوگے اس کی امید وں کا دامن کوتاہ لغزشیں کم ،دل متواضع اور نفس قائع ،غذا قلیل ،رویہ بے زحمت دین محفوظ خواہشیں مردہ اور غصہ نا پید ہے اس سے بھلائی ہی کی توقع ہو سکتی ہے اور اس سے گزند کا کوئی اندیشہ نہیں ہو تا ۔جس وقت ذکر خدا سے غافل ہو نے والوں میں نظر آتا ہے جب بھی ذکر کرنے والوں میں لکھا جا تا ہے چونکہ اس کا دل غافل نہیں ہوتا او ر جب ذکر کرنے والوں میں ہوتا ہے تو ظاہر ہی ہے کہ اسے غفلت شعاروں میں شمار نہیں کیا جاتا ،جو اس پر ظلم کرتا ہے اس سے درگزر کرجاتا ہے جو اسے محروم کرتا ہے اس کا دامن اپنی عطا سے بھر دیتاہے جو اس سے بگاڑتا ہے یہ اس سے بناتا ہے بیہودہ بکواس اس کے قریب نہیں پھٹکتی اس کی باتیں نرم،برائیاں ناپید اور اچھائیاں نمایا ں ہیں ۔خوبیاں ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔یہ مصیبت کے جھٹکوں میں کوہ حلم و وقار سختیوں پر صابر اور خوش حالی میں شاکر رہتاہے جس کا دشمن بھی ہو اس کے خلاف بے جازیادتی نہیں کرتا اور جس کا دوست ہو تاہے اس کی خاطر بھی کوئی گناہ نہیں کرتا ۔قبل اس کے کہ اس کی کسی بات کے خلاف گواہی کی ضرورت پڑے وہ خود ہی اعتراف کر لیتا ہے ۔امانت کو ضائع و برباد نہیں کرتا جو اسے یا د دلایا گیا ہے اسے فراموش نہیں کرتا ۔نہ دوسرو ں کو برے ناموں سے یا د کرتا ہے نہ ہمسایوں کو گزند پہنچاتا ہے ،نہ دوسرو ں کی مصیبتو ں پر خوش ہوتا ہے ،نہ باطل کی سرحد میں داخل ہوتا ہے اور نہ جادہ حق سے قدم با ہر نکالتا ہے ۔اگر چپ ساد لیتا ہے تو ا س کی خاموشی سے اس کا دل نہیں بجھتا ،اور اگر ہنستا ہے تو آواز بلند نہیں ہوتی ۔اگر اس پر زیادتی کی جائے تو سہہ لیتا ہے تاکہ اللہ ہی ا س کا انتقام لے ۔اس کا نفس اس کے ہاتھوں مشقت میں مبتلا ہے اور دوسرے لوگ اس سے امن و راحت میں ہیں ۔اس نے آخرت کی خاطر اپنے نفس کو زحمت میں اور خلق خدا کو اپنے نفس (کے شر) سے راحت میں رکھا ہے جن سے دوری اختیار کرتا ہے تو یہ زہد و پاکیزگی کے لےے ہو تی ہے اور جن سے قریب ہوتا ہے تو یہ خوش خلقی و رحم دلی کی بنا پر ہے نہ اس کی دوری غرور و کبرکی وجہ سے نہ اس کا میل جول کسی فریب اور مکر کی بنا پر ہوتا ہے۔

راوی کا بیان ہے کہ ا ن کلمات کو سنتے سنتے ہمام پر غشی طاری ہوئی اور اسی عالم میں اس کی روح پر واز کر گئی ۔امیرالمومنین نے فرمایا ،کہ خدا کی قسم مجھے اس کے متعلق یہی خطرہ تھا ۔پھر فرمایا کہ موثر نصیحتیں نصیحت پذیر طبیعتوں پر یہی اثر کیا کر تی ہیں ۔اس وقت ایک (۲) کہنے والے نے کہا کہ یا امیرالمومنین !پھر کیا بات ہے کہ خود آپ پر ایسا اثر نہیں ہو تا ؟حضرت نے فرمایا کہ بلاشبہ موت کے لےے ایک وقت مقرر ہوتا ہے کہ وہ اس سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتا اور ا س کا ایک سبب ہو تا ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا۔ ایسی (بے معنی) گفتگو سے جو شیطان نے تمہاری زبان پر جاری کی ہے باز آؤ اور ایسی بات پھر زبا ن پر نہ لانا

۱۔ ابن الحدید کے نزدیک ا س سے ہمام ا بن شریح مراد ہیں اور علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اس سے بظاہر ہمام ابن عبادہ مراد ہیں ۔

۲۔ یہ شخص عبد ابن کوا تھا جو خوارج کی ہنگا مہ آرائیوں میں پیش پیش اور حضرت کا سخت مخالف تھا ۔