Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، انسان کی گفتگو سے اس کا وزن کیا جاتا ہے اور اس کے کاموں سے اس کی قیمت لگائی جاتی ہے۔ غررالحکم حدیث4023

نہج البلاغہ خطبات

تمام تعریف اس اللہ کیلئے ہے کہ جو خلق (کائنات سے) اپنے وجود کا اور پیدا شدہ مخلوقات سے اپنے قدیم و ازلی ہونے کا اور ان کی باہمی شباہت سے اپنے بے نظیر ہونے کا پتہ دینے والا ہے نہ حواس اسے چھو سکتے ہیں اور نہ پردے اسے چھپا سکتے ہیں ۔ چونکہ بنانے والے اور بننے والے‘ گھیرنے والے اور گھرنے والے‘ پالنے والے اور پرورش پانے والے میں فرق ہوتا ہے۔ وہ ایک ہے لیکن نہ ویسا کہ جو شمار میں آئے وہ پیدا کرنے والا ہے لیکن نہ اس معنی سے کہ اسے حرکت کرنا اور تعب اٹھانا پڑے‘ وہ سننے والا ہے لیکن نہ کسی عضو کے ذریعہ سے اور دیکھنے والا ہے لیکن نہ اس طرح کہ آنکھیں پھیلائے۔ وہ حاضر ہے لیکن نہ اس طرح کہ چھوا جاسکے وہ جدا ہے نہ اس طرح کہ بیچ میں فاصلہ کی دوری ہو۔ وہ ظاہر بظاہر ہے مگر آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ وہ ذاتا پوشیدہ ہے نہ لطافت جسمانی کی بنا پر۔ وہ سب چیزوں سے اس لیے علیحدہ ہے کہ وہ ان پر چھایا ہوا ہے اور ان پر اقتدار رکھتا ہے اور تمام چیزیں اس لیے اس سے جدا ہیں کہ وہ اس کے سامنے جھکی ہوئی اور اس کی طرف پلٹنے والی ہیں ۔ جس نے (ذات کے علاوہ) اس کے لیے صفات تجویز کئے اسنے اس کی حد بندی کر دی اور جس نے اسے محدود خیال کیا وہ اسے شمار میں آنے والی چیزوں کی قطار میں لے آیا اور جس نے اسے شمار کے قابل سمجھ لیا اس نے اس کی قدامت ہی سے انکار کر دیا اور جس نے یہ کہا کہ وہ کیسا ہے وہ اس کے لیے (الگ سے) صفتیں ڈھونڈھنے لگا۔ اور جس نے یہ کہا کہ وہ کہاں ہے اس نے اسے کسی جگہ میں محدود سمجھ لیا وہ اس وقت بھی عالم تھا جب کہ معلوم کا وجود نہ تھا اور اس وقت بھی رب تھا جب کہ پرورش پانے والے نہ تھے اور اس وقت بھی قادر تھا جب کہ یہ زیر قدرت آنے والی مخلوق نہ تھی۔

اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے : ابھرنے والا ابھر آیا۔ چمکنے والا چمک اٹھا اور ظاہر ہونے والا ظاہر ہوا ٹیڑھے معاملے سیدھے ہوگئے۔ اللہ نے جماعت کو جماعت سے اور زمانہ کو زمانہ سے بدل دیا ہے۔ ہم اس انقلاب کے اس طرح منتظر تھے جس طرح قحط زدہ بارش کا بلاشبہ آئمہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے حاکم ہیں اور اس کو بندوں سے پہچنوانے والے ہیں ۔ جنت میں وہی جائے گا جسے ان کی معرفت ہو اور وہ بھی اسے پہچانیں اور دوزخ میں وہی ڈالا جائے گا جو نہ انہیں پہچانے اور نہ وہ اسے پہچانیں ۔ اللہ نے تمہیں اسلام کیلئے مخصوص کرلیا ہے اور اس کیلئے تمہیں چھانٹ لیا ہے اور یہ اس طرح کہ اسلام سلامتی کا نام اور عزت انسانی کا سرمایہ ہے۔ اس کی راہ کو اللہ نے تمہارے لیے چن لیا ہے اور اس کے کھلے ہوئے احکام اور چھپی ہوئی حکمتوں سے اس کے دلائل واضح کر دئیے ہیں ۔ نہ اس کے عجائبات مٹنے والے ہیں اور نہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں ۔ اسی میں ں عمتوں کی بارشیں اور تاریکیوں کے چراغ ہیں ۔ اسی کی کنجیوں سے نیکیوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور اسی کے چراغوں سے تیرگیوں کا دامن چاک کیا جاتا ہے۔ خدانے اس کے ممنوعہ مقامات سے روکا ہے اور اس کی چراگاہوں میں چرنے کی اجازت دی ہے۔ شفا چاہنے والے کیلئے اس میں شفا اور بے نیازی چاہنے والے کے لیے اس میں بے نیاز ہے۔

اس خطبہ کا پہلا جز علم الٰہیات کے اہم مطالب پر مشتمل ہے‘ جس میں خلق کائنات سے خالق کائنات کے وجود پر استدلال فرماتے ہوئے اس کی ازلیت و عینیت صفات پر روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ جب ہم کائنات پر نظر کرتے ہیں تو ہر حرکت کے پیچھے کسی محرک کا ہاتھ کار فرما نظر آتا ہے جس سے ایک سطحی ذہن والا انسان بھی یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کوئی اثر موثر کے بغیر ظاہر نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ چند دنوں کا بچہ بھی اپنے جسم کے چھوئے جانے سے اپنے شعور کے دھندلکوں میں یہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی چھونے والا ہے۔ جس کا اظہار آنکھوں کو کھولنے یا مڑ کر دیکھنے سے کرتا ہے تو پھر کس طرح دنیائے کائنات کی تخلیق اور عالم کون و مکاں کا نظم و نسق کسی خالق و منتظم کے بغیر مانا جاسکتا ہے۔

جب ایک خالق کا اعتراف ضروری ہوا تو اسے موجود بالذات ہونا چاہیے کیونکہ ہر وہ چیز جس کی ابتدا سے اس کیلئے ایک مرکز وجود کا ہونا ضروری ہے‘ کہ جس تک وہ منتہی ہو۔ تو اگر وہ بھی کسی موجد کا محتاج ہوگا تو پھر اس موجود کے لیے سوال ہوگا کہ وہ از خود ہے یا کسی کا بنایا ہوا اور جب تک ایک موجود بالذات ہستی کا اقرار نہ کیا جائے کہ جو تمام ممکنات کیلئے علتہ العلل ہو عقل علت و معلول کے نامتناہی سلسلوں میں بھٹک کر سلسلہ موجودات کی آخری کڑی کا تصور بھی نہ کرسکے گی اور تسلسل کے چکر میں پڑ کر اسے کہیں ٹھہراؤ نصیب نہہوگا اور اگر خود اسی کو اپنی ذات کا خالق فرض کیاجائے تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہوگا یا تو وہ معدوم ہوگا یا موجود۔ اگر معدوم ہوگا تو معدوم کسی کو موجد نہیں بنا سکتا اور اگر موجود کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ لہذا اسےایسا موجود ماننا پڑے گا جو اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہ ہو اور اس کے ماسوا ہر چیز اس کی محتاج ہو اور یہی احتیاج کائنات اس سرچشمہ وجود کے ازلی اور ہمیشہ سے برقرار ہونے کی شاہد ہے اور اس کے علاوہ چونکہ ہر چیز تغیر پذیر ہی محل و مکان کی محتاج ہے اور عوارض و صفات میں ایک دوسرے کے مشابہہ ہے اور مشابہت کثرت کی آئینہ دار ہوتی ہے اور وحدت اپنی آپ ہی نظیر ہے اس لیے کوئی چیز اس کی مثل و نظیر نہیں ہوسکتی اور ایک کہی جانے والی چیزوں کو بھی اس کی یکتائی پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ ہر اعتبار سے واحد و یگانہ ہے وہ ان تمام چیزوں سے منزہ و مبرا ہے جو جسم و جسمانیات میں پائی جاتی ہیں ۔ کیونکہ وہ جسم ہے نہ رنگ ہے نہ شکل ہے نہ کسی جہت میں واقع ہے اور نہ کسی محل و مکان میں محدود ہے۔ اس لیے انسان اپنے حواس و مشاعر کے ذریعہ اس کا ادراک و مشاہدہ نہیں کرسکتا کیونکہ حواس انہی چیزوں کا ادراک کرسکتے ہیں جو زمان و مکان اور مادہ کے حدود کی پابند ہوں ۔ لہٰذا یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ دیکھا جاسکتا ہے اس کیلئے جسم مان لینا ہے اور جب وہ جسم ہی نہیں ہے اور نہ جسم کے ساتھ قائم ہے اور نہ کسی جہت و مکان میں واقع ہے تو اس کے دیکھے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی یہ پوشیدگی ان لطیف اجسام کی طرح نہیں ہے کہ جن سے ان کی لطافت کی وجہ سے نگاہیں آر پار ہوجاتی ہیں اور آنکھیں انہیں دیکھنے سے قاصر رہتی ہیں ۔ جیسے فضا کی پہنائیوں میں ہوا بلکہ وہ ذاتی طور پر پوشیدہ ہے البتہ اس سے کوئی شے پوشیدہ نہیں ہے‘ وہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے لیکن آلات سماعت و بصارت کا محتاج نہیں کیونکہ اگر وہ دیکھنے سننے کیلئے اعضا کا محتاج ہوگا تو اس کی ذات اپنے کمالات میں خارجی چیزوں کی دست نگرہوگی اور بحیثیت ذات کامل نہ رہے گی حالانکہ وہ ہر لحاظ سے کامل ہے اور اس کا کوئی کمال اس کی ذات سے الگ نہیں کیونکہ ذات کے علاوہ الگ سے صفات ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک ذات ہوگی اور کچھ صفتیں اور اس ذات کے مجموعہ کا نام ہوگا خدا‘ اور جو چیز اجزا سے مرکب ہو وہ اپنے وجود میں اجزاء کی محتاج ہوتی ہے اور ان اجزاء کو مرکب کے ترکیب پانے سے پہلے موجود ہونا چاہیے تو جب اجزاء اس پر مقدم ہوں گے تو وہ ہمیشہ سے موجود اور ازلی کیونکر ہوسکتا ہے جبکہ اس کا وجود اجزاء سے متاخر ہے حالانکہ وہ اس وقت بھی علم و قدرت و ربوبیت لیے ہوئے تھا جبکہ کوئی چیز موجود نہ تھی۔ کیونکہ اس کی کوئی صفت خارج سے اس میں پیدا نہیں ہوئی بلکہ جو صفت ہے وہی ذات ہے اور جو ذات ہے وہی صفت ہے اس لیے اس کا علم اس پر منحصر نہیں ہے کہ معلوم کا وجود ہو لے تو پھر وہ جانے‘ کیونکہ اس کی ذات حادث ہونے والے معلومات سے مقدم ہے اور نہ اس کی قدرت کیلئے ضروری ہے کہ مقدور کا وجود ہو تو وہ قادرسمجھا جائے کیونکہ قادر اسے کہتے ہیں جو ترک و فعل پر یکساں اختیار رکھتا ہو اور اس کیلئے مقدور کا ہونا ضروری نہیں اور یونہی رب کے معنی مالک کے ہیں اور وہ جس طرح معدوم کا اس کے موجود ہونے کے بعد مالک ہے- اسی طرح موجود کے پردہ عدم میں ہونے کی صورت میں اسے موجود کرنے پر اختیار رکھتا ہے کہ چاہے اسے معدوم رہنے دے اور چاہے اسے وجود بخش دے۔

خطبہ 150: