Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، فیصلہ کرنے کی آفت، لالچ اور طمع ہے غررالحکم حدیث3936

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 123: تحکیم قبول کرنے کے وجوہ و اسباب

ہم نے آدمیوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حکم قرار دیا تھا چونکہ یہ قرآن دو دفتیوں کے درمیان ایک لکھی ہوئی کتاب ہے کہ جو زبان سے بولا نہیں کرتی ۔ اس لیے ضرورت تھے کہ اس کے لیے کوئی ترجمان ہو اور وہ آدمی ہی ہوتے ہیں جو اس کی ترجمانی کیا کرتے ہیں ۔ جب ان لوگوں نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے درمیان قرآن کو حکم ٹھہرائیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منہ پھیر لیتے ۔ جب کہ حق سبحانہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو تو (اس کا فیصلہ نپٹانے کے لیے) اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو۔“ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی کتاب کے مطابق حکم کریں اور رسول کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم ان کی سنت پر چلیں ۔ چنانچہ اگر کتابِ خدا سے سچائی کے ساتھ حکم لگایا جائے تو اس کی رو سے سب لوگوں سے زیادہ ہم (خلافت کے ) حق دار ہوں گے ۔ اور اگر سنتِ رسول کے مطابق حکم لگایا جائے تو بھی ہم ان سے زیادہ اس کے اہل ثابت ہوں گے اب رہا تمہارا یہ قول کہ آپ نے تحکیم کے لیے اپنے اور ان کے درمیان مہلت کیوں رکھی ۔ “ تو یہ میں نے اس لیے کیا کہ (اس عرصہ میں ) نہ جاننے والا تحقیق کر لے اور جاننے والا اپنے مسلک پرجم جائے اور شاید کہ اللہ تعالیٰ اس صلح کی وجہ سے اس امت کے حالات درست کر دے اور وہ (بیغبری میں ) گلا گھونٹ کر تیار نہ کی جائے کہ حق کے واضح ہونے سے پہلے جلدی میں کوئی قدم نہ اٹھا بیٹھے اور پہلی ہی گمراہی کے پیچھے لگ جائے بلا شبہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے کہ جو حق پر عمل پیرا رہے چاہے وہ اس کے لیے باعث نقصان و مضرت ہو اور باطل کی طرف رخ نہ کرے چاہے وہ اس کے کچھ فائدہ کا باعث ہورہا ہو تمہیں تو بھٹکایا جا رہا ہے ۔ آخر تم کہاں سے (شیطان کی راہ پر) لائے گئے ہو ۔ تم اس قوم کی طرف بڑھنے کے لیے مستعد و آمادہ ہو جاؤ کہ جو حق سے منہ موڑ کر بھٹک رہی ہے کہ اسے دیکھتی ہی نہیں اور وہ بے راہ رویوں میں بہکا دیئے گئے ہیں کہ ان سے ہٹ کر سیدھی راہ پر آنا نہیں چاہتے ۔ یہ لوگ کتاب خدا سے الگ رہنے والے اور صحیح راستے سے ہٹ جانے والے ہیں ۔ لیکن تم تو کوئی مضبوط وسیلہ ہی نہیں ہو کہ تم پر بھروسہ کیا جائے اور نہ عزت کے سہارے ہو کہ تم سے وابستہ ہو ا جائے تم (دشمن کے لیے) جنگ کی آگ بھڑکانے کے اہل نہیں ہو تم پر افسوس ہے کہ مجھے تم سے کتنی تکلیفیں اٹھانا پڑی ہیں ۔ میں کسی دن تم سے (جنگ کی )راز دار نہ باتیں کرتا ہوں ، مگر تم نہ پکارنے کے وقت سچے جوانمرد اور نہ راز کی باتوں کے لیے قابل اعتماد بھائی ثابت ہوتے ہو۔