اسلامی تعلیمات

اخلاق و اوصاف

امام محمد باقر علیہ السلام کی پُر عظمت شخصیت کا تعارف خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں کرایا تھا جب انہوں نے جناب جابر بن عبد اللہ انصاریؓ کو اپنے تمام جانشینوں اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے نام بتلائے تو امام محمد باقر علیہ السلام کا خصوصی طور پر نام لے کر فرمایا کہ:

اے جابر! خدا تمہیں اتنی لمبی عمر عطا کرے گا کہ تم میرے اس فرزند سے ملاقات کا شرف حاصل کرو گے جو لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے مشابہ ہو گا اور اس کا نام میرے نام پر ہو گا جب تم اس سے ملو تو اسے میرا سلام پہنچا دینا۔

جب حضرت جابر بن عبد اللہ انصاریؓ بوڑھے ہو گئے اور انہیں اپنا وقت وفات قریب نظر آنے لگا تو وہ مسلسل کہا کرتے تھے کہ:

اے باقر! اے باقر! کہاں ہو؟ یہاں تک کہ ایک دن ان کی ملاقات امام باقر علیہ السلام سے ہو گئی، وہ آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اس حال میں کہ مسلسل آپؑ کے ہاتھوں اور پیروں کو چومتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ: میرے ماں باپ آپؑ پر فدا ہوں۔ آپؑ اپنے جد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شبیہ ہیں اور آپؑ کے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آپؑ کو سلام کہا ہے۔

رسول اللہؐ سے اس روایت کے نقل ہو جانے کی وجہ سے آپؑ ’’باقر‘‘ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ یعنی آپؑ نے علم کو شگافتہ کیا اور اس کے اسرار و رموز کو واضح کیا۔ امام محمد باقر علیہ السلام کو اپنے زمانہ حیات میں بہت زیادہ علمی شہرت حاصل تھی اور آپؑ کی بزم تمام اسلامی شہروں اور سرزمینوں سے تعلق رکھنے والے آپؑ کے محبین سے بھری رہتی تھی۔

ایک عالم اور فقیہ کی حیثیت سے اور بالخصوص علوم آل محمدؐ کے ایک نمائندے کی حیثیت سے آپؑ کا علمی مقام بہت سے لوگوں کو اس بات پر مجبور کرتا تھا کہ وہ آپؑ کی بزم سے استفادہ کریں اور اپنی علمی و فقہی مشکلات کا حل آپؑ سے طلب کریں۔ حصول علم کے لیے نا فقط حجاز سے بلکہ عراق اور خراسان سے بھی بہت زیادہ تعداد میں لوگ آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور اس بات میں کوئی شک اور تردید نہیں ہے کہ آئمہ اہل بیتؑ میں سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے بعد اکثر روایات کی سند امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام تک جاتی ہے اس کی وجہ زمانے کے مخصوص سیاسی حالات تھے۔ جن کی بناء پر ان دو اماموں کو دوسرے اماموں سے زیادہ علوم آل محمد علیہم السلام کی نشر و اشاعت کا موقع ملا۔

چنانچہ امام محمد باقر علیہ السلام کے متعلق کہا گیا ہے کہ تفسیر قرآن، کلام، احکام اور حلال و حرام کے بارے میں جو کچھ آپؑ سے صادر ہوا ہے وہ امام حسنؑ اور امام حسینؑ کی اولادوں میں سے کسی اور سے صادر نہیں ہوا۔ آپؑ سے علوم اہل بیتؑ حاصل کرنے والوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچی ہوئی تھی اور آپؑ کے شاگردوں نے سینکڑوں کتابیں لکھیں۔ جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے دور سے اسلامی دنیا میں علم و مذہب نے کس قدر ترقی کی منازل طے کیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام کے حلقہ درس میں شریک ہونے والا ہر شخص آپؑ کے اخلاق حسنہ کا بھی گرویدہ ہو جایا کرتا تھا اور آپؑ کے اخلاق تو وہ تھے کہ جس کے دشمن بھی قائل تھے۔ چنانچہ ایک شخص اہل شام میں سے مدینہ میں قیام پذیر تھا اور اکثر امام محمد باقرؑ کے پاس آکر بیٹھا کرتا تھا۔ اس کا بیان ہے کہ مجھے اس گھرانے سے ہرگز کوئی خلوص و محبت نہیں مگر آپؑ کے اخلاق کی کشش اور کلام میں وہ فصاحت ہے کہ جس کی وجہ سے میں آپؑ کے پاس آنے اور بیٹھنے پر مجبور ہو جاتا ہوں۔

محمد بن منکدر جو ایک صوفی مسلک سے تعلق رکھنے والا شخص تھا اس نے ایک مرتبہ امام محمد باقر علیہ السلام کو ضعیفی کے عالم میں دو اشخاص کا سہارا لیے ہوئے کسب معاش کے لیے جاتے دیکھا تو طنزیہ لہجے میں کہا کہ: بنو ہاشم کے سردار بھی کسب دنیا کے لیے مرے جا رہے ہیں آپؑ نے جواب دیا کہ کسب معاش، کسب دنیا نہیں ہے بلکہ اطاعت الٰہی ہے اور میں اس وقت اسی حالت میں مر بھی جاؤں تو یہ موت اطاعت الٰہی میں ہوگی۔

امام محمد باقر علیہ السلام علم، زہد، تقویٰ، طہارت، صفائے قلب اور دیگر محاسن میں اس درجہ پر جائز تھے کہ ان محاسن کو آپؑ کی ذات گرامی سے امتیاز حاصل ہوا۔