اسلامی تعلیمات

اخلاق و اوصاف

اہل بیت علیہم السلام میں ہر فرد کا اخلاق ایک انفرادی حیثیت رکھتا ہے لیکن امام علی ابن الحسین علیہ السلام نے اخلاقیات کے مظاہرے کے ساتھ ساتھ فلسفہ اخلاق کو بھی واضح کیا۔ جس سے انسان اپنے کردار بہترین تعمیر کر سکتا ہے۔ آپؑ کی ذات علم و عمل، زہد و تقویٰ، عبادت، سخاوت اور حلم کا بہترین نمونہ تھی۔ عبادت میں اس مقام پر پہنچے کہ زین العابدین (یعنی عبادت گزاروں کی زینت) کا لقب پایا۔ بعض روایات کے مطابق یہ لقب آپؑ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے دیا تھا اور اپنی زندگی میں ہی خبر دے گئے تھے کہ روز قیامت جب ’’زین العابدین‘‘ کو آواز دی جائے گی تو میرا ایک فرزند علی ابن الحسین علیہما السلام لبیک کہتا ہوا بارگاہ الٰہی میں حاضر ہو گا۔

آپؑ کے ایک لقب ’’سجاد‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ ہر معمولی نعمت خدا کے ملنے یا مصیبت کے دفع ہو جانے یا مؤمنین کے درمیان صلح ہو جانے پر سجدہ شکر بجا لاتے تھے لہٰذا سجاد (کثرت سے سجدہ کرنے والا) کے لقب سے مشہور ہو گئے۔

خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ جب آپؑ وضو شروع کرتے تو چہرے کا رنگ بدل جاتا کہ ’’رب العالمین‘‘ کی بارگاہ میں حاضری دینا ہے۔ بسا اوقات نماز میں سورہ حمد کی تلاوت کرتے ہوئے ’’مالک یوم الدین‘‘کی تکرار فرمایا کرتے تھے اور آپؑ کا بدن کا نپتا رہتا تھا کہ کس کی بارگاہ میں کھڑا ہوں جو روز قیامت کا مالک ہے پوری کائنات اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور کسی کا کوئی اختیار نہیں ہے مال و اولاد کوئی کام آنے والا نہیں ہے۔

ایک مرتبہ امام محمد باقر علیہ السلام نے دیکھا کہ رات بھر عبادت خدا میں بیدار رہنے کی وجہ سے آپؑ کا رنگ زرد ہو چکا تھا اور شدت گریہ کے باعث آپؑ کی آنکھیں علیل ہو چکی تھیں۔ پیشانی اور ناک سجدہ کرنے کی وجہ سے زخمی ہو چکی تھی پنڈلیوں اور پاؤں پر مسلسل قیام کی وجہ سے ورم آچکے تھے۔ امام محمد باقر علیہ السلام سے اپنے بابا کی یہ حالت دیکھی نہ گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے یہ دیکھ کر امام زین العابدینؑ اپنے فرزند کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ذرا مجھے ان صحائف و کتب میں سے وہ دینا جس میں حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی عبادت کا تذکرہ ہے جب امام محمد باقر علیہ السلام نے وہ صحیفہ آپؑ کو دیا تو آپؑ نے اس میں سے تھوڑا سا پڑھا اور پھر فرمایا:

کس میں اس قدر قوت و طاقت ہے کہ وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام جیسی عبادت کر سکے۔

امام زین العابد ینؑ علوم آل محمد علیہم السلام حاصل کرنے والوں کی بہت زیادہ عزت فرمایا کرتے تھے ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے اگر آپؑ کے پاس کوئی بھی سائل آجاتا تو جو کچھ ہوتا اس کو عطا کر دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ شخص وہ ہے جو میرے مال کو دنیا سے آخرت تک پہنچاتا ہے اور کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا۔ مدینہ منورہ میں چار سو غرباء کے گھرانے تھے جہاں رات کی تاریکی میں سامان غذا پہنچایا کرتے تھے اور اس طرح پشت مبارک پر سامان اٹھانے کے واضح نشان پڑ جاتے تھے آپؑ نے جس ناقہ پر سوار ہو کر بیس حج کیے تھے اسے کبھی ایک تازیانہ تک نہیں لگایا۔

شیخ مفیدؒ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ امام زین العابدینؑ کے رشتہ داروں میں سے ایک شخص آپؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؑ کو برا بھلا کہا آپؑ نے اس کے جواب میں کچھ نہ فرمایا جب وہ شخص چلا گیا تو آپؑ نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپؑ میرے ساتھ اس شخص کے گھر چلیں تاکہ میں اس کی گالیوں کا جواب دے سکوں۔

پس آپؑ اپنے اصحاب کے ہمراہ گئے اور راستے میں یہ آیت تلاوت کر رہے تھے۔

وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ (سورہ آل عمران:134)

اور وہ لوگ جو غصے کو پی جاتے ہیں لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

جب اس شخص کو یہ معلوم ہوا کہ امامؑ اس کے گھر کی طرف آرہے ہیں تو اس نے خیا ل کیا کہ یقیناً آپؑ بھی بدلہ لینے کے لیے آرہے ہیں لہٰذا وہ بھی لڑائی کی غرض سے تیار ہو کر امامؑ کے سامنے آ گیا لیکن امام زین العابدینؑ نے فرمایا: اے بھائی! تو نے جو کچھ کہا ہے اگر وہ باتیں میرے اندر پائی جاتی ہیں تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر وہ باتیں مجھ میں نہیں پائی جاتیں تو خدا تجھے معاف کرے۔ یہ سن کر وہ شخص آگے بڑھا اور امامؑ کی پیشانی پر بوسہ دے کر کہنے لگا کہ بے شک جو باتیں میں نے کہی ہیں وہ آپؑ میں موجود نہیں ہیں اور میں خود ان باتوں کا زیادہ مستحق ہوں۔