اسلامی تعلیمات

عراق کی جانب امام حسینؑ کی روانگی

اہل کوفہ اور جناب مسلم بن عقیلؑ کے خطوط کے بعد امام حسین علیہ السلام کو اطمینان حاصل ہو گیا تھا کہ بنو امیہ کے خلاف قیام کے لیے حالات سازگار ہیں لہٰذا آپؑ جلد از جلد کوفہ پہنچنا چاہتے تھے۔ آپؑ آٹھ ذی الحجہ کو یعنی عین اعمال حج کے درمیان عمرہ تمتع کو عمرہ مفردہ میں تبدیل کر کے عراق کی طرف روانہ ہو گئے۔

ایک لمحے کی تاخیر بھی عراق کی حالت کو دگرگوں کر سکتی تھی۔ اس کے علاوہ امامؑ کو مکہ میں ہی قتل کیے جانے کا امکان بھی موجود تھا۔ آپؑ کا مکہ میں رہنا کسی صورت بھی مصلحت کے مطابق نہ تھا۔ جب امام حسین علیہ السلام کا قافلہ مقام ’’صفاح‘‘ پر پہنچا تو آپؑ کی ملاقات ایک جوان شاعر فرزدق سے ہوئی جو کوفہ سے آرہا تھا۔ امامؑ نے اس سے کوفہ کے حالات کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب دیا:

قلوب الناس معک و سیوفہم علیک

لوگوں کے دل آپؑ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں آپ کے خلاف ہیں۔

’’بطن الرمہ‘‘ کے مقام پر آپؑ نے اہل کوفہ کے نام خط لکھ کر اپنی آمد کی خبر دے دی۔ یہ خط آپ نے قیس بن مسہر صیداوی کے سپرد کیا تاکہ وہ اہل کوفہ تک اسے پہنچا دیں مگر راستے میں عبید اللہ ابن زیاد کے فوجیوں نے ان کو گرفتار کر لیا اور ابن زیاد نے انہیں شہید کر دیا۔ اور ’’زبالہ‘‘ کے مقام پر آپؑ کو قیس بن مسہر صیداوی اور عبد اللہ بن یقطر کی شہادت کی خبریں موصول ہوئیں۔ یہ اطلاعات اس بات کی نشاندہی کر رہی تھیں کہ کوفہ کی وہ کیفیت جو جناب مسلمؑ نے بتائی تھی اب تبدیل ہو چکی ہے۔ اس موقع پر امامؑ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کیا اور فرمایا:

اے لوگو! ہمارے شیعوں نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ تم میں سے جو جانا چاہتا ہے وہ یہیں سے واپس چلا جائے۔

یہی وہ مقام ہے جہاں پر وہ لوگ امام حسین علیہ السلام کا ساتھ چھوڑ گئے جو راستے میں اس لیے ساتھ ہو لیے تھے کہ امام علیہ السلام کے ہاتھ حکومت آنے والی ہے لیکن امامؑ کے خاص اصحاب آپؑ کے ہمراہ رہ گئے۔ اس مرحلے کے بعد بھی امامؑ نے اپنا سفر جاری رکھا۔

آپؑ مقام ’’اشراف‘‘ کی جانب روانہ ہوئے رات وہیں بسر کی اور اگلے دن پھر سفر کا آغاز کیا۔ اسی دن دوپہر کے وقت دور سے ابن زیاد کے 1000 سپاہی حر بن یزید ریاحی کی سربراہی میں نمودار ہوئے۔ اور امامؑ کا راستہ روک لیا یہ سپاہی دوپہر کی شدید گرمی میں گرد و غبار میں اٹے ہوئے اور بھاری اسلحوں کے بوجھ سے تھکے ماندے ہونے کے ساتھ ساتھ پیاس کی شدت سے نڈھال بھی تھے یہ دیکھ کر امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب و انصار کو حکم دیا کہ وہ ان سپاہیوں اور ان کے پیاسے گھوڑوں کو سیراب کریں اصحاب نے آپؑ کے حکم کی تعمیل کی۔

حر ابن یزید ریاحی کو بھیجنے کا مقصد امامؑ کو کوفہ میں داخل ہونے سے روکنا تھا جبکہ امامؑ اپنا سفر جاری رکھنا چاہتے تھے۔ کافی بحث و تکرار کے بعد آخر حربن یزید ریاحی نے امامؑ کو ایک ایسا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا کہ جو نہ تو کوفہ کی طرف جاتا ہو نہ ہی مدینہ کی طرف۔ اس طرح امام حسینؑ کا قافلہ اور حربن یزید کا لشکر ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہوئے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے رہے، یہاں تک کہ نینوا کے مقام پر پہنچ گئے۔ اس مقام پر ابن زیاد کا ایک قاصد حر کے نام ایک خط لے کر آیا کہ جس کا مضمون یہ تھا کہ:

یہ خط ملتے ہی حسین ابن علی علیہ السلام کے ساتھ سختی سے پیش آؤ اور انہیں ایک ایسے بیاباں میں اترنے پر مجبور کردو جہاں نہ پانی ہو اور نہ کوئی پناہ گاہ ہو۔

بہر حال امام حسین علیہ السلام کے اصرار پر یہ قافلہ کچھ آگے بڑھا اور 2 محرم الحرام 61ھ کو کربلا پہنچ گیا۔ امامؑ نے اس جگہ کا نام دریافت کیا تو بتایا گیا اس جگہ کو ’’طف‘‘ کہا جاتا ہے۔ امامؑ نے پوچھا اس کا کوئی اور نام بھی ہے؟ عرض کیا گیا اسے ’’کربلا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ سنتے ہی امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

بارالہا! رنج و غم سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں، (پھر فرمایا) یہی ہمارے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ خدا کی قسم ! یہی ہماری قبروں کا مقام ہے، یہیں سے ہم بروز قیامت زندہ کیے اور اٹھائے جائیں گے میرے جد امجد نے اسی کا وعدہ کیا تھا اور ان کا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا۔

حربن یزید ریاحی نے ایک خط کے ذریعہ ابن زیاد کو امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کی اطلاع دی۔ یہ خبر پا کر ابن زیاد نے امام حسین علیہ السلام کے نام ایک خط ارسال کیا جس کا مضمون یہ تھا:

اما بعد! مجھے آپؑ کے کربلا پہنچے کی اطلاع ملی ہے امیرالمؤمنین یزید ابن معاویہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس وقت تک چین سے نہ سوؤں اور پیٹ بھر کر کھانا نہ کھاؤں جب تک آپؑ کو قتل نہ کر دوں یا پھر آپؑ میرا حکم قبول کرتے ہوئے یزید کی حکومت کے مطیع نہ ہو جائیں۔ والسلام۔

امامؑ نے ابن زیاد کا خط پڑھ کر زمین پر پھینک دیا اور فرمایا:

وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، جو خالق کی ناراضگی کی قیمت پر مخلوق کی خوشنودی اور رضا حاصل کرے۔ اس(ابن زیاد) کے لیے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے اللہ کا عذاب طے ہو چکا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کے کربلا پہنچنے کے اگلے ہی روز رفتہ رفتہ ابن زیاد کے سپاہی پہنچنا شروع ہو گئے ابن زیاد کا اصرار تھا کہ کوفہ کے تمام لوگ اس جنگ میں شریک ہوں یہ پالیسی مستقبل میں صرف چند قبیلوں کو قتل حسینؑ کے الزام سے بچانے کے لیے اور اس اقدام میں تمام قبائل کو ملوث کرنے کے لیے اختیار کی گئی تھی تاکہ کل کو کوئی شخص یا قوم یا آواز امام مظلومؑ کے حق میں نہ اٹھ سکے۔ عاشورا سے چند روز قبل ابن زیاد کی طرف سے عمر ابن سعد کو حکم نامہ ملا کہ:

امام حسینؑ اور پانی کے درمیان اس طرح حائل ہو جاؤ کہ وہ پانی کا ایک قطرہ بھی نہ پا سکے۔

اس طرح سات محرم الحرام کو خیام حسینی پر پانی بند کر دیا گیا۔

ابن زیاد کا لشکر 9 محرم کی شام کو بھی حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن امام حسینؑ نے ایک رات کی مہلت طلب فرمائی اس رات آپؑ نے اپنے اصحاب کا امتحان لیا اور ان سے اپنی بیعت اٹھا لی اور فرمایا:

اگر وہ جانا چاہتے ہیں تو رات کی تاریکی میں چلے جائیں حتیٰ وہ خاندان اہل بیتؑ کے کچھ افراد کو بھی ہمراہ لے جائیں مگر امام حسینؑ کے باوفا اور جانثار اصحاب نے اپنے خون کے آخری قطرہ تک امام مظلومؑ کا ساتھ دینے کا تہیہ کیا۔

شب عاشور امام حسین علیہ السلام کے خیموں میں عجیب و غریب جوش و جذبہ اور غیر معمولی ولولہ نظر آتا تھا۔ کوئی اپنا اسلحہ تیار کر رہا تھا کوئی اللہ کی عبادت اور اس کے ساتھ راز و نیاز کر رہا تھا اور کوئی قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول تھا۔ مورخین لکھتے ہیں:

’’اصحاب امام کے خیام سے اس طرح عبادت اور تلاوت قرآن کی آواز آتی تھیں جس طرح شہد کی مکھیوں کے چھتے سے بھنبھناہٹ کی آواز آتی ہے۔ کوئی حالت قیام میں تھا کوئی رکوع میں اور کوئی سجدے کی حالت میں تھا۔‘‘