امام حسین علیہ السلام کے بچپن کے ابتدائی چھ سال جو آپؑ نے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر شفقت گزارے تھے وہ آپؑ کی زندگی کا سنہری دور تھا۔ مگر آنحضرتؐ کی زندگی کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ آپؑ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی والدہ خاتون جنت جناب سیدہ فاطمہ الزہراء علیہا السلام اور اپنے بابا حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام پر ظلم وستم ہوتے ہوئے دیکھا مگر دین خدا کی حفاظت کی خاطر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے 25 سالہ سکوت کے بعد جب حضرت عثمان کے قتل کے نتیجہ میں لوگوں نے آپؑ کی بیعت کی تو امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جہاں بظاہر تو خلافت و حکومت ملی تھی مگر حقیقت میں فتنوں کا ایک نیا طوفان اٹھنے والا تھا اور آل محمد علیہم السلام کو اس کا بھی مقابلہ کرنا تھا۔
چنانچہ 35ھ میں جمل کا معرکہ پیش آیا اور اس کے بعد 36ھ میں جنگ صفین اور پھر جنگ نہروان کے معرکوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر 40ھ میں آپؑ کے بابا امیرالمؤمنین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن آپؑ نے اس عظیم مصیبت اور امتحان کو بھی صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں بھی اپنے بھائی کی ہر میدان میں حمایت فرمائی۔ صلح امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی عہد شکنی کے بعد اہل بیت علیہم السلام پر مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام پر باقاعدہ منبروں سے سب و شتم ہونے لگا۔ پیروان آل محمدؐ کا قتل عام ہونے لگا اور انہیں طرح طرح کی تکالیف دی جانے لگیں۔ یہاں تک کہ صفر 50ھ میں امام حسن علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کرا دیا گیا۔ اور یوں اسلام کی حفاظت و بقاء کی ذمہ دار ی امام حسین علیہ السلام کی طرف منتقل ہو گئی۔ معاویہ اپنے کاروبار ظلم و ستم میں مصروف رہا یہاں تک کہ 60 ہجری میں اس دنیا سے چلا گیا۔
اگرچہ عراقیوں کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ تشریف لے آنے کی درخواستیں موصول ہوتی رہیں مگر آپؑ اپنے بھائی امام حسنؑ کی صلح کے احترام میں اہل عراق کی رائے ماننے پر تیار نہیں تھے۔ اور فرمایا کہ جب تک معاویہ زندہ ہے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امامؑ نے دس سال تک مجبوراً معاویہ کی حکومت کو برداشت کیا تھا۔
امام حسین علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان روابط اور مختلف مواقع پر ہونے والی گفتگو ئیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امامؑ نے سیاسی اعتبار سے معاویہ کی حکومت کو قطعی طور پر قانونی تسلیم نہیں کیا تھا۔ چنانچہ معاویہ کے نام اپنے خط میں امامؑ نے لکھا تھا کہ:
مجھے اس امت کے لیے تمہاری حکومت سے بڑھ کر کوئی فتنہ نظر نہیں آتا۔
اسلامی تعلیمات
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
حضور اکرمؐ کا لڑکپن اور جوانی
اخلاق و اوصاف
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہجرت مدینہ سے فتح مکہ تک
جنگ بدر
جنگ احد
جنگ خندق
صلح حدیبیہ
جنگ خیبر
فتح مکہ
حجۃ الوداع
وصال
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
1۔ امیرالمؤمنینؑ زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
2۔ امیر المؤمنین علیہ السلام وفات رسولؐ کے بعد
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1۔ جنگ جمل
2۔ جنگ صفین
جنگ نہروان
شہادت امیرالمؤمنین علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
اخلاق و اصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صلح کے فوائد
شہادت
حضرت امام حسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا
تحریک کربلا
حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
عراق کی جانب امام حسینؑ کی روانگی
شہادت
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صحیفہ سجادیہ
واقعہ حرہ
یزیدی لشکر کی جانب سے خانہ کعبہ کی توہین
شہادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام جعفر صادقؑ کی غلو تحریک کے خلاف جدوجہد
امام جعفر صادقؑ کی سیاسی جدوجہد
شہادت
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
بشر حافی کا واقعہ
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
اخلاق و اوصاف
القابات اور خطابات
ظہور امام مہدیؑ معصومینؑ کی نظر میں
امام مہدی علیہ السلام کی حفاظت کا الٰہی انتظام
غیبت امام مہدیؑ
غیبت صغریٰ و نیابتِ حضرت امام مہدی عج
غیبت کبریٰ
دور غیبت میں ہمارے فرائض
احوال و واقعات
امام حسین علیہ السلام کے بچپن کے ابتدائی چھ سال جو آپؑ نے اپنے نانا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیر شفقت گزارے تھے وہ آپؑ کی زندگی کا سنہری دور تھا۔ مگر آنحضرتؐ کی زندگی کے بعد حالات یکسر بدل گئے۔ آپؑ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی والدہ خاتون جنت جناب سیدہ فاطمہ الزہراء علیہا السلام اور اپنے بابا حضرت علی مرتضیٰ علیہ السلام پر ظلم وستم ہوتے ہوئے دیکھا مگر دین خدا کی حفاظت کی خاطر صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام کے 25 سالہ سکوت کے بعد جب حضرت عثمان کے قتل کے نتیجہ میں لوگوں نے آپؑ کی بیعت کی تو امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ جہاں بظاہر تو خلافت و حکومت ملی تھی مگر حقیقت میں فتنوں کا ایک نیا طوفان اٹھنے والا تھا اور آل محمد علیہم السلام کو اس کا بھی مقابلہ کرنا تھا۔
چنانچہ 35ھ میں جمل کا معرکہ پیش آیا اور اس کے بعد 36ھ میں جنگ صفین اور پھر جنگ نہروان کے معرکوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر 40ھ میں آپؑ کے بابا امیرالمؤمنین علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا۔ لیکن آپؑ نے اس عظیم مصیبت اور امتحان کو بھی صبر اور حوصلے سے برداشت کیا۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے بھائی امام حسن علیہ السلام کے دور امامت میں بھی اپنے بھائی کی ہر میدان میں حمایت فرمائی۔ صلح امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کی عہد شکنی کے بعد اہل بیت علیہم السلام پر مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔
امیرالمؤمنین علیہ السلام پر باقاعدہ منبروں سے سب و شتم ہونے لگا۔ پیروان آل محمدؐ کا قتل عام ہونے لگا اور انہیں طرح طرح کی تکالیف دی جانے لگیں۔ یہاں تک کہ صفر 50ھ میں امام حسن علیہ السلام کو زہر دے کر شہید کرا دیا گیا۔ اور یوں اسلام کی حفاظت و بقاء کی ذمہ دار ی امام حسین علیہ السلام کی طرف منتقل ہو گئی۔ معاویہ اپنے کاروبار ظلم و ستم میں مصروف رہا یہاں تک کہ 60 ہجری میں اس دنیا سے چلا گیا۔
اگرچہ عراقیوں کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کو کوفہ تشریف لے آنے کی درخواستیں موصول ہوتی رہیں مگر آپؑ اپنے بھائی امام حسنؑ کی صلح کے احترام میں اہل عراق کی رائے ماننے پر تیار نہیں تھے۔ اور فرمایا کہ جب تک معاویہ زندہ ہے کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امامؑ نے دس سال تک مجبوراً معاویہ کی حکومت کو برداشت کیا تھا۔
امام حسین علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان روابط اور مختلف مواقع پر ہونے والی گفتگو ئیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امامؑ نے سیاسی اعتبار سے معاویہ کی حکومت کو قطعی طور پر قانونی تسلیم نہیں کیا تھا۔ چنانچہ معاویہ کے نام اپنے خط میں امامؑ نے لکھا تھا کہ:
مجھے اس امت کے لیے تمہاری حکومت سے بڑھ کر کوئی فتنہ نظر نہیں آتا۔