اسلامی تعلیمات

احوال و واقعات

جب 21 رمضان المبارک 40ھ کو امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی شہادت ہو گئی اور امام حسنؑ اپنے بابا کے کفن و دفن سے فارغ ہوئے تو مسلمانوں کے مجمع سے ایک مختصر مگر انتہائی جامع خطبہ ارشاد فرمایا:

اے لوگو! آج کی شب اس شخص نے انتقال فرمایا ہے جس پر عمل و کردار کے اعتبار سے نہ پہلے والے سبقت لے گئے ہیں اور نہ بعد والے وہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہ مرد میدان، رسول اکرمؐ کے ساتھ راہ خدا میں جہاد کرتا تھا۔ انہیں بچاتا تھا اور جب وہ پرچم دے کر اسے میدان جہاد میں بھیجتے تھے تو اس کی دائیں طرف جبرائیلؑ اور بائیں طرف میکائیلؑ ہوتے تھے اور اس وقت تک واپس نہ آتا تھا جب تک دونوں ہاتھوں پر فتح حاصل نہ کرلے۔ ان کا انتقال اس رات میں ہوا ہے جس رات عیسیٰ بن مریمؑ کو آسمان پر اٹھایا گیا اور یوشع بن نون کا انتقال ہوا۔ انہوں نے ترکے میں نہ درہم چھوڑے ہیں اور نہ دینار۔ صرف 700 درہم عطا سے باقی رہ گئے تھے جس سے ایک خادم خریدنے کا ارادہ تھا اور وہ نہ ہو سکا۔

اے لوگو! جو مجھے پہچانتا ہے وہ پہچانتا ہے اور جو نہیں پہچانتا ہے وہ پہچان لے کہ میں حسنؑ ابن علیؑ ہوں، فرزند رسول اکرمؐ، فرزند وصی رسولؐ، فرزند بشیر و نذیر اور اس کا فرزند ہوں جو خدا کی طرف دعوت دینے والا اور سراج منیر تھا۔ میرا شمار اہل بیتؑ میں ہوتا ہے جن سے خدا نے ہر رجس کو دور رکھا ہے اور انہیں مکمل طہارت عنایت فرمائی ہے اور ان کی محبت کو اجر رسالت قرار دیا ہے نیکی ہم اہل بیتؑ کی محبت کا نام ہے۔

اس خطبے کے بعد 40 ہزار افراد نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یوں ظاہری امامت و خلافت پر متمکن ہو گئے۔ لیکن امامت کے سلسلہ میں امام حسن علیہ السلام کے سامنے ایک بہت بڑی مشکل تھی اور وہ یہ کہ مدینہ، مکہ، بصرہ اور اسلامی طاقت کا مرکز کوفہ تو آپ کے علم و عدل کے سامنے جھک گئے اور آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کر لی مگر شام ابو سفیان کے بیٹے معاویہ کے زیر تسلط تھا آپؑ کی بیعت پر راضی نہ ہوا۔ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد ابو سفیان اور اس کی اولاد کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ دھوکہ، فریب اور مکاری کے ذریعے اسلامی معاشرے پر حکومت قائم کر کے اسلام کے حقیقی چہرے کو داغدار کر دیا جائے۔ لیکن وہ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف تھے کہ اسلامی معاشرے سے عدل و انصاف اور الٰہی تعلیمات کو مسخ کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک خاندان اہل بیت علیہم السلام کا ایک نہ ایک فرد موجود ہے۔

معاویہ جو پہلے ہی شام میں مال و دولت اور مستحکم پروپیگنڈا مشینری کے باعث سادہ لوح لوگوں میں خاندان علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف زہر بھر چکا تھا جب اس کو معلوم ہوا کہ اہل کوفہ نے امام حسن علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے اور عراق کی حکومت پھر اولاد علی علیہ السلام کی طرف جا رہی ہے تو فوراً ریشہ دوانیاں شروع کر دیں اور کوفہ پر حملہ کرنے کے لیے 60 ہزار کا لشکر روانہ کر دیا۔ ادھر امام حسن علیہ السلام کو اطلاع ہوئی تو آپؑ نے 12 ہزار کا لشکر قیس ابن سعدؓ کی سرکردگی میں معاویہ کی پیش قدمی روکنے کے لیے روانہ کیا لیکن معاویہ نے اپنی فطری مکاری سے کام لے کر قیس بن سعدؓ اور امام حسن علیہ السلام دونوں کے لشکر میں یہ خبر عام کر دی کہ امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان صلح ہو گئی ہے۔

قیس بن سعدؓ کے لشکر میں یہ خبر نشر ہوئی کہ امام حسن علیہ السلام نے معاویہ سے صلح کر لی ہے اور قیسؓ بلا سبب لڑ رہے ہیں امام حسن علیہ السلام کے کیمپ میں یہ خبر نشر ہوئی کہ قیس ؓنے معاویہ سے صلح کر لی ہے اور امام حسن علیہ السلام بلا سبب جنگ کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح لشکر میں پھوٹ پڑ گئی اور تحکیم کے موقع پر امام علی علیہ السلام کو دین سے خارج کہنے والوں نے امام حسن علیہ السلام پر بھی دین سے منحرف ہونے کا الزام لگا دیا نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ امام حسن علیہ السلام کے قدموں کے نیچے سے مصلیٰ عبادت تک کھینچ لیا گیایہاں تک کہ اپنوں کی تلوار سے آپؑ زخمی ہو گئے آپؑ کو مدائن میں کئی دنوں تک زیر علاج رہنا پڑا۔ اس موقع پر امام حسن علیہ السلام کو درج ذیل مسائل در پیش تھے:

1۔ امام حسن علیہ السلام کے زخمی ہونے کے بعد شدید اختلاف پیدا ہو گیا لوگ مسلسل جنگوں سے عاجز آگئے تھے مال غنیمت کی امیدیں ختم ہو گئیں، معاویہ نے رشوت دے کر امام حسن علیہ السلام کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو خرید لیا۔

2۔ مدائن کے لوگوں کی طرف سے امام حسن علیہ السلام کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی تھی اور مقابلہ کے امکانات بالکل ختم ہو گئے۔

3۔ شام سے لشکر کو مادی، معنوی اور نفسیاتی طور پر برتری حاصل ہو گئی تھی اموال کی فراوانی تو پہلے بھی تھی اور افرادی قوت میں بھی اضافہ ہو گیا یوں وہ اپنے حاکم کی فرمانبرداری پر ہر حال میں سر بستہ تھے۔

4۔ امام حسن علیہ السلام کی ظاہری فتح کا کوئی امکان باقی نہیں بچا تھا اگر امامؑ جنگ کرتے تو آپؑ کا ساتھ دینے کے لیے چند مخلص صحابہ رہ گئے تھے اور ان کی شہادت کے بعد حقیقی اسلام کا نام لینے والا بھی کوئی نہ رہ جاتا۔

مسلمانوں کے خون اور جان کی حفاظت امامؑ پر عائد ہوتی ہے وہ اس وقت تک جہاد کا حکم نہیں دیتا جب تک فتح یقینی نہ ہو یا قربانی دین کے حق میں مفید ثابت نہ ہو۔ جبکہ موجودہ صورتحال میں امام حسن علیہ السلام کے سامنے نہ تو فتح یقینی تھی اور نہ ہی کوئی قربانی اسلام کے حق میں مفید تھی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ خود معاویہ بھی اپنی تمام مکاریوں کے باوجود سوچ رہا تھا کہ حسنؑ ابن علی علیہ السلام کو جھکا لینا ممکن نہیں ہے اور ان کی موافقت کئے بغیر اپنی حکومت کی کوئی قیمت نہیں ہے چنانچہ اس نے صلح کا راستہ اختیار کیا بظاہر انتہائی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک سادہ کاغذ امامؑ کی خدمت میں بھیج دیا کہ ہم آپؑ کے شرائط پر صلح کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اب امام حسنؑ کے سامنے چند مسائل آگئے، صلح کا انکار کر دیں تو اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہو گی اور صلح پر آمادہ ہو جائیں تو لشکر میں مزید ہنگامہ ہو جائے گا۔ چنانچہ آپؑ نے معاملے کو ساتھیوں کے سامنے رکھا کہ اگر اب بھی جہاد کے لیے آمادہ ہو تو میں اتمام حجت کے لیے جہاد کرنے پر تیار ہوں لیکن تم لوگ زندگی چاہتے ہو تو میں کسی کے ساتھ جہاد نہیں کروں گا لشکر نے مکمل طور پر ’البقاء البقاء‘ کا نعرہ لگا دیا۔ آپؑ نے دیکھ لیا کہ میرے بارے میں نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جس صلح کا ذکر فرمایا تھا اب اسی کا وقت آچکا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے صلح کی منظوری دے دی اور درجہ ذیل شرائط لکھ کر معاویہ کو بھیج دیں۔

1۔ حکومت معاویہ کے ہاتھ رہے گی بشرطیکہ وہ کتابِ خدا اور سنتِ رسولؐ پر عمل کرے۔

2۔ معاویہ کو اپنا ولی عہد نامزد کرنے کا حق نہ ہو گا۔

3۔ اہل عراق کے لیے عمومی طور پر امن و امان کا حصول ہو گا۔

4۔ معاویہ خود کو امیرالمؤمنین نہیں کہے گا۔

5۔ معاویہ کے پاس شہادتوں کا قیام نہ ہو گا۔

6۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سب و شتم کا سلسلہ بند کر دیا جائے گا۔

7۔ ہر صاحب حق کو اس کا حق دیا جاے گا۔

8۔ شیعیان اہل بیتؑ کے لیے عمومی چور سے امن و امان رہے گا۔

9۔ اہواز کا خراج جمل و صفین کے مقتولین کی اولاد کو دیا جائے گا۔

10۔کوفہ کا بیت المال امام حسن علیہ السلام کے قبضے میں رہے گا۔

12۔ امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے خانوادہ کو کسی طرح کی اذیت نہ دی جاے گی۔