اسلامی تعلیمات

2۔ امیر المؤمنین علیہ السلام وفات رسولؐ کے بعد

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے ہی اصحاب رسولؐ کے ایک طبقے نے اس بات کی کوششیں شروع کر دی تھیں کہ آپؐ کی رحلت کے بعد یہ حکومت آپؐ کے اہل بیت علیہم السلام کے ہاتھوں میں نہ آنے پائے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جب حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے تو سقیفہ بنی ساعدہ میں مسلمانوں نے گٹھ جوڑ کر کے حضرت ابوبکر کو خلیفہ رسولؐ بنا دیا گیا اور مسند رسولؐ کے حقیقی وارث اور جانشین امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو حق حکومت سے محروم کر دیا گیا اگر آپؑ چاہتے تو بزور شمشیر اپنا حق واپس لے سکتے تھے مگر اس داخلی جنگ کا فائدہ ان غیر مسلم اور مسلم نما طاقتوں کو ہوتا جو ایک عرصے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کا انتظار کر رہی تھیں یوں امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر جاتا۔

چنانچہ امام علی علیہ السلام نے اسلام کے وسیع تر مفاد میں مصائب اور مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے گوشہ نشینی اختیار کر لی مگر کسی قسم کے انتہائی اقدام سے گریز کیا۔ چنانچہ آپؑ نے کئی مواقع پر ضرورت اور مسلمانوں کے اتحاد کی حفاظت کو انتہائی اقدام نہ اٹھانے کی بنیاد قرار دیا آپؑ نے اپنی خاموشی کے لیے وہی توجیہہ پیش کی جو جناب ہارونؑ نے حضرت موسیٰؑ کے سامنے پیش کی تھی جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ٰ ہے:

اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلْ (سورہ طہ 94)

مجھے تو یہ خوف تھا کہ کہیں آپ یہ نہ کہیں کہ تم نے بنی اسرائیل میں اختلاف پیدا کر دیا ہے۔

حضرت امام علی علیہ السلام نے قریش کی شکایت کرتے ہوئے فرمایا:

بار الہا! میں تجھ سے قریش اور قریش کی مدد کرنے والوں کے خلاف مدد چاہتا ہوں انہوں نے مجھ سے قطع رحمی کی، میرے بلند مرتبے کو پست سمجھا اور خلافت جو میرا حق تھا اس میں مجھ سے جھگڑا کیا۔

البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد 25 سال تک کی گوشہ نشینی کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ امام علی علیہ السلام نے مناسب موقعوں پر اپنے حق کی بازیابی کے لیے کوشش نہ کی ہو۔ بلکہ آپؑ نے مختلف مواقع پر اپنے حق کا مطالبہ بھی کیا۔ ایک موقع پر جب ایک شخص نے آپؑ سے گستاخی کرتے ہوئے کہا کہ اے ابو طالب کے بیٹے! تمہیں اس خلافت کی بڑی حرص ہے؟ تو آپؑ نے جواب دیا: نہیں، خدا کی قسم ! تم زیادہ حریص ہو تم (رسول اللہ سے) دُور اور میں ان کا خاص اور قریبی ہوں میں نے اپنا حق مانگا ہے لیکن تم نہیں چھوڑتے اور مجھے میرے حق تک پہنچنے سے روکتے ہو‘‘۔

حضرت عمر کی وفات کے بعد شوریٰ کے موقع پر آپؑ کا شیخین کی سیرت پر چلنے کی شرط کو رد کر کے خلافت کو ٹھکرا دینا بھی اس بات پر شاہد ہے کہ امام علی علیہ السلام ان خلفاء کے طرز عمل سے راضی نہ تھے گویا امامؑ کی نظر میں شیخین کی سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے بر خلاف اور غلط اجتہاد کی بنیاد پر تھی۔ حضرت عمر کی وفات کے بعد حضرت عثمان خلیفہ بنے لیکن ان کی غلط حکومتی پالیسیوں اور بیت المال کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے حجاز اور عراق کی عوام ان کے خلاف ہو گئی۔ اس دوران حکومت اور عوام میں ثالثی کا کردار امام علی علیہ السلام نے انجام دیا۔

آپؑ حضرت عثمان تک لوگوں کے اعتراضات کو پہنچایا کرتے تھے اگرچہ آپؑ خود بھی حضرت عثمان کے بعض نامناسب اعمال پر تنقید کیا کرتے تھے، لیکن ثالث کی حیثیت سے آپؑ نے حضرت عثمان کے حقوق کا بھی خیال رکھا۔ البتہ یہ ایک قدرتی بات تھی کہ جب حضرت عثمان کے قتل کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی خلافت ظاہری قائم ہوئی تو بنو امیہ اور قریش کے ایک گروہ نے قتل عثمان کا الزام حضرت علی علیہ السلام پر لگا دیا حالانکہ اس معاملے سے امامؑ کا کوئی تعلق نہ تھا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عثمان کے بعد اصحاب رسول کے بے حد اصرار اور اس شرط پر خلافت کو قبول کر لیا کہ لوگ وعدہ کریں کہ وہ مکمل میرا ساتھ دیں گے۔ پس چند لوگوں کے علاوہ تمام انصار نے امامؑ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔