اسلامی تعلیمات

صلح حدیبیہ

6ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمرہ کے لیے ماہ ذی القعدہ میں مکہ جانے کا ارادہ کیا آپؐ کے ہمراہ اس سفر میں تقریباً 1000 سے زائد مسلمان تھے۔ جب یہ خبر مشرکین مکہ کو ملی تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور طے کیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ خدا کی زیارت سے باز رکھا جائے۔ حدیبیہ کے مقام پر آپؐ کو کفار مکہ کے اس ارادے کی خبر موصول ہوئی تو آپؐ نے ان کو پیغام بھیجا کہ ہم جنگ کرنے نہیں آئے بلکہ عمرہ کرنا چاہتے ہیں یہ پیغام حضرت عثمان اور دیگر دس مہاجرین لے کر مکہ گئے۔ اچانک لشکر اسلام میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان اور ان کے ساتھ دس افراد کو قتل کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک درخت کے نیچے آنحضرتؐ نے اپنے اصحاب سے بیعت لی کہ اگر جنگ ہو گئی تو وہ جنگ سے دستبردار نہیں ہوں گے اس کو ’’بیعت رضوان‘‘ کہتے ہیں اس بیعت سے قریش کے دلوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔

چنانچہ انہوں نے سہیل بن عمرو اور حفص بن احنف کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بھیجا تاکہ قریش اور آنحضرتؐ کے درمیان صلح ہو جائے، چنانچہ قریش اور آنحضرتؐ کے درمیان مصالحت ہو گئی اور صلح نامہ لکھا گیا کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دس سال تک مسلمانوں اور قریش کے درمیان جنگ نہیں ہو گی اور طرفین ایک دوسرے کے مال و جان کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ایک دوسرے کے شہروں کی طرف بغیر کسی روک ٹوک کے سفر کریں گے اور کفار میں سے جو مسلمان ہو جائے تو قریش اس کو کچھ نہیں کہیں گے اور آئندہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حج و عمرہ ادا کریں گے لیکن مسلمان تین دن سے زیادہ مکہ میں قیام نہیں کریں گے اس معاہدے کے بعد مسلمان مدینہ کی طرف واپس لوٹ گئے۔