علامہ شیخ عباس قمیؒ نے دور غیبت امامؑ میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جو احساس غیبت امامؑ اور انتظار کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے بہترین وسائل ہیں۔ اور ان کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان صحیح معنوں میں امام منتظر علیہ السلام کے منتظرین میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ آٹھ فرائض مندرجہ ذیل ہیں
1۔ محزون اور رنجیدہ رہنا:
حقیقت امر یہ ہے کہ اگر انسان غیبت امام منتظر علیہ السلام کے زمانہ میں دنیا کے بدترین حالات کا جائزہ لے، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات پر نظر ڈالے تو اسے غیبت امام معصومؑ کے نقصانات کا اندازہ ہو گا۔ اس کا دل اپنے محبوب امامؑ کے ظہور کے لیے مضطرب ہو جائے گا۔ اور زمانے کی بے راہ روی کا احساس اس کے دل کو رنجیدہ اور محزون کر دے گا۔ جس طرح امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے محبوب امام منتظر علیہ السلام کی یاد سے غافل نہ رہیں اور آنسو بہا کر ان کے ظہور کی دعا کرتے رہیں۔
2۔ انتظار حکومتِ آل محمدؑ
دور غیبت امام زمان علیہ السلام میں انتظار کو افضل ترین عمل قرار دیا گیاہے اور اس میں اس امر کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک دن آل محمد علیہم السلام کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مؤمنین کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کریں اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔
3۔ امام مہدیؑ کے حفظ و امان کے لیے دعا کرنا:
دعا صحت و سلامتی امام زمان علیہ السلام ’’اللھم کن لولیک الحجۃ ابن الحسنؑ‘‘ امام قائم علیہ السلام کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی تعجیل اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے ہمیں اس دور میں اپنے امامؑ کی حفاظت اور صحت کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہنا چاہیے۔
4۔امام مہدیؑ کی سلامتی کے لیے صدقہ دینا:
انسان جس کی سلامتی کی واقعاً خواہش رکھتا ہو اس کے حق میں صرف لفظی دعا ہی نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔
5۔ امام مہدیؑ کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا
یہ دور قدیم سے رائج ہے کہ لوگ اپنے زمانے کے امامؑ کی طرف سے نیابتاً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام وقت ان کے اعمال کی قدر دانی فرماتے تھے۔ لہٰذا جس شخص کی بھی استطاعت ہو اسے چاہیے کہ امام قائم علیہ السلام کی طرف سے حج کرے۔
6۔ امام قائمؑ کا اسم گرامی سننے پر کھڑے ہونا
جب امام مہدی علیہ السلام کا نام سنا جائے اور بالخصوص جب آپؑ کا ذکر لفظ ’’قائم‘‘ سے کیا جائے تو آپؑ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت، عقیدت اور غلامی امامؑ کا بہترین مقتضیٰ ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی۔
7۔ دور غیبت میں دین و ایمان کی حفاظت کے لیے دعا کرنا
امام جعفر صادق علیہ السلام نے جناب زرارہؓ سے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے قائم کی غیبت کے دور میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے۔ لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے ایمان کی سلامتی کی دعا کرتا رہے‘‘۔
8۔ مصیبت اور مشکل کے موقع پر امام زمانؑ سے استغاثہ کرنا
یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے کہ مصیبت اور مشکل کی گھڑی میں اپنے امام عصر علیہ السلام کو وسیلہ بنایا جائے اور ان کی بارگاہ میں استغاثہ کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آئمہ طاہرین علیہم السلام کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان اپنے دین سے آشنائی کے ساتھ ساتھ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہو۔ محرمات الٰہی سے بچ کر اور واجبات کو انجام دے کر اپنے آپ کو صحیح معنوں میں امام عصر علیہ السلام کا انتظار کرنے والا ثابت کرے اور ہمہ وقت امام مہدی عجل اللہ فرجہ کے ظہور کی تعجیل کے لیے دعا گو رہے۔
اسلامی تعلیمات
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بچپن
حضور اکرمؐ کا لڑکپن اور جوانی
اخلاق و اوصاف
بعثت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
ہجرت مدینہ سے فتح مکہ تک
جنگ بدر
جنگ احد
جنگ خندق
صلح حدیبیہ
جنگ خیبر
فتح مکہ
حجۃ الوداع
وصال
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
1۔ امیرالمؤمنینؑ زمانہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
2۔ امیر المؤمنین علیہ السلام وفات رسولؐ کے بعد
حضرت امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام
1۔ جنگ جمل
2۔ جنگ صفین
جنگ نہروان
شہادت امیرالمؤمنین علیہ السلام
حضرت فاطمۃ الزہرا ء سلام اللہ علیہا
اخلاق و اصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صلح کے فوائد
شہادت
حضرت امام حسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام حسین علیہ السلام اور تحریک کربلا
تحریک کربلا
حضرت مسلم بن عقیل کی کوفہ روانگی
عراق کی جانب امام حسینؑ کی روانگی
شہادت
حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
صحیفہ سجادیہ
واقعہ حرہ
یزیدی لشکر کی جانب سے خانہ کعبہ کی توہین
شہادت
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
امام جعفر صادقؑ کی غلو تحریک کے خلاف جدوجہد
امام جعفر صادقؑ کی سیاسی جدوجہد
شہادت
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
بشر حافی کا واقعہ
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا
حضرت امام علی رضا علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام محمد تقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام علی نقی علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
اخلاق و اوصاف
احوال و واقعات
شہادت
حضرت امام مہدی عجل اللّٰہ فرجہ الشریف
اخلاق و اوصاف
القابات اور خطابات
ظہور امام مہدیؑ معصومینؑ کی نظر میں
امام مہدی علیہ السلام کی حفاظت کا الٰہی انتظام
غیبت امام مہدیؑ
غیبت صغریٰ و نیابتِ حضرت امام مہدی عج
غیبت کبریٰ
دور غیبت میں ہمارے فرائض
دور غیبت میں ہمارے فرائض
علامہ شیخ عباس قمیؒ نے دور غیبت امامؑ میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ فرمایا ہے۔ جو احساس غیبت امامؑ اور انتظار کی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے بہترین وسائل ہیں۔ اور ان کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان صحیح معنوں میں امام منتظر علیہ السلام کے منتظرین میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ آٹھ فرائض مندرجہ ذیل ہیں
1۔ محزون اور رنجیدہ رہنا:
حقیقت امر یہ ہے کہ اگر انسان غیبت امام منتظر علیہ السلام کے زمانہ میں دنیا کے بدترین حالات کا جائزہ لے، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات پر نظر ڈالے تو اسے غیبت امام معصومؑ کے نقصانات کا اندازہ ہو گا۔ اس کا دل اپنے محبوب امامؑ کے ظہور کے لیے مضطرب ہو جائے گا۔ اور زمانے کی بے راہ روی کا احساس اس کے دل کو رنجیدہ اور محزون کر دے گا۔ جس طرح امام مہدی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے محبوب امام منتظر علیہ السلام کی یاد سے غافل نہ رہیں اور آنسو بہا کر ان کے ظہور کی دعا کرتے رہیں۔
2۔ انتظار حکومتِ آل محمدؑ
دور غیبت امام زمان علیہ السلام میں انتظار کو افضل ترین عمل قرار دیا گیاہے اور اس میں اس امر کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا میں ایک دن آل محمد علیہم السلام کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مؤمنین کرام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کریں اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔
3۔ امام مہدیؑ کے حفظ و امان کے لیے دعا کرنا:
دعا صحت و سلامتی امام زمان علیہ السلام ’’اللھم کن لولیک الحجۃ ابن الحسنؑ‘‘ امام قائم علیہ السلام کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی تعجیل اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے ہمیں اس دور میں اپنے امامؑ کی حفاظت اور صحت کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہنا چاہیے۔
4۔امام مہدیؑ کی سلامتی کے لیے صدقہ دینا:
انسان جس کی سلامتی کی واقعاً خواہش رکھتا ہو اس کے حق میں صرف لفظی دعا ہی نہیں کرتا بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔
5۔ امام مہدیؑ کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا
یہ دور قدیم سے رائج ہے کہ لوگ اپنے زمانے کے امامؑ کی طرف سے نیابتاً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام وقت ان کے اعمال کی قدر دانی فرماتے تھے۔ لہٰذا جس شخص کی بھی استطاعت ہو اسے چاہیے کہ امام قائم علیہ السلام کی طرف سے حج کرے۔
6۔ امام قائمؑ کا اسم گرامی سننے پر کھڑے ہونا
جب امام مہدی علیہ السلام کا نام سنا جائے اور بالخصوص جب آپؑ کا ذکر لفظ ’’قائم‘‘ سے کیا جائے تو آپؑ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت، عقیدت اور غلامی امامؑ کا بہترین مقتضیٰ ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی۔
7۔ دور غیبت میں دین و ایمان کی حفاظت کے لیے دعا کرنا
امام جعفر صادق علیہ السلام نے جناب زرارہؓ سے فرمایا تھا کہ ’’ہمارے قائم کی غیبت کے دور میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے۔ لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے ایمان کی سلامتی کی دعا کرتا رہے‘‘۔
8۔ مصیبت اور مشکل کے موقع پر امام زمانؑ سے استغاثہ کرنا
یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے کہ مصیبت اور مشکل کی گھڑی میں اپنے امام عصر علیہ السلام کو وسیلہ بنایا جائے اور ان کی بارگاہ میں استغاثہ کیا جائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آئمہ طاہرین علیہم السلام کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان اپنے دین سے آشنائی کے ساتھ ساتھ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہو۔ محرمات الٰہی سے بچ کر اور واجبات کو انجام دے کر اپنے آپ کو صحیح معنوں میں امام عصر علیہ السلام کا انتظار کرنے والا ثابت کرے اور ہمہ وقت امام مہدی عجل اللہ فرجہ کے ظہور کی تعجیل کے لیے دعا گو رہے۔
اللھم عجل فرجہ و سھل مخرجہ