اسلامی تعلیمات

احوال و واقعات

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کرانے کے بعد علویوں کے ذہنوں میں مامون الرشید کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ چنانچہ مامون کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ کسی طرح اپنے مظالم کی پردہ پوشی کرے۔ اس سلسلے میں اس نے سب سے بڑا اقدام یہ کیا کہ مدینہ سے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو دارالخلافہ بغداد طلب کر لیا تاکہ عوام میں یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اگر مامون نے امام علی رضا علیہ السلام کو شہید کرایا ہوتا تو ان کے بیٹے کے ساتھ کبھی اس طرح کا برتاؤ نہ کرتا۔

مامون الرشید کو اس بات کا بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ امام محمد تقی علیہ السلام کم سنی کے باوجود اپنے آباء و اجداد کی طرح فضل و کمال اور علم و حکمت میں اس بلند مقام پر فائز ہیں جہاں اہل زمانہ کے بڑے بڑے مشائخ اور علماء بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ چنانچہ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنی بیٹی ام الفضل کا عقد امام محمد تقی علیہ السلام سے کر دے گا۔ لیکن عباسیوں نے مامون کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی کہ کل کو علویوں میں سے امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہد بنایا تو کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور آج پھر وہی غلطی کیوں دہرائی جا رہی ہے؟ لوگوں نے دبے الفاظ میں مامون پر اعتراض کیا کہ اگر ایسا ہی ارادہ ہے تو پہلے بچے کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر لو اور اس کے بعد اپنی بیٹی کا ان سے عقد کر دینا۔

لیکن مامون نے جواب دیا کہ میں تم سے بہتر جانتا ہوں کہ یہ بچہ اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے کہ جس میں علم خدا کی طرف سے عطیہ و الہام ہوتا ہے۔ یہ بچہ امام علی رضا علیہ السلام کا بیٹا ہے اور یہ تمہارے علماء سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اگر تمہیں یقین نہ ہو تو آزما کر دیکھ لو چنانچہ لوگوں نے موقع غنیمت سمجھا اور یحییٰ ابن اکثم کو تلاش کر نے لگے۔ جو اپنے دور کا قاضی القضاۃ اور بہت بڑا عالم دین شمار ہوتا تھا۔ لوگوں نے یحییٰ ابن اکثم سے استدعا کی کہ وہ امامؑ سے ایسا سوال پوچھیں جس کا وہ جواب نہ دے سکیں۔ مقررہ دن آ پہنچا اور لوگ مجمع کی صورت میں دربار میں کھڑے تھے۔ امام محمد تقی علیہ السلام جن کی عمر اس وقت نو سال اور چند ماہ تھی مامون الرشید کے ساتھ دو تکیوں کے درمیان تشریف فرما تھے اور یحییٰ بن اکثم آپؑ کے سامنے بیٹھا تھا۔ یحییٰ ابن اکثم نے امامؑ سے سوال کرنے کی اجازت چاہی اور پھر پوچھا:

آپؑ یہ فرمائیے کہ اس شخص کے کفارے کا حکم کیا ہو گا جو حالت احرام میں کسی حیوان کا شکار کرے؟

آپؑ نے فرمایا: تمہارا سوال ہی ناقص ہے پہلے اپنا سوال مکمل کرو۔

یحییٰ نے پوچھا: سوال میں کیا نقص ہے؟

آپؑ نے فرمایا: اس مسئلے کی بے شمار صورتیں بنتی ہیں:

1۔ شکار حرم کی حدود سے باہر تھا یا حرم کے اندر؟

2۔ شکار کرنے والا مسئلے سے باخبر تھا یا جاہل؟

3۔ اس نے جان بوجھ کر شکار کیا یا غلطی سے ہو گیا؟

4۔ شکار کرنے والا آزاد تھا یا غلام؟

5۔ شکار کرنے والا بالغ تھا یا نابالغ؟

6۔ اس نے پہلی مرتبہ شکار کیا تھا یا شکار کھیلنا اس کا مشغلہ تھا؟

7۔ جس حیوان کا شکار کیا وہ چھوٹا حیوان تھا یا بڑا؟

8۔ شکار کرنے والا اپنے اس کام پر نادم تھا یا نہیں؟

9۔ شکار رات کے وقت کیا گیا یا دن میں؟

10۔ شکار کرنے والے کا احرام حج کا تھا یا عمرے کا؟

جب یحییٰ ابن اکثم نے یہ سنا تو مبہوت ہو کر رہ گیا اور شرم سے سر جھکا لیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کا چھوٹا سا سوال امام علی نقی علیہ السلام کی نظروں میں ایک ضخیم کتاب کی صورت اختیار کرلے گا۔ محل میں موجود تمام لوگ انگشت بدندان تھے اور مجمع پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ آخر کار مامون نے جلسہ کی خاموشی کو توڑا اور اپنے چچا زاد بھائیوں کو مخاطب کرکے کہا! تم سب نے دیکھ لیا اور پہچان بھی لیا کہ یہ فرزند علی رضا علیہ السلام ہیں۔ یہی جواد الائمہؑ ہیں کہ جنہیں میں نے اپنی دامادی کے لیے منتخب کیا ہے۔ جب جلسہ برخاست ہو گیا اور چند خواص آدمی رہ گئے تو مامون نے امامؑ سے عرض کیا: ’’میں آپؑ پر قربان جاو ں! اگر مناسب خیال کریں تو ان سوالوں کے جوابات بھی عنایت فرما دیں تاکہ دربار میں موجود افراد مستفید ہو سکیں‘‘۔ اور پھر امام محمد تقی علیہ السلام نے ان تمام صورتوں کے جوابات بھی پیش کر دیے۔

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام ام الفضل سے عقد کے بعد بغداد سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپؑ کے ہمراہ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ آپؑ راستے میں واقع ایک مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے رکے اس مسجد کے صحن میں بیری کا ایک درخت تھا۔ جس میں ابھی تک پھل نہیں لگا تھا۔ آپؑ نے پانی کا کوزہ منگوایا اور اس بیری کے درخت کے نیچے وضو کیا اس کے بعد آپؑ نے لوگوں کو نماز مغرب پڑھائی۔ نماز کے بعد جب لوگ اس بیری کے درخت کے پاس پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ اس پر بہترین پھل آچکا ہے انہیں بہت تعجب ہوا اس کے بیر کھائے تو بہت میٹھے تھے اور ان میں گٹھلی بھی نہیں تھی۔ پھر لوگ آپؑ سے الوداع ہوئے اور آپؑ مدینہ کی طرف تشریف لے گئے۔

مدینہ پہنچ کر ام الفضل کو غربت، پریشانی، دکھ، سادگی جیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ ام الفضل خلیفہ مامون الرشید کی بیٹی تھی۔ اور اس نے عیش و عشرت اور دنیاوی مال و اسباب سے بھر پور گھرانے میں پرورش پائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ام الفضل معنویت اور روحانیت سے کوسوں دور تھی۔ اس کو امام محمد تقی علیہ السلام کی سادہ، مقدس، غریب پرور نیز عیش و نشاط سے دور زندگی پسند نہ آئی اور یوں بالآخر امامؑ کے قتل میں بھی ملوث ہوئی۔

عام طور پر ہر امامؑ کی شہادت کے بعد پیش آنے والی مشکلات کی وجہ سے ایک مدت تک شیعوں کا بعد میں آنے والے امامؑ سے رابطہ انتہائی محدود ہو جاتا تھا۔ اور یہی صورتحال امام محمد تقی علیہ السلام کو بھی اپنے والد بزرگوار علیہ السلام کی شہادت کے بعد پیش آئی۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی امامت کے آغاز میں ان کی کم سنی کے مسئلہ نے بھی ایک مشکل پیدا کر دی تھی اور آپؑ کی امامت کے متعلق شیعوں کے شکوک و شبہات برطرف ہونے میں کافی وقت لگ گیا تھا۔ چنانچہ ایک نص میں آیا ہے کہ امام محمد تقی علیہ السلام نے دس سال تک اپنی امامت کو خفیہ رکھا یہ خود امامؑ اور ان کے شیعوں کے درمیان روابط کی برقراری میں دشواری کی ایک دلیل ہے۔ دوسری طرف حکمران بھی اس حوالے سے سختیاں کیا کرتے تھے اور نتیجے میں شیعہ اپنے امامؑ کے پاس آزادی کے ساتھ آمد و رفت نہیں رکھ پاتے تھے۔ رابطے کا ایک سادہ ترین اور آسان ترین راستہ امامؑ کو خط لکھ کر جواب لینا تھا۔ لہٰذا حضرت امام محمد تقی علیہ السلام اور ان کے بعد حتیٰ ان سے پہلے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے زمانے میں بھی شیعہ خط و کتابت کے ذریعے سے اپنے امامؑ کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے۔

ان حالات کے باوجود مختلف اسلامی مسائل پر حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بے شمار احادیث ہماری دسترس میں پہنچی ہیں اور آپؑ سے منقول اس قدر روایات سے آپؑ کی علمی عظمت اور فقہی، تفسیری اور کلامی مسائل نیز دعا اور مناجات پر آپؑ کے عبور کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ آپؑ کے آثار میں سے مختصر اور خوبصورت جملوں (کلمات قصار) سے آپؑ کے اخلاقی کمالات بخوبی آشکار ہیں۔

امام محمد تقیؑ اپنے زمانے میں موجود فرقوں کے حوالے سے بھی اپنے شیعوں کی رہنمائی فرماتے تھے۔ چنانچہ ان ہی فرقوں میں ایک فرقہ خدا کی جسمانیت کا قائل تھا۔ امامؑ نے ان کے بارے میں اپنے شیعوں سے فرمایا کہ انہیں کسی بھی ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے اور اسے زکوٰۃ دینے کی اجازت نہیں ہے جو خدا کی جسمانیت کا قائل ہو۔

اسی طرح امام محمد تقی علیہ السلام نے واقفی فرقے سے تعلق رکھنے والے شخص کے پیچھے بھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا جن کا عقیدہ یہ تھا کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے بعد امامت کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ اور اسی طرح کہ کچھ مزید فرقے بھی موجود تھے کہ جن کے احکام سے امامؑ نے اپنے شیعوں کو باخبر رکھا۔ اس دور میں امامؑ کے شیعہ تقریباً تمام اسلامی شہروں میں موجود تھے ان کی بڑی تعداد بغداد، مدائن اور عراق میں رہائش پذیر تھی اور کچھ لوگ ایران اور دوسرے ممالک بھی رہتے تھے۔ یہ لوگ امامؑ کے وکلاء کے توسط سے ہی آپؑ سے رابطہ قائم رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ حج بیت اللہ کے موقع پر آپؑ سے ملاقات کیا کرتے تھے۔

امام محمد تقی علیہ السلام کی یہ سرگرمیاں حکومت وقت کی نظر میں بہت بڑا خطرہ تھیں، امامؑ کی بلند و بالا علمی شخصیت اور آپؑ کے کردار کی عظمت نے لوگوں کے دلوں میں آپؑ کی شدید محبت پیدا کر دی تھی۔ دوسری طرف آپؑ کی زوجہ ام الفضل بھی اپنے باپ مامون کو امامؑ سے متعلق شکایت نامے لکھتی رہتی تھی۔ ام الفضل کی امامؑ سے ناراضگی کا ایک سبب آپؑ کی جناب سمانہ خاتونؑ سے عقد تھا جو کہ امام علی نقی علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ لیکن مامون اپنے سیاسی معاملات میں اس قدر الجھا ہوا تھا کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھا سکا یہاں تک کہ 218ھ میں اس کا انتقال ہو گیا اور خلافت اس کے بھائی معتصم کے ہاتھ میں آگئی۔ معتصم نے امامؑ کو ایک سال کے بعد بغداد بلا لیا۔ بغداد روانگی سے قبل امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے بیٹے امام علی نقی علیہ السلام کی جانشینی اور امامت کا اعلان کر دیا۔