Uncategorizedحضرت فاطمہ زہرا (س)دانشکدہ

جگر گو شہ رسالت سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیہا کا خطبہ فدک

‎جگر گو شہ رسالت سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ الزھرا سلام اللہ علیہا کا خطبہ فدک

‎(نوٹ: تمام احباب سے دست بستہ التماس ہے کہ اس خطبے کو ایک بارضرور پڑھ لیجیےگا)

‎” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے اپنی بے شمار اور بے انتہا نعمتوں سے نوازا، میں شکر بجالاتی ہوں اس کی ان توفیقات پر جو اس نے مجھے عطا کیں، اور خدا کی حمد و ثناء کرتی ہوں ان بے شمار نعمتوں پر جن کی کوئی انتہا نہیں، اورنہ ہی ان کا کوئی بدلا ہو سکتا ہے، ایسی نعمتیں جن کا تصور کرنا امکان سے باہر ھے، خدا چاھتا ہے کہ ہم اسکی نعمتوں کی قدر کریں تاکہ وہ ہم پر اپنی نعمتوں کا اضافہ فرمائے، ہمیں شکر کی دعوت دی ہے تا کہ آخرت میں بھی وہ ایسے ہی اپنی نعمتوں کا نزول فرمائے ۔ میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں، وہ وحدہ لا شریک ھے، ایسی وحدانیت جس کی حقیقت اخلاص پر مبنی ہے اور جس کا مشاہدہ دل کی گہرائی سے ہو تا ھے اوراس کے حقیقی معنی پر غور و فکر کرنے سے دل و دماغ روشن ہوتے ھیں۔ وہ خدا جس کو آنکھ کے ذریعہ دیکھا نہیں جا سکتا، زبان کے ذریعہ اس کی تعریف وتوصیف نہیں کی جا سکتی، جو وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا۔ وہ خدا جس نے ایسی ایسی موجوات خلق کی جن کی اس سے پہلے نہ کوئی نظیر ملتی ہے اور نہ کوئی مثال، اس نے اپنی مرضی و مشیت سے اس کائنات کو وجود بخشا بغیر اس کے کہ اسے اس کے وجود کی ضرورت ہو، یا اسے اس کا کوئی فائدہ پہونچتا ہو۔ بلکہ کائنات کو اس نے اس لئے پیدا کیا تا کہ اپنے علم وحکمت کو ثابت کر سکے ،اپنی اطاعت کے لئے تیار کر سکے، اپنی طاقت و قدرت کا اظہار کر سکے، بندوں کو اپنی عبادت کی تر غیب دلا سکے اور اپنی دعوت کی اہمیت جتا سکے؟ اس نے اپنی اطاعت پر جزاء اور نافرمانی پر سزا معین کی ہے، تاکہ اپنے بندوں کوعذاب سے نجات دے ، اورجنت کی طرف لے جائے۔
‎میں گواھی دیتی ہوں کہ میرے پدر بزرگوار حضرت محمد، اللہ کے بندے اور رسول ھیں، ان کو پیغمبری پر مبعوث کرنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا، (اوران کے انتخاب سے پھلے ان کا نام محمد رکھا) اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب کیا، جس وقت مخلوقات عالم غیب میں پنہاں تھیں، نیست ونابودی کے پردوں میں چھپی تھیں اورعدم کی وادیوں میں تھیں ،چونکہ خداوندعالم ھر شیٴ کے مستقبل سے آگاہ ، زمانے کے حوادثات سے با خبر اور قضا وقدر سے مطلع ھے۔
‎خدا نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث کیا تاکہ اپنے مقصد کو آگے بڑھائے، اپنے حتمی فیصلوں کو پایہٴ تکمیل تک پہونچائے اور لوگوں پر اپنی رحمت کو نازل کرے۔ (جب آپ مبعوث ہوئے )تو لوگ مختلف ادیان میں بٹے ہوئے تھے، کفر و الحاد کی آگ میں جل رھے تھے، بتوں اور آگ کی پرستش کررھے تھے اورخدا کی شناخت کے بعد بھی اس کا انکار کیا کرتے تھے۔ حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود مقدس سے تاریکیاں چھٹ گئیں جہالت ونادانیاں دلوں سے نکل گئیں، حیرتیں و سر گردانیاں آنکھوں سے اوجھل ہوگئیں، میرے باپ نے لوگوں کی ھدایت کی اور ان کوگمراھی اور ضلالت سے نجات دی ، تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لے کر آئے اور دین اسلام کی راہ دکھائی اور صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی۔‎اس کے بعد خدا نے اپنے پیغمبر کے اختیار، رغبت اورمہربانی سے ان کی روح قبض کی ،اس وقت میرا باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ھے اوراس وقت فرشتوں اور رضایت غفّار اور ملک جبّار کے قرب میں زندگی گزار رہا ھے ،خدا کی طرف سے میرے باپ، نبی اور امین خدا، خیر خلق اورصفی خدا پر درود و سلام اور اس کی رحمت ہو۔
‎اس کے بعدآپ نے مجمع کو مخاطب کرکے فرمایا:
‎تم خدا کے بندے ،امرونہی کے پرچم دار اور دین اسلام کے عہدہ دار ہو، اور تم اپنے نفسوں پر اللہ کے امین ہو ، تم ہی لوگوں کے ذریعہ دوسری قوم تک دین اسلام پہونچ رھا ھے،تم نے گویا یہ سمجھ لیا ہے کہ تم ان صفات کے حقدار ہو، اور کیا اس سلسلہ میں خدا سے تمہارا کوئی عہد وپیمان ہے؟ حالانکہ ہم بقیة الله اور قرآن ناطق ہیں وہ کتاب خدا جو صادق اور چمکتا ہوا نور ہے جس کی بصیرت روشن و منور اوراس کے اسرار ظاہر ہیں، اس کے پیرو کار سعادت مند ہیں،اس کی پیروی کرنا، انسان کوجنت کی طرف ہدایت کرتا ہے، اس کی باتوں کو سننا وسیلہٴ نجات ہے اور اس کے بابرکت وجود سے خدا کی نورانی حجتوں تک رسائی کی جاسکتی ہیں اس کے وسیلہ سے واجبات و محرمات، مستحبات ومباہات اور قوانین شریعت حاصل ہو سکتے ہیں۔ خدا وندعالم نے تمہارے لئے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا، نماز کو تکبر سے بچنے کے لئے، زکوة کو وسعت رزق اور تزکیہ ٴنفس کے لئے، روزہ کواخلاص کے لئے،حج کو دین کی بنیادیں استوار کرنے کے لئے، عدالت کو نظم زندگی اور دلوں کے آپس میں ملانے کے لئے سبب قرار دیا ہے۔ اور ھماری اطاعت کو نظم ملت اور ہماری امامت کو تفرقہ اندازی سے دوری، جہاد کو عزتِ اسلام اور کفار کی ذلت کا سبب قرار دیا، اور صبر کو ثواب کے لئے مددگار مقرر کیا،امر بالمعروف و نہی عن المنکر عمومی مصلحت کے لئے اور والدین کے ساتھ نیکی کو غضب سے بچنے کا ذریعہ اورصلہ رحم کو تاخیر موت کاوسیلہ قرار دیا، قصاص اس لئے رکھا تا کہ کسی کوناحق قتل نہ کرو نیز نذر کو پورا کرنے کو گناہگاروں کی بخشش کا سبب قرار دیا اور پلیدی اور پست حرکتوں سے محفوظ رہنے کے لئے شراب خوری کو حرام کیا، زنا کی نسبت دینے سے اجتناب کو لعنت سے بچنے کا ذریعہ بنایا ،چوری نہ کرنے کو عزت و عفت کا ذریعہ قرار دیا، خدا کے ساتھ شرک کو حرام قرار دیا تا کہ اس کی ربوبیت کے بارے میں اخلاص باقی رھے۔ ”اے لوگو! تقویٰ و پرہیز گاری کو اپناؤ اور تمھارا خاتمہ اسلام پر ہو“ اوراسلام کی حفاظت کرو خدا کے اوامر و نواہی کی اطاعت کرو۔ ”اورخدا سے صرف علماء ڈرتے ہیں ۔“
‎اس کے بعد جناب فاطمہ الزہرا نے فرمایا:

"‎اے لوگو! جان لو میں فاطمہ ہوں، میرے باپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے، میری پہلی اور آخری بات یہی ہے ،جو میں کہہ رھی ہوں وہ غلط نہیں ہے اور جو میں انجام دیتی ہوں بے ہودہ نہیں ہے۔”

‎”خدا نے تم ہی میں سے پیغمبر کو بھیجا تمہاری تکلیف سے انہیں تکلیف ہوتی تھی وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں دل سوز و غفور و رحیم تھے۔“ وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ کہ تمھاری عورتوں کے باپ، میرے شوھر کے چچازاد بھائی تھے نہ کہ تمہارے مردوں کے بھائی، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منسوب ہونا کتنی بہترین نسبت اور فضیلت ھے۔ انہوں نے دین اسلام کی تبلیغ کی اور لوگوں کو عذاب الٰھی سے ڈرایا، اور شرک پھیلانے والوں کا سد باب کیا ان کی گردنوں پرشمشیر عدالت رکھی اورحق دبانے والوں کا گلا دبا دیا تا کہ شرک سے پرہیز کریں ا ور توحید و عدالت کو قبول کریں۔”
‎اپنی وعظ و نصیحت کے ذریعہ خداکی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو کچل دیا، کفار نے شکست کھائی اور منھ پھیر کر بھاگے ،کفر کی تاریکیاں دور ہوگئیں اورحق مکمل طور سے واضح ہوگیا، دین کے رھبر کی زبان گویا ہوئی اور شیاطین کی زبانوں پر تالے پڑ گئے، نفاق کے پیروکار ہلاکت و سر گردانی کے قعر عمیق میں جا گرے کفر و اختلاف اور نفاق کے مضبوط بندھن ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ (اور تم اھلبیت کی وجہ سے) کلمہ شھادت زبان پر جاری کر کے لوگوں کی نظروں میں سرخ رو ہو گئے، درآں حالیکہ تم دوزخ کے دھانے پر اس حالت میں کھڑے تھے کہ جیسے پیاسے شخص کے لئے پانی کا ایک گھونٹ اور بھو کے شخص کے لئے روٹی کا ایک تر لقمہ، اور تمہارے لئے شعلہ جہنم اس راہ گیر کی طرح جستجو میں تھا جو اپنا راستہ تلاش کرنے کے لئے آگ کی راہنمائی چاھتا ھے۔ تم قبائل کے نحس پنجوں کی سخت گرفت میں تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانوں کو کھال سمیت کھا لیتے تھے، اور دوسروں کے نزدیک ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے ھمیشہ ہراساں تھے۔ یہاں تک خدا نے میرے پدر بزرگوار محمدمصطفےٰ (ص)کے سبب ان تمام چھوٹی بڑی مشکلات کے باوجود جو انہیں درپیش تھی، تم کو نجات دی، حالانکہ میرے باپ کو عرب کے بھیڑئے نما افراد اور اھل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا ”لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے تھے خدا اسے خاموش کر دیتا تھا“ اور جب کو ئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی زبان کھولتا تھا توحضرت محمد اپنے بھائی (علی) کوان سے مقابلہ کے لئے بھیج دیتے تھے، اورعلی اپنی طاقت وتوانائی سے ان کو نیست ونابود کردیتے تھے اور جب تک ان کی طرف سے روشن کی گئی آگ کو اپنی تلوارسے خاموش نہ کردیتے میدان جنگ سے واپس نہ ہوتے تھے۔ (وہ علی ) جو اللہ کی رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے رھے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے رہے ،رسول اللہ(ص)کے نزدیک ترین فرد اور اولیاء اللہ کے سردار تھے ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ اور نصیحت کرنے کے لئے جستجو میں رھتے تھے، لیکن تم اس حالت میں آرام کے ساتھ خوش وخرم زندگی گزارتے تھے، (اور ھمارے لئے کسی بری) خبر کے منتظر رہتے تھے اور دشمن کے مقابلہ سے پرہیز کرتے تھے نیز جنگ کے وقت میدان سے فرار ہو جایا کرتے تھے۔ جب خدا نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کی منزلت کو اپنے حبیب کے لئے منتخب کر لیا، تو تمہارے اندر کینہ اور نفاق ظاھر ہو گیا، لباس دین کہنہ ہو گیا اور گمراہ لوگوں کے سِلے منہ کھل گئے، پست لوگوں نے سر اٹھا لیا، باطل کا اونٹ بولنے لگا اور تمہارے اندر اپنی دم ہلانے لگا، شیطان نے اپنا سر کمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اپنی طرف دعوت دی، تم کو اپنی دعوت قبول کرنے کے لئے آمادہ پایا ، وہ تم کو دھوکہ دینے کا منتظر تھا، اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آ گئے اس نے تمہیں غضبناک کیا، تم غضبناک ہوگئے وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے علامت دار بناکر اس جگہ بٹھا دیا جس کا وہ حق دار نہ تھا ،حالانکہ ابھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کوزیادہ وقت نہیں گزرا تھا اور ہمارے زخم دل نہیں بھرے تھے، زخموں کے شگاف بھرے نہیں تھے، ابھی پیغمبر (ص)کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنہ کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ جما لیا ”لیکن خبرداررہو کہ تم فتنہ میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر لیا ھے “۔

‎افسوس تمھیں کیا ہوگیا ھے اور تم نے کونسی ڈگر اختیار کر لی ہے حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے امر و نہی ظاہر ہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تم قرآن سے روگردانی اختیارکرنا چاہتے ہو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی دوسری چیز سے فیصلہ کرنا چاہتے ہو؟

‎”ظالمین کے لئے کس قدر برا بدلا ہے“

‎” جو شخص اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیار کریگا اس کا دین قبول نہیں کیا جائیگا اورآخرت میں ایسا شخص سخت گھاٹے میں ہوگا ۔“

‎تم خلافت کے مسئلہ میں اتنا بھی صبر نہ کرسکے کہ خلافت کے اونٹ کی سرکشی خاموش ہو جائے اوراسکی قیادت آسان ہوجائے (تاکہ آسانی کے ساتھ اس کی مہار کو ہاتھوں میں لے لو) اس وقت تم نے آتش فتنہ کو روشن کر دیا اور اس کے ایندھن کو اوپر نیچے کیا (تاکہ لکڑیاں خوب آگ پکڑ لیں) اورشیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول(ص) کوخاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ،تم ظاہر کچھ کرتے ہو لیکن تمہھارے دلوں میں کچھ اور بھرا ہوا ہے۔
‎میں تمہارے کاموں پر اس طرح صبر کرتی ہوں جس طرح کسی پر چھری اوربنیزے سے پیٹ میں زخم کردیا جاتا ہے، اور وہ اس پر صبر کرتا ہے۔
‎تم لوگ گمان کر تے ہو کہ ہمارے لئے وارث نھیں ہے؟! ”کیا تم سنت جاہلیت کو نہیں اپنا رھے ہو ؟!!

‎” کیا یہ لوگ (زمانہ) جاہلیت کے حکم کی تمنا رکھتے ھیں حالانکہ یقین کرنے والوں کے لئے حکم خدا سے بھتر کون ہو گا۔“

‎کیا تم نہیں جانتے ہو کہ صاحب ارث ہم ہیں، چنانچہ تم پر روز روشن کی طرح واضح ھے کہ میں رسول کی بیٹی ہوں، اے مسلمانو! کیا یہ صحیح ھے کہ میں اپنے ارث سے محروم رہو ں(اور تم میری خاموشی سے فا ئدہ اٹھا کر میرے ارث پر قبضہ جمالو۔ ‎اے ابن ابی قحافہ ! کیایہ کتاب خدا میں ھے کہ تم اپنے باپ سے میراث پاؤ ا ور ہم اپنے باپ کی میراث سے محروم رہیں، تم نے فدک سے متعلق میرے حق میں عجیب وغریب حکم لگایا ہے، اور علم وفہم کے باوجود قرآن کے دامن کو چھوڑدیا ، اس کو پس پشت ڈالدیا؟ ‎کیا تم نے بھلادیا کہ خدا قرآن میں ارشاد فرماتا ھے <وارث سلیمان داود> ”جناب سلیمان نے جناب داود سے وارث لیا“، اورجناب یحيٰ بن زکریا کے بارے میں ارشاد ہوتا ھے کہ انہوں نے دعا کی:
‎”بارِ الہٰا ! اپنی رحمت سے مجھے ایک فرزند عنایت فرما، جو میرا اورآل یعقوب کا وارث ہو“، نیز ارشاد ہوتا ھے: ” اور صاحبان قرابت خدا کی کتاب میں باہم ایک دوسرے کی (بہ نسبت دوسروں ) زیادہ حق دار ھیں۔“ اسی طرح حکم ہوتا ھے کہ ” خدا تمہاری اولاد کے حق میں تم سے وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ھے “ ۔
‎نیز خداوندعالم نے ارشاد فرمایا:
‎”تم کو حکم دیا جاتا ھے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑجائے تو ماں باپ اور قرابت داروں کے لئے اچھی وصیت کرے ، جو خدا سے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے۔“

‎کیا تم گمان کرتے ہو کہ میرا اپنے باپ سے کوئی رشتہ نہیں ھے اور مجھے ان سے میراث نہیں ملے گی؟
‎کیا خداوندعالم نے ارث سے متعلق آیات کو تم ھی لوگوں سے مخصوص کردیا ہے؟ اور میرے باپ کو ان آیات سے الگ کردیا ہے؟ یا تم کہتے ہو کہ میرا اور میرے باپ کا دو الگ الگ ملتوں سے تعلق ہے؟ لہٰذا ایک دوسرے سے ارث نہیں لے سکتے۔‎آیا تم لوگ میرے پدربزرگوار اور شوھر نامدار سے زیادہ قرآن کے معنیٰ و مفاھیم، عموم و خصوص اور محکم و متشابھات کو جانتے ہو ؟‎تم نے فدک اور خلافت کے مسئلہ کو اونٹ کی طرح مھار کرلیا ھے اور اس کو آمادہ کرلیا ھے جو قبر میں تمھاری ساتھ رہے گا اور روز قیامت ملاقات کریگا۔‎اس روز خدا بہترین حاکم ہو گا اور محمد بہترین زعیم ، ہمارے تمہارے لئے قیامت کا دن معین ہے وہاں پر تمہارا نقصان اور گھاٹا آشکار ہو جائے گا اور پشیمانی اس وقت کوئی فائدہ نہ پہونچائے گی، "ہر چیز کے لئے ایک دن معین ہے“ ۔ ” عنقریب ہی تم جان لو گے کہ عذاب الٰھی کتنا رسوا کنندہ ہے؟ اور عذاب بھی ایسا کہ جس سے کبھی چھٹکارا نہیں“۔

‎انصار سے خطاب

‎اس کے بعد انصارکی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
‎اے اسلام کے مددگار بزرگو! اور اسلام کے قلعوں، میرے حق کو ثابت کرنے میں کیوں سستی برتتے ہو اور مجھ پر جو ظلم وستم ہو رھا ھے اس سے کیوں غفلت سے کام لے رہے ہو ؟! کیا میرے باپ نے نہیں فرمایا تھا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ رہتاھے ( یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولادکا احترام بھی ہوتا ہے؟)‎تم نے کتنی جلدی فتنہ برپا کردیا ہے اور کتنی جلدی ہوا و ہوس کے شکار ہو گئے! تم اس ظلم کو ختم کرنے کی قدرت رکھتے ہو اور میرے دعوی کو ثابت کرنے کی طاقت بھی۔
‎یہ کیا کہہ رہے ہو کہ محمد مرگئے! (اور ان کا کام تمام ہو گیا) یہ ایک بہت بڑی مصیبت ھے جس کا شگاف ہر روز بڑھتا جا رہا ہے اور خلاء واقع ہو رہا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانے سے زمین تاریک ہوگئی اور شمس و قمر بے رونق ہو گئے، ستارے مدھم پڑ گئے، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑوں میں زلزلہ آ گیااور وہ پاش پاش ہو گئے ھیں ،حرمتوں کا پاس نہیں رکھا گیا اور پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے وقت ان کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی.

‎خدا کی قسم یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی جس کی مثال دنیا میں نہیں مل سکتی۔
‎یہ اللہ کی کتاب ہے جس کی صبح و شام تلاوت کی آواز بلند ہو رہی ہے اور انبیاء علیہم السلام کے بارے میں اپنے حتمی فیصلوں کے بارے میں خبر دے رہی ہے اور اس کے احکام تغیر ناپذیر ھیں (جیسا کہ ارشاد ہوتا ھے) :
‎”اور محمد(ص)صرف خدا کے رسول ہیں، ان سے پہلے بھی دوسرے پیغمبر موجود تھے، اب اگر وہ اس دنیا سے چلے جائیں، یا قتل کردئے جائیں تو کیا تم دین سے پھر جاوٴ گے، اور جو شخص دین سے پھر جائے گا وہ خدا کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، خدا شکر کرنے والوں کو جزائے خیردیتا ہے“ ۔
‎اے فرزندان قیلہ( اوس وخزرج) کیا یہ مناسب ھے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں جبکہ تم یہ دیکھ رہے ہواور سن رہے ہو اور یہاں حاضر بھی ہو اور میری آواز تم تک پہونچ بھی رہی ہے اور تم واقعہ سے با خبر بھی ہو، تمھاری تعداد زیادہ ہے، تمھارے پاس طاقت واسلحہ بھی ہے، اور میں تم کو اپنی مدد کے لئے پکار رھی ہوں، لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے، میری فریاد کو سن رہے ہو مگر فریاد رسی نہیں کرتے ہو، تم بہادری میں معروف اور نیکی سے موصوف اورخود نخبہ ہو ، تم ھی ھم اھلبیت کے لئے منتخب ہوئے ،تم نے عربوں کے ساتھ جنگیں لڑیں، سختیوں کو برداشت کیا، مختلف قبیلوں سے جنگ کی، سورماوٴں سے زورآزمائی کی، جب ہم قیام کرتے تھے تو تم بھی قیام کرتے تھے ہم حکم دیتے تھے اورتم اطاعت کرتے تھے ۔
‎یھاں تک کہ اسلام نے رونق پائی اور نعمتیں اور خیرات زیادہ ہوئیں، مشرکین کے سر جھک گئے، ان کا جھوٹا وقار و جوش ختم ہو گیا،اور کفر کے آتش کدے خاموش ہوگئے ، شورش اور شور و غل ختم ہو گیا اور دین کا نظام مستحکم ہو گیا۔
‎اے گروہ انصار: متحیر ہو کر کہاں جارھے ہو؟ ! حقائق کے معلوم ہونے کے بعد انھیں کیوں چھپاتے ہو، اور قدم آگے بڑھانے کے بعد پیچھے کیوں ہٹا رہے ہو، اورایمان لانے کے بعد مشرک کیوں ہو رہے ہو ؟
‎” بھلا تم ان لوگوں سے کیوں نہیں لڑتے جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا ہے اور رسول کا شہر بدر کرنا چاہتے ہیں، اور تم سے پہلے پہل چھیڑ بھی انہوں نے ہی شروع کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو ،حالانکہ کہ اگر تم سچے ایماندار ہو تو تمہیں صرف خدا سے ڈرنا چاہئے ۔“
‎میں دیکھ رھی ہوں کہ تم پستی کی طرف جارھے ہو جو شخص لائق حکومت تھا اس کو برکنار کردیا اورتم گوشہ نشینی اختیار کر کے عیش و عشرت میں مشغول ہو، زندگی کے وسیع و عریض میدان سے فرار کر کے راحت طلبی کے تنگ و تار ماحول میں پھنس گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے ظاہر کردیا اور جو پی چکے تھے اسے اگل دیا، ”لیکن آگاہ رہو اگر تم اور روئے زمین پر آباد تمام انسان کافر ہو جائیں تو خدا تمھارا محتاج نہیں ہے ۔“

اے لوگو! جو کچھ مجھے کہناچاہئے تھا سو کہہ دیا، چونکہ میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہیں کرو گے، تم لوگ جو منصوبے بناتے ہو مجھ سے پوشیدہ نہیں ہیں، دل میں ایک درد تھا جس کو بیان کر دیا تا کہ تم پر حجت تمام ہو جائے اب فدک اور خلافت کوخوب مضبوطی سے پکڑے رکھو، لیکن یہ بھی جان لو کہ اس راہ میں بڑی دشواریاں ہیں اور اس”فعل “کی رسوائیاں اور ذلتیں ہمیشہ تمہارے دامن گیر رہیں گی۔
‎خدا اپنا غیظ وغضب زیادہ کریگا اوراس کی سزا جہنم ہوگی،” خدا تمہارے کردارسے آگاہ ہے بہت جلد ستمگار اپنے کئے ہوئے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے“
‎اے لوگو! میں تمہارے اس نبی کی بیٹی ہوں جس نے تمہیں خدا کے عذاب سے ڈرایا، اب جو کچھ تم لوگ کرسکتے ہو کرو، ھم اس کا ضرور انتقام لیں گے تم بھی منتظر ہو ، ہم بھی منتظر ہیں۔وعلیکم السلام۔۔۔

حوالہ جات؛

‎بلاغات النساء ،ابن طیفور ۔ص 20 تا30 ۔مطبوعہ دارالاضواء بیروت
‎السقیفہ والفدک ،امام ابوبکراحمد جوھری بغدادی ص 97تا105 ۔مطبوعہ مکتبہ نینوی مصر
‎علامہ ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ج 16 ص 16 تا210 ۔مطبوعہ دارالاحیاء الکتب العربیہ مصرمروج الذھب ، ج 1 مسعودی ص المطبعہ البہیہ مصریہ
‎مقاتل الطالبیین ،ابوالفرج اصفہانی ج 1 ص 22 تا63 داراحیاء العلوم بیروت۔

Related Articles

Back to top button