دانشکدہقرآن و سنتمقالات

قرآن کریم ، نہج البلاغہ کے آئینہ میں

(سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری)

تمہید
اگر نہج البلاغہ کو” تحت کلام الخالق و فوق کلا م المخلوق” کے دقیق ترین آئینہ میں دیکھا جائے تو بخو بی اندازہ ہو گا کہ کلام علی علیہ السلام ، قر آن مجید کے بعد دنیائے فانی کا وہ عظیم کلا م ہے جس کے آگے ہرکلام بشر سر بسجود ہے اس میں حیا ت انسانی کے رموز واسرار اور سلیقہ ٔ زندگی و بندگی کی مکمل آئینہ بندی کی گئی ہے ۔یہ کلام امیر ایک ایسا بحر موّاج ہے جس کے وسیع و عر یض دامن میں معارف و حقائق کے بے پناہ گوہر نایاب اورتشنگان علم وفضل کی سیرابی کے مکمل ذرائع مہیا کئے گئے ہیں اگر نہج البلاغہ کے حقائق و مفاہیم ،کلام امیر المومنین کی فصاحت وبلاغت اور آپ کے حکیمانہ اقوال پر غائرانہ نظر ڈالی جائے تو ہر فرد بشر یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوگا کہ قرآن کے بعد نہج البلاغہ وہ واحد کتاب ہے جس نے نوع بشر کو شفا بخش نسخۂ حیات عنایت کیا ہے ۔
کائنات فانی کا کون سا رخ اور کون سا گوشہ ہے جس کے سلسلے میں نہج البلاغہ میں گفتگو نہیں کی گئی ہے، اک ذرّہ ٔ بے مایہ ہو یا آفتاب پر نور، سب کی حقیقتوں کو اس کتاب میں سمویا گیا ہے ،اسی امتیازی پہلو کے پیش نظر اپنے ہوں یا پرائے، سب اس سے مستفیض ہورہے ہیں ۔بلکہ تاریخ کے مشاہدے سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ اپنوں سے زیادہ غیروں نے اس کے مفاہیم سے آشنائی حاصل کی ،اور دیکھتے دیکھتے کہاں سے کہاں پہنچ گئے، محبت کا دم بھر نے والوں نے اس کتاب کو بغور دیکھا اور پڑھا بھی ،لیکن اس پڑھی ہوئی عبارت میں کتنے ر موزو اسرار پوشیدہ ہیں اسے سمجھنے کی قطعی کوشش نہیں کی ،ورنہ نہج البلاغہ ایسی کتاب ہے جس سے انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور اجتماعی زندگی کی بھی اصلاح کی جا سکتی ہے ۔
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے جہاں کائنات کی ہر شے کا تذکرہ کیا ہے وہیں کتاب ہدایت و قانون ”قرآن ”کی خصوصیات ،اعجاز اور اس کی بھر پور جامعیت کو بطریقۂ احسن بیان کیا ہے آپ نے اپنے ار شادات اور خطبات میں کلام خدا کے متعلق ایک لمحۂ فکریہ دیا ہے کہ قرآن دنیا کی عام کتابوں کی طرح نہیں ہے جسے ایک مر تبہ پڑھا ،دیکھا اور طاقوں کی زینت بنا دیا ۔بلکہ یہ کتاب ،کتاب ہدایت ہے۔ ایک کامیاب ترین زندگی کا بہترین معاون اور سا تھی ہے ۔اس میں وہ تمام رموز واسرار پوشیدہ ہیں جس سے انسانوں کی زندگی کی کامیابیاں وابستہ ہیں ۔یہ کتاب فقط ایک فرد کی اصلاح کیلئے نازل نہیں ہوئی، بلکہ پوری انسانیت کی ہدایت و اصلاح اس کا اولین مقصد وہدف ہے ،اس میں زندگی کے ظواہر کی طراوت اور باطنی زندگی کی ظرافتیں دستیاب ہیں ۔مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے بھی قرآن سے تمسک اوراسے زندگی کا اولین ہدف بنا نے کی تاکید کی ہے کیوں کہ ایک بندۂ مومن کی روح کی بہترین غذا”قرآن ”ہے۔

اہمیت قرآن
اہمیت و عظمت کی دو جہات واضح اورآشکار ہیں ۔ایک انسان کو اس کی ذاتی کامیابیاں، عظیم اور اہم بناتی ہیں اور دوسرے وہ کسی وسیلے اور ذریعہ سے اہم بنتا ہے، اگر ان جہات سے قرآن کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ قرآن مجید کائنات فنا کی عظیم ترین کتاب ہے اس لئے کہ اس کتاب کا نازل کرنے والا وہ ہے جس نے کائنات کو خلق کیا ہے
لیکن قرآن کے سلسلے میں دوسرا رخ بھی قابل توجہ اور کافی اہمیت کا حامل ہے، یقیناً قر آن کلام الہٰی ہے اس لئے اہم ہے، لیکن اس کے ذاتی کمالات کی اہمیت میں چار چاند لگانے کیلئے ہم کلام حضرت امیر کی طرف رخ کر تے ہیں۔ مولا فر ماتے ہیں:
قر آن سراپا نور ہے جس کی قندیلیں گل نہیں ہو تیں”نورا لا تطفأمصابیحہ”۔
ایسا چراغ ہے جس کی لو خاموش نہیں ہو تی "وسراجاً لایخبو توقدہ”۔
ایسا دریا ہے جس کی گہرائی ناپی نہیں جا سکتی”وبحراً لایدر ک قعرہ”۔(١)
یہ بظاہر خاموش طبع ہے لیکن اس کے دامن میں گفتگو کا ٹھا ٹھیں مارتا ہوا سمندر مو جزن ہے ۔
مولا فرماتے ہیں: اللہ کی کتاب اس طرح تمہا رے سا منے بو لنے والی ہے کہ اس کی زبان لڑکھڑاتی نہیں ہے اور ایسا گھر ہے جس کے ستون سرنگو ں نہیں ہو تے اور ایسی عزت ہے کہ اس کے معاون شکست نہیں کھا تے”کتاب اللہ بین اظھر کم ناطق لایعییٰ لسانہ و بیت لاتھدم ارکانہ واعز لاتھزم اعوانہ "۔(٢)
مولا نے مذکو رہ فقرہ میں جہاں صفات قرآن بیان فر ما یا ہے وہیں تمسک باالقرآن کی اہمیت بھی واضح و آشکار کی ہے ۔اگر ان فقرات کو انسانی زندگی سے تعبیر کیا جائے تو بہت ہی اہم وضاحت ہو سکتی ہے ۔انسان اپنی زندگی میں ایک ٹھکانے کا محتاج ہے جہاں اسے سکون واطمینان اور آسائش حیات میسر آسکے اور ایک حیثیت کا محتاج ہو تا ہے جس سے دنیا میں قابل احترام ہو سکے اور پھر حقائق کے اظہار کیلئے ایک نطق کا محتاج ہوتا ہے جس سے اپنی ضرور یات کوپورا کر سکے اور ہر مرحلہ پر ہدایت حاصل کر سکے ،اسلام نے تینوں ضروریات کو اسی قرآن میں سمیٹ دیا ہے۔ یقیناً قرآن ایسی کتاب ہے جس کے آگے زبان کی لن ترانیاں سر بسجود ہیں لیکن اس کا واضح ترین پہلو یہ ہے کہ اگر قرآن کو ہدف حیات بنا لیا جائے تو تنہا قرآن ہی بنی نوع بشر کی ضرورتوں کو پورا کر سکتا ہے یہی ٹھکانہ بھی ہے اور یہی عزت بھی ۔دنیاوی ٹھکانوں اور اس ٹھکانے میں زمین و آسمان کافرق ہے دنیاکے ٹھکانے عادی ہوتے ہیں جس کا انہدام ایک نہ ایک دن مثبت ہے لیکن قرآن ایک ایسا ٹھکانہ ہے جومنہدم نہیں ہو سکتا۔
ایک دوسرے مقام پر امام علی نے اہمیت قرآن کو آشکار کیاہے ،آپ فرماتے ہیں:
یاد رکھو یہ قرآن ایسا ناصح ہے جو دھوکہ نہیں دیتا ،ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کر تا اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو غلط بیانی سے کام نہیں لیتا ،کوئی اس کے پاس نہیں بیٹھتا مگریہ کہ جب اٹھتا ہے تو ہدایت میں اضافہ کر لیتا ہے "واعلموا انّ ھذاالقرآ ن ھو الناصح الذی لایغشُّ والھادی الذی لا یضل والمحدث الذی لایکذب وما جالس ھٰذا القرآن احد الّا قام عنہ بزیادة فی ھدیٰ”۔(٣)
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے مذکورہ فقرات میں عظمت قرآن اور فہم قرآن کی حسین ترین تعبیرپیش کی ہے کہ انسان قرآن مجید کے ساتھ اس طرح ر ہے جس طرح کوئی شخص اپنے ہمنشین کے ساتھ بیٹھتا اور اس سے مانوس رہتا ہے اور جس کے نتیجے میں جمال ہمنشینی سے متأثر ہوتا ہے ،مسلمان کا تعلق صرف قرآن کے الفاظ سے نہیں بلکہ اس کے معانی سے ہونا چا ہئے تا کہ اس کے مفاہیم سے آشنا ہو سکے ،اور اس کی تعلیمات سے بہرہ مند ہو سکے ۔
اس کائنات میں ہر انسان کو اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ ایک ایسی شے یا ایک ایسے شخص کی ہمنشینی اختیار کی جائے جس کے آداب وخصائل لطیف اور خوبصورت ہوں ،جو اسکی داخلی اور خارجی دونوں زندگی میں مفید اور معاون ثابت ہو ورنہ پھر ہمنشینی لغو اوربیکار ہے ۔قرآن ایک بہترین معاون اور ہم نشین حیات انسانی ہے ،انسان کی داخلی اور خارجی زندگی میں کس قدر مفید اور سودآور ہے اسکی طرف مولا اشارہ فرماتے ہیں: …یاد رکھو !قرآن کے بعد کوئی کسی کا محتاج نہیں ہو سکتا اور قرآن سے پہلے کوئی بے نیاز نہیں ہو سکتا "واعلموا انہ لیس علی احد بعد القرآن من فاقة و لا لاحدٍ قبل القرآن من غنی”۔(٤)
یہ قرآن اچھائیوں کا حکم دینے والا ،برائیوں سے روکنے والا ،بظاہر خاموش اور بباطن گویا ہے "فالقرآن اٰمر زاجر وصامت ناطق”۔(٥ )
یہ خدا کی مضبوط رسی اور اسکا امانت دار وسیلہ ہے ۔”ھذا القرآن فانّہ حبل المتین و وسیلة الامین”۔(٦)
اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ محتاجی کا چہرہ نہ دیکھے ،بے نیازی سے سرفراز نہ ہو ،خوبیاں اسکی زندگی کی حد اول و آخر ہوں اور ایک مضبوط و محکم رسی کے سہارے بارگاہ خالق میں سرخرو ہو تو اسے چاہئے کہ وہ قرآن کی پاکیزہ ہمنشینی اختیار کرے ۔

جامعیت قرآن
قرآن مجید کائنات کی جامع ترین کتاب ہے، اسکی جامعیت کو خدا وند عالم نے ایک آیت میں سمیٹ دیا ہے ۔چنانچہ اللہ کا اعلان ہے: لارطب ولایابس الا فی کتاب مبین۔(٧) قرآن کے وسیع دامن میں کائنات کے ہر خشک و تر کا وجود مسلم الثبوت ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے جہاں قرآن کی جملہ خصوصیات کی تصریح کی ہے وہیں اسکی جامعیت کو مختصر مگروقیع پیرائے میں بیان فرمایا ہے ۔آپ ابتدا ہی میں بیان فرماتے ہیں :رسول اکرم (ص) نے تمہارے پروردگار کی کتاب تمھارے درمیان چھوڑی ہے ۔اس حالت میں کہ کتاب مبین کے حلال و حرام ،واجبات و مستحبات ،ناسخ و منسوخ ،رخص و عزائم ،خاص و عام ،عبر و امثال ،قید و مطلق اور محکم و متشابہ کو واضح طور سے بیان فرمایا ہے مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی ہے اور گتھیوں کو سلجھا دیا ہے "کتاب ربکم فیکم ! مبینا حلالہ و حرامہ و فرائضہ و فضائلہ و ناسخہ و منسوخہ و رخصہ و عزائمہ و خاصہ و عامہ وعبرہ و امثالہ و مرسلہ و محدودہ و محکمہ و متشابہہ و مفسراًمجملہ و مبیناًغوامضہ”۔
اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس سے بندے ناواقف ہیں توکوئی مضائقہ نہیں ہے”بین ماخوذ میثاق علمہ وموسع علی العباد فی جہلہ”۔
کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔اور کچھ احکام ایسے ہیں جن پر عمل کرنا حدیث کی رو سے واجب ہے لیکن کتاب میں اس کے ترک کی اجازت ہے”وبین مثبت فی الکتاب فرضہ و معلوم فی السنة نسخہ و واجب فی السنة اخذہ و مرخص فی الکتاب ترکہ”۔
اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آئندہ میں اس کا وجوب بر طرف ہو جاتا ہے”وبین واجب بوقتہ و زائل فی مستقبلہ”۔
قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہے کچھ کبیرہ ہیں جن کیلئے آتش جہنم کی دھمکیاں ہیں ،اور کچھ صغیرہ ہیں جن کیلئے مغفرت کی توقعات پیدا کی گئی ہیں”ومباین بین محارمہ من کبیرة اوعد علیہ نیرانہ او صغیرة ارصد لہ غفرانہ "۔
اور بعض احکام ایسے ہیں جن کا مختصر بھی قابل قبول ہے اور زیادہ کی بھی گنجائش پائی جاتی ہے ” و بین مقبول فی ادناہ موسع فی اقصاہ”۔(٨)
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے جس انداز سے قرآن کی جامعیت کو بیان فرمایا ہے وہ بہرحال قابل غور ہے اگر غائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ مولا نے ان تمام تر خصوصیات کو مختصر پیرائے میں بیان فرمایا ہے جسکی وجہ سے قرآن شہرۂ آفاق ہے ۔ایک دوسرے مقام پرمولا نے دوسرے انداز سے جامعیت قرآن کو بیان فرمایا ہے ۔ قرآن میں تم سے پہلے کی خبریں ،تمھارے بعد کے واقعات ،اور تمھارے درمیانی حالات کیلئے احکام ہیں (و فی القرآن نبا ء ما قبلکم و خبر ما بعدکم و حکم ما بینکم)۔(٩)
کائنات کی کوئی بھی کتاب جامعیت کے عنوان سے کامل نہیں ہو سکتی، اس لئے کہ ذہن بشر ہر زمانے کے حالات و ماحول کا احاطہ کرنے سے قاصر و عاجزہے ۔لیکن قرآن مجید اس سے قطعی مستثنیٰ ہے کائنات کے خالق نے جب اسے نازل فرمایا تو اب اس میں فقط ماضی کے حالات نہیں ہوں گے بلکہ ماضی ،حال اور مستقبل ہر زمانے کی باتیں ہوں گی تاکہ یہ کتاب صرف ایک زمانے تک محدود نہ رہے ۔

اعجاز قرآن
قرآن ایک معجزاتی کتاب ہے جو تا قیام قیامت نا قابل فراموش اور رمق زندگی سے بھر پور ہے ۔قرآن کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے نازل شدہ یہ کتاب آج بھی نوع بشر کیلئے کہنہ نہیں ہے ۔اور ہر روز ایک نئی جاذبیت کے ساتھ افق کائنات پر جلوہ گر ہے
حضرت علی علیہ السلام نے جہاں قرآن کی دوسری خصوصیات کو نہج البلاغہ میں بیان فرمایا ہے وہیں اسکی معجزاتی کیفیت کو بھی بطریقۂ احسن بیان فرمایا ہے ۔چنانچہ آپ قرآن کی اس آیت کریمہ (لو کان من عند غیر اللہ لوجدوا فیہ اختلافاً کثیراً)کے ذیل میں فرماتے ہیں :بے شک قرآن کا ظاہر خوشنما اور باطن انتہائی گہرا ہے ۔(ان القرآن ظاہرہ انیق و باطنہ عمیق )۔
اس کے عجائبات نہ مٹنے والے اورنہ اس کے لطائف ختم ہونے والے ہیں (لا تفنی عجا ئبہ و لا تنقضی غرائبہ )ظلمت و جہالت کا پردہ اسی سے چاک کیا جاتا ہے (لا تکشف لظلمات الا بہ )۔(١٠)
یقیناً قرآن کا ظاہر انتہائی زیبا اور خوشنما ہے اسکی خوشنمائی کیلئے یہی کافی ہےکہ جب بھی کوئی اسکی سطروں میں نگاہوں کو جذب کرتا ہے اور اسکی خوشنمائی میں کھوتا ہے تو دنیا جہان کی مشکلوں اورپریشانیوں سے کچھ لمحوں کیلئے مبرہ اور منزہ ہو جاتا ہے ۔وہ تمام بے نوائیاں جو اس کی زندگی کیلئے ایک حرف سوال بنی ہوئی ہوتی ہیں اور دماغی اضطراب کا سبب بن جاتی ہیں ان سے معجزاتی طور پر چھٹکارا پا لیتا ہے
یہ قرآن فقط ظاہری زیبائش و آرائش سے سرفراز نہیں ہے بلکہ اس کاباطن بھی انتہائی گہرا اور عمیق ہے اسکی عمق و گہرائی اس قدر زیادہ ہے کہ چودہ سو سال سے مفسرین و علماء دین اسکی تہہ تک پہنچنے کی جد و جہد کر رہے ہیں اور ہر مرتبہ ایک نئی چیز ہاتھ آرہی ہے ،لیکن تشنگی پھر بھی عروج پر نظر آتی ہے
رسول اکرم(ص)نے قرآن کے باطن اور عمق کی وضاحت ایک حدیث میں کی ہے ،چنانچہ آپ نے فرمایا :قرآن کے سات بطن ہیں ۔اور بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اس کے ستر سے زائد بطن ہیں ۔(١١)
مولا نے معجزۂ قرآن کے سلسلے میں جو آخری فقرہ بیان فرمایا وہ بھی قابل غور ہے، آپ کا ارشادہے کہ ظلمت و جہالت کا پردہ اسی سے چاک کیا جاتاہے۔چونکہ اس کائنات میں گمراہی ،جہالت ،فریبکاری اور دیگر عیوب اسقدر زیادہ ہیں کہ ہر قدم اور ہر لمحہ اس دریائے جہالت و گمراہی میں ڈوب جانے کا خطرہ لاحق ہے، انسان ہر گز جہالت و گمراہی سے چھٹکارا نہیں پا سکتا مگر یہ کہ وہ اپنے دل کو نور قرآن سے اس طرح منور کر لے کہ اطراف کی فریب کاریاں واضح و آشکار ہو جائیں ۔گویا قرآن ہی کتاب ہدایت ہے اور بندگان خدا کی زندگی و بندگی کیلئے باعث سعادت ہے ۔

تلاوت و تعلیم قرآن،اہم ترین ضرورت
قرآن ایسی کتاب نہیں ہے کہ اسے سرسری انداز سے پڑھ کر گذر جایا جائے چونکہ قرآن آفاقی اور ابدی حیثیت کا حامل ہے لہذا تمام نوع بشر کیلئے ضروری ہے کہ اس قرآن مجیدکے جملہ قوانین ،آداب و نصائح اور زیباترین داستان کی فقط قرائت پر اکتفا نہ کرے بلکہ ان ادب آموز اور نصیحت آمیز کلمات و داستان کی یادگیری و تعلیم سے اپنی زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں سے کلی طور پر نجات حاصل کرے ۔
مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام نے بھی قرآن کے اس عظیم رخ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حالات حاضرہ کی الجھنوں سے نجات کا سامان فراہم کیا ہے ۔چنانچہ آپ فرماتے ہیں 🙁 و تعلموا القرآن فانہ احسن الحدیث و تفقہوا فیہ فانہ ربیع القلوب واشتشفعو ا بنورہ فانہ شفاء الصدر و احسنوا تلاوتہ فا نہ انفع القصص)۔(١٢)
حضرت علی علیہ السلام نے مذکو رہ بالا کلمات میں چند اہم ترین نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کی وضاحت بہر حال ضروری ہے ۔
١)تعلمواالقرآن …قرآن کی تعلیم حاصل کرو اس لئے کہ قرآن کی باتیں ،اس کے کلمات ،اس کے الفاظ اور اسکی چھوٹی بڑی آیتیں انتہائی زیبا ہیں ۔قرآن اپنی اسی موزو ں ترین زیبائی و خوشنمائی کی وجہ سے دل انسان کی دلربائی کرتا ہے اوردردمندقلب کی خوشحالی کا سامان فراہم کرتا ہے ۔
٢) تفقہوافیہ …قرآن کی آیتوں میں غور و فکر کرو اس لئے کہ قرآن کی انھی آیتوں میں دلوں کی بہار پو شیدہ ہے ۔یعنی وہ علم و معرفت کے ذخیرے جوقرآن کی آیتوں سے ایک فقیہ اور عالم کو نصیب ہوتے ہیں ،وہ در حقیقت بیان وکلام کی تازگی اور معانی و مفاہیم کی بہاریں ہیں جو اسے عطاکی جاتی ہیں ،قر آن نے بھی غور وفکر کی ترغیب دی ہے (افلا یتدبرون القرآن )۔(١٣)
کیا وہ لوگ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے۔ یعنی قرآن کی اصل تعلیم اور حیات انسانی کا اولین ھدف اس کے غور و فکر میں پوشیدہ ہے ۔اب جب ایک انسان تدبروتفکر کے ساتھ قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو زندگی میں انجما د لانے والی پریشانیاں یقینی طور پر دور ہوتی ہیں ۔اور عالم وفقیہ کی تشنگی ،مقاصد واہداف کی سیرابی کا ذریعہ یہی آیتیں بنتی ہیں۔چنانچہ مولا فرماتے ہیں وجعلہ اللہ ریاّلعطش العلماء وربیعاًلقلوب الفقہاء محاج لطریق الصلحاء یعنی اللہ نے اس قرآن کو عالموں کی تشنگی کیلئے سیرابی ، فقیہوں کے دلوں کیلئے بہار ،اور نیکوں کی گذر کیلئے شاہراہ قرار دیاہے۔(١٤)
٣)واستشفعوا بنورہ…مولافرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی نورانیت سے شفا حاصل کرو اور اپنا علاج و معالجہ کرو ،قرآن میں بھی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :تنزل من القرآن ما ھو شفاء و رحمة للمومنین” قرآن کو اس لئے نازل کیا گیا ہے کیوں کہ یہ مومنین کیلئے شفاو رحمت ہے "۔(١٥)
یقیناًقرآن میں شفاورحمت ہے لیکن قرآن کے اس رخ سے استفادہ کرتے ہوئے کچھ موقع پرستوں نے اسے فقط امراض جسمی کے علاج ومعالجہ تک محدود کر دیا ہے اور بڑے بڑے دفاتر کھول رکھے ہیں تا کہ اپنی زندگی کی بڑی بڑی آسائشوں سے بہرہ مند ہو سکیں ،کیاقرآن کو اسی حد تک محدود کرنادرست ہے؟نہیں یہ سراسر غلط اورلغو ہے اگر ایسا ہے تو قرآن مجید کی آفاقیت ،ابدیت اور معنویت کاکھلے طور پر مذاق اڑایا جارہاہے ۔ہاں یہ سچ ہے کہ قرآن ان امراض جسمی کابھی علاج کرتا ہے جو دست بشر سے بھی ممکن نہیں ، لیکن اسی حد تک محدود کر دینا ظلم ہے قرآن جسمانی امراض سے زیادہ قلبی و روحی امراض کادرما ن کرتا ہے یہ قلب وروح کو ان گمراہی و تاریکی سے نجات دلاتا ہے جو انسانوں کو صراط مستقیم سے منحر ف کرتی ہیں۔
چنانچہ مولافرماتے ہیں :اس میں کفر ونفاق اور ہلاکت وگمراہی جیسے بڑے امراض کی شفاپائی جاتی ہے (فان ّ فیہ شفاء من اکبرالداء و ھو الکفر والنفاق والغی والضلال )۔(١٦)
دوسری جگہ پر بھی روحانی بیماریوں سے نجات کاذریعہ قرار دیتے ہوئے فرمایا :یہ (قرآن )سراسر شفاء ہے اس کے ہوتے ہوئے روحانی بیماریوں کا کھٹکا نہیں (وشفاء لاتخشیٰ اسقامہ )۔(١٧)
لہذا ضروری ہے کہ جسمانی امراض سے زیادہ قلبی و روحی امراض کادرمان تلاش کریں۔
٤)احسنواتلاوتہ …قرآن کی آیتوں کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو ،کیوں کہ اس کے واقعات تمام واقعات سے زیادہ سود آور ہیں ۔
قرآن مجید ایک ایسی جامع ترین کتاب ہے جس میں نصیحت آمیز کلمات کے ساتھ ساتھ عبرت آموز داستانیں اورواقعات بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔لیکن کیایہ داستانیں ایسی ہیں جنھیں ایک مرتبہ پڑھا ،دیکھا اور لطف اندوز ہوا جائے اور پھر ان کے اثرات ختم ہو جائیں ،کیا یہ دنیاوی کہانیاں ہیں جن میں دوام نہیں ہوتا ۔ایک حد تک اسکی لطافت برقرار رہتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے ؟قرآن اس سے بہرحال جدا ہے اس میں داستان ہیں مگر اس کے اثرات انتہائی حیات بخش اور بشری زندگی کیلئے بے پناہ سود آور ہیں …. جس طرح قرآن آفاقیت کا حامل ہے اسی طرح اسکی داستانیں بھی ابدی اور آفاقی ہیں ۔گردش زمانہ اسکی لطافت و سعادت میں تحول و تغیر پیدا نہیں کرسکتے
ایک بندۂ مومن انھی قرآنی داستان کی لطافتوں سے اپنی بکھری زندگی کو لطیف تر بناتا ہے اور تلاوت کو پریشانیوں کے خاتمہ کا ذریعہ بناتا ہے ….یہ تلاوت قرآن ایک ایسا سرمایۂ گرانبہا ہے جس کی نظیر ڈھونڈھنے سے نہیں ملتی ،ذہن بشر اسکی مثال تلاش کرنے سے قطعی طور پر قاصر و عاجز ہے ۔
لیکن تلاوت قرآن کی شان بھی انتہائی نرالی اور انفرادی حیثیت کی حامل ہے ۔تلاوت کلام اللہ کا واقعی مزہ عام کتابوں کی طرح پڑھنے سے نہیں آتا ۔مولا نے اسکی شان تلاوت بھی عجیب انداز میں بیان فرمائی ہے ۔آپ فرماتے ہیں : کہ جب رات ہوتی ہے تو متقین اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر قرآن کی آیتوں کی ٹھہرٹھہر کر تلاوت کرتے ہیں ،جس سے اپنے دلوں میں غم و اندوہ تازہ کرتے ہیں اور اپنے مرض کا درمان تلاش کرتے ہیں ۔(تالین لاجزاء القرآن یرتلونہ ترتیلاً یحزنون بہ انفسہم و یستثیرون بہ دواء دائہم )۔(١٩)
تلاوت کلام اللہ سے حزن و ملال اور گریہ و زاری کی کیفیت ایک خاص اشارہ ہے ،تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ عارفین کا خاص شیوہ تھا کہ جب بھی تلاوت کلام اللہ کرتے تھے تو ان کا چہرہ آنسووں کی روشنی سے پر نور ہو جایا کرتا تھا …اب جب ایک عارف واقعی معرفت کے ساتھ گریہ و زاری اور حزن و ملال کی ایک خاص کیفیت کے ساتھ تلاوت کلام اللہ کرتا ہے تو اس کے اہداف و مقاصد بھی منفرد نظر آتے ہیں
مولااسکی طرف بھی اشارہ فرماتے ہیں :جب کسی ایسی آیت پر انکی نگاہ پڑتی ہے جس میں جنت کی تر غیب دلائی گئی ہو تو اس کی طمع میں ادھر جھک پڑتے ہیں ،اور اس کے اشتیاق میں ان کے دل بے تابانہ کھنچتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ پر کیف منظر ان کی نظروں کے سامنے ہے (فاذا مرو ا بآیةفیھا تشویق رکنوا الیھا طمعاًو تطلعت نفوسھم الیھاشوقاًوظنواانّھا نصب اعینھم )۔
اور جب کسی ایسی آیت پر نگاہ پڑتی ہے جس میں(دوزخ)سے ڈرایاگیا ہو تو اس کی جانب کانوں کو جھکا دیتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ جہنم کے شعلوں کی آواز اور وہاں کی چیخ پکار ان کے کانوں کے اندر پہنچ رہی ہے (واذا مروا بآیة فیھا تخویف اصغوا الیھا مسامع قلوبھم وظنوا ان زفیرجھنم وشھیقہا فی اصول آذانھم)۔(١٩)
مذکورہ بالا فقرات میں مولا نے جن صفات زیبا کو بیان فرما یا ہے وہ ایک متقی کی حقیقی شناخت ہے یعنی قرآن کاپڑھنا ،الفاظ کا بیان کرنا یافقط معانی و مفاہیم پر عبور حاصل کر لینا ہی اصل ہدف تعلیم و تلاوت قرآن نہیں ہے بلکہ تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ اس کے دامن میں اپنی زندگی اور بندگی خدا کیلئے جو رموز و اسرار اور سود آور باتیں پوشیدہ ہیں انھیں اخذ کیا جائے اور اپنی بکھری زندگی میں شامل کیاجائے اس میں آخرت کیلئے جومعنویت اور تعلیم پوشیدہ ہیں انھیں دقت نظر سے دیکھا جائے تا کہ دنیا کے ساتھ آخرت بھی خوبصورت ،خوشنمااور لطیف بن سکے۔

مفاہیم قرآن کے سمجھنے میں اہل بیت(ع) کی ضرورت
قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات اور قانون زندگی کی کتاب ہے،اس میں نوع بشر کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کا حل بہتر انداز میں پیش کیا گیا ہے ،انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس کو نظر انداز کیا گیا ہو ۔یہ قرآن اس قدر مکمل ضابطہ حیات اور ابدی قانونی کتاب ہے کہ اس کے بعد خدائے لا شریک کو کسی اور کتاب کے نزول کی احتیاج نہیں ہوئی ۔
خدا کا ارشاد ہے :(وما فرّطنا فی الکتاب من شیٍٔ )۔(٢٠) (و فیہ تبیان لکل شی)۔(٢١) ہم نے قرآن کے دامن میں کوئی چیز ایسی نہیں چھوڑی جسے بیان نہ کیا ہو ،اور قرآن میں ہر چیز کی توضیح وتشریح موجود ہے ۔خداوند عالم نے قرآن کے وسیع و عریض دامن میں ان چیزوں کو اس لئے محفوظ کیاتاکہ انسان اس کے ذریعہ سے دنیوی واخروی زندگی کی ضروریات کو پوری کر سکے ،اور یقیناً تنہا قرآن ہی انسان کی تمام تر مادی ومعنوی تقاضوں کا حل پیش کر نے کیلئے کافی ہے
لیکن ایک سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کو سمجھنے کیلئے ،قرآن مجید کی آیتوں سے پوری طرح استفادہ کرنے کیلئے تنہا انسان کی عقل کافی ہے؟ یا انسان تنہااپنے وجود خاکی میں یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ قرآن کے وسیع و عریض دامن سے اپنی ہر طرح کی ضروریات زندگی کا حل نکال سکے ؟نہیں قطعی نہیں …بلکہ آیات قرآن کی گیرائی و گہرائی کے طویل ترین سفر میں ضروری ہے کہ وہ ولایت اہل بیت کی کشتی میں سوار ہو کر اپنی زندگی کو منزل کمال تک پہنچانے کیلئے ان کے احکام وفرامین کو وسیلہ بنائے جنھیں اہلبیت نے تفسیر قرآن کی حیثیت سے بیان فرمایا ہے
کیوں؟ اس لئے کہ اہلبیت اطہار ہی معانی ومفاہیم قرآن کے حقیقی معلم ہیں۔ مجمل آیتوں کے مبیِّن ہیں ،بطون اور متون آیات میں کیا پوشیدہ ہے اس کی وضاحت کرنے والے ہیں۔بقول صاحب علم لدنی۔قرآن کا باطن بہت عمیق ہے ،ہر آیت کے ستّر ستّر ابعاد ہیں لہٰذا مفاہیم کا ادراک عقل بشر سے ممکن نہیں۔قرآن کتاب صامت ہے اس کی صامت آیتوں سے استفادہ کرنے کیلئے قرآن ناطق کاوسیلہ درکار ہے جب اہلبیت ہمراہ ہونگے تب جا کر قرآن کا معنوی سفر فہم وادراک کی رو سے طے ہوگا
مولائے متقیان نے سیر قرآن میں اپنی حیثیت کو یوں واضح کیا ہے : و ذالک القرآن فا ستنطقوہ ولن ینطق ولٰکن اخبرکم عنہ الاّانّ فیہ علم مایاتی والحدیث عن المعا صی ودواء دائکم ونظم مابینکم ” اور یہ وہ قرآن ہے اس سے پوچھو۔ لیکن یہ بولے گا نہیں، البتہ میں تمہیں اس کے بارے میں خبر دیتا ہوں کہ اس میں آئندہ کے معلومات ،گذشتہ واقعات اور تمہاری بیماریوں کا چارہ اور تمہارے باہمی تعلقات کا نظم و نسق ہے "۔(٢٢)
مقصد یہ ہے کہ قرآن یقینا جامع اور تا قیام قیامت باقی رہنے والی کتاب ہے لیکن اگر کوئی اس صامت کتاب پر تکیہ کرتے ہوئے یہ خیال کرے کہ زندگی کے رموز و اسرار اور ضروریات حیات اس کی آیتوں سے اخذکرنا ممکن ہے تو یہ اس کے فہم کی کوتاہی اور خام خیالی ہے ۔عقل کامل مولائے کائنات علی بن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قرآن میں یقیناً سب کچھ ہے مگر اس کی گہرائی تک پہنچنے کیلئے اور اس کے مطالب سے استفادہ کر نے کیلئے ،ہم اہل بیت کا سہارا لینا ضروری ہے
ایک دوسری جگہ پر مولائے کائنا ت نے قرآن کے روحانی سفر کو اہبیت کے ساتھ طے کرنے کی تاکیدفر مائی ہے ،ارشاد فرمایا: فانزلوھم باحسن منازل القرآن "یعنی قرآن مجید کے منازل ومراحل کو اہلبیت کے ہمراہ طے کرو "۔(٢٣)
چونکہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس میں انتہائی گہرائی اور ہزارہا بطون ہیں ان گیرائی وگہرائی میں ڈوب کر اگر انسان اس کے مفاہیم ومطالب کو تنہا عقل کے ذریعہ درک کر نے کی کو شش کریگا تو ہلاکتوں میں پڑنے کا خطرہ ہے… یہ سچ ہے کہ خدا ئے لا شریک نے انسا نوں کو عقل جیسی عظیم ترین نعمت سے سرفراز فرما یا ہے کہ انسان اپنے سفر حیات میں صحیح راہ کا تعیّن اسی عقل سے کرے اور زندگی کے راستوں کی مشکلات کا حل اور مصائب و آلام کا علاج اسی عقل کو قرار دے …لیکن اگر انسانی حیات میں صحیح راہ کا تعیّن تنہا عقل کے ذریعہ ممکن ہوتا تو خدا ئے متعال انبیاء ومرسلین کو کیوں ارسال فرماتا ؟انسان اپنی زندگی کی مشکل راہوں میں خاصان خداکی رہنمائی کا محتاج ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا تو صرا ط حق سے منحرف ہونے کے خطرات بدرجہ اتم موجود تھے ۔
قرآن کے اس روحانی سفر میں بھی تنہا انسان کی ما دی عقل کافی نہیں ہے اس لئے کہ اس کے بطن میں انتہائی گہرائی ہے اگر انسان تنہا عقل کے ذریعہ فہم مطالب کی کوشش کرے تو ہلاکتو ں میں پڑنے کا خطرہ ہے اسی لئے علّام الغیوب خدا نے اس کمزور و نا توا ں انسان کی محدود عقل کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے قرآن کے ہمراہ مفسرین قرآن کو بھی اہلبیت رسول کی صورت میں ارسال فرما یا تاکہ ہلاکت وگمراہی اور انحراف کی ہلکی سی بھی گنجائش باقی نہ رہے
رسول اسلام نے بھی وقت و حالات کے اہم ترین تقاضوں اور ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہو ئے کئی مقاما ت پر قرآن واہلبیت کا ارتباط پیش کیااور ان دونوں کو لازم وملزوم قرار دیتے ہو ئے دونوں سے تمسک اختیار کر نے کا حکم دیا ہے( انی تارک فیکم الثقلین …)۔
اب اگر اس شدید ترین حکم کے با وجود بھی جن لوگوں نے فقط قرآن کو کافی سمجھا وہ ضلالت و گمراہی نیز انحراف کی اتنی گہری کھائی میں گر پڑے کہ جہاں سے نکل کر شاہراہ ہدایت تک پہنچنا تقریباً ان کے لئے ناممکن سا ہو گیا اور اس بیہو دہ و گمراہ آفریں جملہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک امت مسلمہ اختلاف و نا اتفاقی کے دلدل سے باہر نہیں نکل سکی اور وہ قرآن جو اتحاد اوریکجہتی کے لئے واعتصموا بحبل اللہ کا نسخہ لے کر آیا تھا وہ امّت کی نا دانی کے سبب خود ہی وجہ اختلاف بن گیا ۔اور رسول کی امّت قرآن کے ہوتے ہوئے اختلاف کے مرض میں گرفتار ہو گئی اور لگتا ہے طبیب امت حضرت حجّت کے ظہور سے پہلے اس کا علاج ممکن نہیں ہے ۔
انسان کیلئے ضروری ہے کہ عقل کے ساتھ ساتھ ہدایت اہلبیت کا نور بھی اپنے ہمراہ رکھے تاکہ مراحل قرآن کے دقیق سفر میں آسانیاں فراہم ہوں اور معانی و مطالب کے وہ درّ نایاب دستیاب ہوں جو ہماری حیات کو خوشگوار اور لطیف بنا سکیں ۔

حوالہ جات
(١)خطبہ ١٩٦
(٢)خطبہ ١٣١
(٣)خطبہ ١٧٤
(٤)خطبہ ١٧٤
(٥)خطبہ ١٨١
(٦)خطبہ ١٧٤
(٧)انعام آیت 59
(٨)خطبہ ١
(٩)کلمات قصار ٣١٣
(١٠)خطبہ ١٨
(١١)سرچشمہ سار نہج البلاغہ ص٢٢٢
(١٢)خطبہ١٠٨
(١٣)نساء آیت ٨٢، محمدآیت ٢٤
(١٤)خطبہ ١٩٦
(١٥)اسراء ٨٢
(١٦)خطبہ ١٧٤
(١٧)خطبہ ١٩٦
(١٨)خطبہ ١٩١
(١٩)خطبہ١٩١
(٢٠)انعام آیت٣٨
(٢١)نحل آیت٨٩
(٢٢)خطبہ١٥٦
(٢٣)خطبہ٨٥

Related Articles

Back to top button