دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

عاشور کے پیغامات

(سید محمد ظہیرزیدی)

قیام حسینی، دوشاہزادوں، دوگروہوںیا دو قبیلوں کے درمیان چندروزہ جنگ کا نام نہیں، یہ ایک محدود انقلاب نہیں تھا،بلکہ اس عظیم تحریک کے پس منظرمیں با عظمت پیغاموں کی ایک طولانی فہرست ہے جسے حسین بن علی بن ابی طالب علیہم السلام نے اپنے اعزااوراصحاب کے ہمراہ تپتے صحرا میں بھوکے پیاسے رہ کرہرزمانے اور ہر مقام پر بشریت کی نجات اورآزادی کی خاطر دنیاکے ہر آزادی اندیش کے نام بھیجا ہے ۔
بظاہر تو امام حسین علیہ السلام اپنے تمام اصحاب وانصارکے ہمراہ ایک دوپہر میں نہایت ہی بے دردی اوربے رحمی سے ایک بے آب گیاہ تپتے میدان میں بھوکے ، پیاسے قتل کردئیے گئے اوردوسروں کوسبق سکھانے کی غرض سے ظالموںنے ان کے اہل حرم کوبے حدذلت آمیز اندازمیںاسیر کرکے دیاربہ دیارپھرایا، ان کی تشہیرکرائی اورانہیں باغی ،طاغی اورخارجی جیسے نازیبا الفاظ سے نوازا،گویاظلم نے اپنی طرف سے حتی المقدورکوئی کسرنہ چھوڑی اورچہرۂ حق کو تارتارکرنے کے لئے کسی بھی حربہ کے استعمال سے گریزنہ کیااوراپنے زعم خبیث و پلید وناقص میں خودکوفاتخ میدان بھی سمجھنے لگا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتاگیا، ظلم کے چہرے سے نقاب اٹھتی گئی، حقیقت عیاں اورروشن ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ نوبت بھی آگئی کہ جن پربادشاہ وقت کے خلاف علم بغاوت بلندکرنے کی مہر لگائی جارہی تھی یکایک بھرے دربارمیں ایک آوازگونجی ”اناابن الحسین القتیل بکربلاء ،اناابن علی المرتضی،اناابن محمد المصطفی، اناابن خدیجة الکبری ، اناابن فاطمة الزھراء ،اناابن سدرة المنتھی، اناابن شجرة طوبی،انا بن المرمل بالدمائ،انا ابن من بکی علیہ الجن فی الظماء ، اناابن من ناح علیہ الطیور فی الھواء …۔(١)
میں حسین مقتول کربلاکابیٹاہوں،میں علی مرتضی کافرزند ہوں،میں محمد مصطفی کابیٹا ہوں،میں خدیجہ کبریٰ کالعل ہوں،میں فاطمہ زہراکانورنظر ہوں، میںسدرة المنتہی کا بیٹاہوں ،میں شجرہ طوبی کاثمرہوں ،میں اس کابیٹاہوں جوخون میں غلطاں زمین گرم پر پڑارہا، میں اس کے دل کاچین ہوں جس پر فضامیں جنوںنے آنسو بہائے،میں اس کالعل ہوں جس پرآسمان کے پروندوں نے بھی نوحہ کیا ….. ۔
ابھی بات یہاں تک ہی پہنچی تھی کہ باطل کاسارابھرم ٹوٹ گیا ،سارے حربہ بے کار ہوگئے ،حقیقت عیاں ہوگئی ، خیالی محل چکنا چور ہوگیا،اوردیکھتے ہی دیکھتے سارا ماحول تبدیل ہوگیا،جوابھی تک ہنس رہے تھے ، تالیاں بجارہے تھے، قہقہے لگارہے تھے یکایک ان پربجلی سی گرگئی، دلوں پرسکتہ طاری ہوگیا،آنکھیں شرم سے جھگ گئیں ، لبوں پر کپکپی آگئی،گویاایک لمحے میںپوراوجود انسانی لرزکررہ گیاکہ ہم توانھیں باغی ،طاغی سمجھ رہے تھے ،ہمیں تویہ بتایاگیاتھاکہ انہوں نے بادشاہ وقت کے خلاف خروج کیاہے لیکن یہ توشجرہ طیبہ کے ثمرہیں ،یہ توصداقت کاجوہرہیں، یہ توطہارت کا مظہرہیں،یہ تو عصمت کاپیکر ہیں ۔نتیجہ یہ ہواکہ پورے دربار میں جو خوشی کاماحول تھاوہ عزامیں بدل گیاچاروں طرف سے رونے کی آوازیں آنے لگیں، نالہ وشیون کی فریادیں بلند ہونے لگیں ،بدلتا ماحول خطرہ کی تلواربن کر امیرشام کے سرپرلٹکنے لگاتواس بدسرشت کے سامنے اس کے سواکوئی اورچارہ نہ رہا کہ اس حقیقت پرمبنی آوازکوقطع کردے لیکن بدنسل نے جوطریقہ اپنایاوہ بھی اس کی کوئی مددنہ کرسکابلکہ بیعت کے تابوت پرآخری کیل بن کرظاہرہواکہ جیسے ہی مؤذن نے اذان شروع کی سیدسجاد علیہ السلام خاموش ہوگئے کہ یہ بدبخت توخود ہی اپنی شکست قبول کررہاہے ورنہ کل تک تو ”لعبت ھاشم بالملک فلاخبرجاء ولاوحی نزل ۔ ”نہ کوئی خبرآئی اورنہ کوئی وحی نازل ہوئی بلکہ یہ بنی ہاشم کاڈھونگ ہے جوانہوں نے سجارکھاہے ،کے نعرے بلندہو رہے تھے لیکن آج وحدانیت خداکا اعلان کیا جارہاہے لیکن جیسے ہی مؤذن کی زبان پر ”اشھدانّ محمداًرسول اللّہ ” آیاامام نے اپنے سرسے عمامہ کواتارکر مؤذن سے کہا:تجھے اسی محمد کاواسطہ جس کی تورسالت کی گواہی دے رہاہے کچھ دیرکیلئے خاموش ہوجا پھریزیدکی طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا: ”یایزید! ھذاالرسول الکریم جدّک ام جدّی؟ اے یزید!یہ رسول مکرم تیرے جدہیں یامیرے ؟ پھر فرمایا:”ان قلتَ انّہ جدّک، یعلم العالمون انّک کاذب، وان قلت انّہ جدّی فلماقتلتَ ابی ظلماً،وانتھبت مالہ وسببت نسائہ ۔’ ‘ (٢)
اگرتویہ کہے کہ یہ تیرے جدہیں تودنیا جانتی ہے کہ تواپنے قول میں جھوٹاہے اوراگر یہ کہے کہ یہ میرے جدہیں توپھر تونے میرے باپ کواتنی بے رحمی سے کیوںقتل کردیا، ان کے اموال کوکیوںتاراج کردیا اوران کے اہل حرم کو اسیربنا کے دیاربہ دیار کیوں پھرایا؟
اس بیمار قیدی نے ظلم وبربریت کو بھرے دربارمیں ایسا للکارااوراس کے چہرے پرپڑی خلافت کی نقاب کواس اندازسے کھینچاکہ اپنے ہی گھرمیں چہرہ چھپانے کی جگہ تک نہ ملی ،ہوش اڑگئے ،حواس باختہ ہوگئے ،زبان گنگ ہوگئی اوراس ایک سوال کاکسی سے کوئی جواب نہ بن پڑانتیجہ یہ ہوا کہ انسانی قالب میں شیطانوں کی نمائندگی کرنے والوں اور اس خلیفہ کی معیت میںہر روز نمازیں اداکرنے والوںنے اس بیچارے کو اس لائق بھی نہیں سمجھاکہ آج اس کے پیچھے نماز پڑھ سکیں کچھ رکے اورکچھ ایسے ہی واپس چلے گئے ۔
کربلاوالوں کے پیغامات مندرجہ ذیل ہیں :

١۔امربالمعروف ونہی عن المنکرکا قیام
امربالمعروف ونہی عن المنکرایک ایسا مقدس امرہے جس پرتمام معصومین علیہم السلام نے ہمیشہ تاکیدکی ہے اوراپنے قول وفعل میں اس امرکوخاص اہمیت دی ہے ۔
شہدائے کربلانے بھی اس اہم امرکی تاکید کی ہے اور اپنی زندگی کے لئے مشعل راہ قراردیایہاں تک کہ ان کی موت کا راز بھی اسی سے منسلک رہا۔
اگرہم مدینہ منورہ سے شروع ہوکر کربلائے معلی میں ختم ہونے والے اس سفرپرایک سرسری نگاہ ڈالیںتو بخوبی اس امرکا مشاہدہ کرسکتے ہیںکہ آنحضرت نے ہرمقام پر اس امرپر تاکیدکی ہے اورمدینہ منورہ میں اپنے بھائی جناب محمد حنفیہ کولکھے گئے خط میں نہایت ہی وضاحت سے اس امرکو بیان کردیا: ” انّماخرجتُ لطلب الاصلاح فی اُمّة جدی (ص)، اریدان آمربالمعروف وانھی عن المنکر”
میںاپنے جدکی امت کی اصلاح کی خاطر نکل رہاہوں،اور میرامقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرکوزندہ کرناہے ۔
مدینہ منورہ،مکہ مکرمہ اورکربلا تک کی راہ میں امام حسین علیہ السلام کے خطابات، اور حربن یزیدریاحی کی توبہ کوقبول کرکے انہیں مقام شہادت عطا کرنا؛اس کے علاوہ میدان کربلامیں بھی مسلسل فوج دشمن کووعظ و نصیحت کرنا اور انہیںعاقبت امرکی طرف متوجہ کرنا،امربالمعروف اورنہی عن المنکرکی تقدیس اور اس کی اہمیت کواجاگرکرتا ہے کہ جہاںبھی موقع ملاسیدالشہداء علیہ السلام نے دشمنوں کودین خداکی دعوت دی ،سیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کواپنی زندگی کا نمونہ عمل قرادیکراپنی زندگی کواس کے قالب میں ڈھالنے اوربدعتوں کے چنگل سے اپنے وجود کو نجات دے کرانسانیت سے متعلق خدائی اکرام وتکریم کوحفظ کرنے کی دعوت دیتے رہے ۔گویاحسین بن علی علیہما السلام ان کے لئے اپنی شفاعت کے مواقع فراہم کرتے رہے اور انہیں مسلسل اس امر کی طرف متوجہ کرتے رہے کہ ہم پرپانی بند کردیاتوبندکردیالیکن اپنے اوپر ہماری شفاعت کے دروازوںکوبندمت کرواور جس نے اس حَسین پیغام کودرک کرلیاوہ دنیا میں بھی حررہااورآخرت میں بھی، امام حسین اس کی تحریک کے ضامن بن گئے اورجو خواب غفلت میں پڑا رہا،دولت وتخت کے نشہ میں چوررہا اسے دنیامیں حکومت ری سے بھی محروم ہوناپڑھا اورآخرت میں شفاعت حسین سے بھی ہاتھ دھوناپڑا۔

٢۔عزت کوذلت پرترجیح
حسین ابن علی علیہ السلام ، ان کے اہلبیت اور انکے اصحاب، ساتھی، جانثار حتی حضرت کے قافلہ میں شامل چھوٹے چھوٹے بچے، سب کے سب جام شہادت نوش کرنے پر آمادہ تھے ،سب کچھ لٹادینے کوتیارتھے ،اہل حرم قیدی بننے ،اسیرہونے ،دربدری کے لئے حاضر، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی زیربارذلت،زندگی گزارنے اور رسوائی بھری حیات کوگلے لگانے پرراضی نہیں تھا۔ امام علیہ السلام کایہ جملہ ”الاواِنّ الدّعی بن الدّعی قدرکزبین السِلّةِ والذِلّةِ، و ھیھات مِنَّاالذِلَّةِ۔” (٣)
اس نطفۂ ناتحقیق ا بن نطفۂ ناتحقیق نے مجھے دوراہے پرلاکرکھڑا کردیاہے کہ یا ذلت کی زندگی اختیار کر وں یاپھرموت؛ تو میں ہرگزتن بہ ذلت نہیں دے سکتا۔
امام کا یہ جملہ حقیقت حال کابیان گرہے اوران کے عزائم کی من وعن عکاسی کررہا ہے۔
کیوںنہ ہوکہ جوخدائی منصب کا حامل ہو، جسے جنت کی سرداری حاصل ہو، جو طیب وطاہر نسلوں سے گذرتا ہوا پاک و پاکیزہ آغوش میں پروان چڑھاہو،جسے یہ افتخارحاصل ہوکہ دوش رسول اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سوار بن جائے ،جسے روزمحشرکے ہولناک موقع پرحق شفاعت حاصل ہووہ گندی نسلوں سے گذرنے والے، پلید گودیوں میں پلنے والے اورخبیث ذہنوں کی نمائندگی کرنے والے بدذات ، بدسرشت ، انسان نماشیطان کی بیعت کیسے کرسکتاہے اوریقیناجو اس مرتبہ پرفائزہو، جس کا قد اتنا اونچاہو ، جس کاوقاراتنابلندہو اسے زیب دیتا ہے کہ وہ شام کے حاکم غاصب یزید بن معاویہ ہی نہیں بلکہ قیامت تک جنم لینے والے اس کے جیسے یزیدوںاوریزیدی افکار کے نمائندوں کو چیلنچ کرے ”ھیھات منّاالذلّة۔”

٣۔درس آزادی
قیام حسین بن علی علیہ السلام نے ظلم کے خلاف صدائے حق بلندکرنے والوںکی جہاں حوصلہ افزائی فرمائی وہیں آزادی کا درس بھی پڑھایااورآزاد زندگی گذارنے کا سلیقہ بھی سکھایا۔
حسینی انقلاب نے ہرقوم وملت کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیاکہ اٹھو ،بیدارہواور غلامی کے قلادۂ ذلت کواپنی گردن سے نکال پھینکو، ذلت آمیز زندگی کے حصارسے باہرآئواور آزادانہ زندگی سے لطف اندوزہو۔
اس واضح اورروشن پیغام کودرک کرنے والوں نے اس قیام کو معیاربناکراپنی آزادی کیلئے جان کی بازی لگادی،خون دیا، جانیں دیں، لیکن عزم وارادہ میں کوئی لچک نہ آئی اور جب اسکتبارکے خونی پنجوں سے نجات ملی اوررہائی نصیب ہوئی تواپنے انقلابات کی کامیابی وکامرانی کواسی مقدس انقلاب کی دین بتایا،اسی سے منسلک کیایقینا اس نوعیت کے قیاموں ،تحریکوں اور انقلابوں کا مقدردوام وبقا ہے ۔
اسی کے برعکس جنہوںنے عاشوراکے اس پیغام کو نظراندازکردیاآج اکیسویں صدی میں جب کہ دنیاکی متعدد قومیں اپنی آزادی پرفخرومباہات کرتی ہیں ،جشن مناتی ہیں لیکن غلامی کاطوق آج بھی کچھ اس طرح سے ان کی گردن کی زینت بناہواہے کہ اس سے رہائی ممکن نہیں ہے ؛ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس پہننے کے لئے اچھے اچھے کپڑے موجودہیں، کھانے کے لئے اچھی اچھی غذائیں حاضر ہیں ، سفرکے لئے مہنگی سے مہنگی سواریاں فراہم ہیں ،رہنے کے لئے اچھے اچھے مکان اوربڑے بڑے قصر حاضر ہیں لیکن حقیقت کچھ یوں ہے کہ ان کاضمیرمردہ ہوچکاہے عزم کھوکھلاہے، ارادوں میں ثبات نامی کوئی چیز نہیں، ایسے لوگ بظاہر ایک صاحب حیثیت انسان کی مانند زندگی گذارتے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ بے بسی ان کا مقدر بن چکی ہے ، بے چارگی ان کی زندگی کااٹوٹ حصہ ہوچکی ہے یادوسرے لفظوں میںیوں تعبیرکیاجاسکتاہے کہ ایسے لوگ اس مردہ کے مانندہیں جوغسال کے قبضہ میں ہوتاہے کہ وہ جیسے چاہے غسل دے، یہ بے چارہ ایک آہ بھی نہیں کرسکتا استکبارکے خونی پنجوں میں پھنس جانے والوں کا حال بھی کچھ ایساہی ہوتاہے کہ زندگی کے مختلف مراحل میں سخت فیصلے لینے پڑتے ہیں لیکن اپنی مرضی سے نہیں، ناگواری سامنے آتی ہے لیکن برداشت کرنا پڑتاہے کیوںکہ انکارکی جرأت نہیں ہوتی، دل پر چوٹ لگتی ہے لیکن اظہارکاحق حاصل نہیں ہوتا۔
امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے ذریعہ دنیا والوں کوآزادی کادرس کچھ اس اندازمیںپڑھادیاکہ جوکبھی بھی صفحات ذہن سے مٹنے والانہیں ہے یہاںتک کہ امام علیہ السلام نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے امویوں کومخاطب کرکے فرمایا: ”ویلکم یاشیعة آل ابی سفیان ان لم یکن لکم دین ،ولاتخافون المعاد، فکونوااحراراًفی دنیاکم ۔” (٤)
اے پیروان آل ابی سفیان! اگرتم دیندار نہیں بن سکتے اورقیامت پرایمان نہیں لاسکتے توکم ازکم اپنی دنیامیں تو آزادرہو!۔
امام علیہ السلام کایہ جملہ بتاتاہے کہ آزاد زندگی گذارنے کاحق سب کوحاصل ہے مگر سلیقہ چاہیے ۔

٤۔ طاغوت کی ذلت
حسین بن علی اوران کے اصحاب باوفا نے اپنے قیام اورنسلوںمیں جاری وساری رہنے والے انقلاب کے ذریعہ طاغوت اور طاغوتی افکار کوایسارسواکیاکہ کسی بھی شریف نسب دل میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں چھوڑی، پاک دل انصاف پسندزبان اور عدل و عدالت کی رعایت کرنے و الے قلموں نے اس سے اظہاربیزاری کرڈالا۔
جہاں حسین بن علی علیہما السلام نے طاغوت اورطاغوتی افکارکے حامل افراد کو رسوائی کے جہنم میں جھونک دیاوہیں قیامت تک آنے والے انصاف پسند،آزادفکر رکھنے والے، باایمان، باتقوی، مخلص اور چاہنے والوں کیلئے ظلم وبربریت سے اظہار برائت اور مقابلہ کرنے کاطریقہ بھی بتاگئے کہ یاد رکھو کہ اخلاص اور غیب پر ایمان، افرادکی کمی اور اسلحوں کی بھرپائی بھی کرسکتاہے اور کامیابی کاضامن بھی بن سکتاہے ۔
اس کاآشکارنمونہ چندمخلص، باایمان اور لباس تقوی زیب تن کئے ہوئے حزب اللہی جوانوں نے دنیا والوں کے سامنے پیش کردیااوراسرائیل کی مسلح فوج کوخاک چٹا کے ثابت کردیاکہ کربلا والوں کا بتایا ہوا نسخہ کسی خاص زمانہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ آج بھی اس میں و ہی تاثیرباقی ہے جو کل کربلاکے میدان میں تھی لیکن خلوص اور خدا پر اعتماد شرط ہے کہ واقعاً اگریہ عنصرانسان کے شامل حال ہوجائے تو (نصرمنَ اللَّہِ وفَتح قَرِیب )(٥)
انسان کامقدربن جایاکرتی ہے اور دشمن دین کو کہیں بھی پسپاکیا جاسکتاہے ۔

٥۔ تلواروں پر خون کامیابی
نہضت عاشورا نے دنیا والوں کے سامنے کھلااعلان کردیاکہ جب بات حق و حقانیت پر آجائے تویقیناسرخی خون فاتح میدان ہواکرتی ہے ،اسلحوں کی بھرماری ، جنگی سازو سامان کی کثرت اورسیاہی لشکر ہمیشہ کامرانی کانغمہ نہیں پڑھاکرتے بلکہ ایمان میں رسوخ وخلوص، عقیدہ میں استحکام و انسجام ،حقانیت پراعتماد، کامیابی کاضامن بن کر سامنے آتے ہیں۔
چونکہ حق کو ہمیشہ باطل پرغلبہ حاصل رہا لہذا حقانیت کی راہ میں اخلاص، ہرمحاذپر ثبات قدمی کا وسیلہ بنتا نظر آتا ہے اور حضرت حق جل جلالہ کی مرضی کاحصول انسان کومیدان جنگ میں دشمن کے مقابل، سیسہ پلائی دیواربنادیتاہے ۔
امام حسین علیہ السلام کے باوفا ساتھیوں نے دکھادیاکہ اگر ایمان استوار اور ارادہ محکم ہوتومیدان جنگ میں پائے ثبات میں لغزش پیدانہیں ہوتی چاہے وہ اسّی سال کا بوڑھا ہویاتیرہ سال کانوجوان۔
جب اپنی حقانیت کایقین ہوتوشہادت کی راہ میں نہ خوبصورتی وجوانی حائل ہوسکتی ہے ،نہ ہی بچپن۔
خدائی امانت کاپاس ولحاظ اوراس کے تحفظ کاخیال ہوتو سارے لشکرکاقتل ہوجانا بھی آہنی ارادوں میں رخنہ نہیں ڈال سکتا۔
بظاہرتوحسین ابن علی مع اصحاب کے قتل کردئیے گئے ان کے اہل حرم قیدی بن گئے لیکن درواقع کامیابی ان کے قدم چومنے لگی کامرانی ان کامقدربن گئی نتیجہ یہ ہواکہ حادثہ کربلا کے بعدابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گذراتھاکہ الٹی گنتی شروع ہوگئی ،مظلوموں کے خون نے ظالموں کی تقدیرمیں رسوائی کی ایسی عبارت تحریرکردی جوقیامت تک مٹنے والی نہیں ہے اور بدنسب انسانی شکلوں کے علاوہ ہرانسان بخوبی اس کامطالعہ کرسکتاہے ۔

٦۔اطاعت معصوم
(یَاأیُّھَاالّذِینَ آمَنُواأطِیعُوااللَّہَ وَأطِیعُواالرَّسُولَ وَاُولی الأَمرِمِنکُم )(٦)
اللہ کی اطاعت کرو،اس کے رسول کی اطاعت کرو، اورتم میں جوصاحبان امر ہیں، ان کی اطاعت کرو۔
اس قرآنی حکم پرعمل پیراہوکراطاعت معصوم کی جومثال کربلاوالوں نے قائم کردی دنیااس کی نظیرلانے سے قاصرہے ۔
بھلابتائیے کہیں اورتاریخ کے صفحا ت پرایساواقعہ مرقوم مل سکتاہے کہ جہاں چاروں طرف سے دشمنوں کے حصار کے بعد بھی سپہ سالارلشکراپنے سپاہیوںسے کہے کہ جائو تم لوگ یہاں سے چلے جائو ،دن میں جاتے ہوئے گھبرارہے ہوتو رات کے سناٹے میں چلے جائو،اپنی جنت کے لئے بھی فکر مندمت ہو میں اس کاضامن بھی ہوں،اپنی بیعت تمہاری گردنوں سے اٹھائے لیتاہوں ؛ جائو تمہاری جانیں سلامت رہیں گی، تمہاری آبرئوں پرکوئی حرف نہیں آئے گا،تمہارے کنبے محفوظ اورقبیلے آبادرہیںگے۔
جائواپنے اہل وعیال کے درمیان سکون کی زندگی گذار و کہ ہمیں پاکردشمن تم سے تعارض نہیں کرے گا ۔
ذرااس انسان کاکریمانہ رویہ دیکھئے اورپھر ادھرکاردعمل؛ مولاہم کیوں واپس چلے جائیں صرف اس لئے کہ ہماری جانیں سلامت رہیں، ہم آپ کے بعدزندہ رہ سکیں؟ توایسی زندگی اورسلامتی کودور سے سلام جوفرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ کی جان کی حفاظت نہ کرسکے اورانہیں موت کے دریا میں ڈال دے ۔
کیاہم اس لئے واپس چلے جائیں کہ ہمارے گھروں میں خوشیاں منائی جائیں؟ اور علی کے نورنظرکے خیموں سے گریہ وزاری اور العطش کی صدائیں آتی رہیں! ۔
کیاہم اس لئے لوٹ جائیں کہ ہمارے گھرکی عورتوں کے سروںپربیوگی کی چادر نہ پڑنے پائے ؟چاہے عصمت وطہارت ونجابت کے پیکرننگے سرپھرائی جائیں ۔
کیاہم اس لئے واپس چلے جائیں کہ ہماری ناموس گھروں میں محفوظ رہیں؟ چاہے زہرا کی بیٹیاں دیاربہ دیار پھرائی جائیں ، بھرے دربارمیں تماشہ بن کررہ جائیں!۔
اگرزندگی، سکون، عزت، جاہ و جلال ایسی ہی چیزوں سے وابستہ ہے اوران کی قیمت خاندان آل محمدۖ کے کنبہ کی تاراجی، آل عباکی بے حرمتی کی صورت میں ہے توایسی بے ہدف زندگی کو خدا حافظ ۔
بتائیے جب ایمان اتناراسخ ہو،فکریں ایسی ہوں، سوچنے کا معیار اتنا بلند ہو، جواب کااندازاس شان کاہو، اتنے مضبوط ارادوں کے ساتھ ،ولولۂ عشق سے سرشار ،جذبہ فدا کاری سے پُرحوصلوں کی معیت میں انسان جب میدان کارزارمیں قدم رکھتاہے تواس کے مقابلہ پرتیس ہزارنہیں بلکہ اگرتین لاکھ کاشکربھی ہوتوقدموںمیںجنبش نہیں آسکتی کیوںکہ وہ مجاہدفی سبیل اللہ ہوتاہے؛سیاہی لشکرحوصلوں پراثراندازنہیںہوسکتی کیوںکہ اسے حق وحقانیت کاپورایقین ہوتاہے؛ ایسے مجاہدوں کوضعف جسمانی پریشان نہیں کرسکتا ، بھوک وپیاس میدان سے فرارپر مجبور نہیںکرسکتی کہ ولایت کی معنوی غذائیں انہیں سیراب کیاکرتی ہیں۔
ایسے مجاہدفی سبیل اللہ کاحق بنتاہے کہ جب زندہ رہیں تومعصوم زبان ان کی مدح سرائی کرتے ہوئے فرمائے : ” انی لااعلم اصحاباًاوفاولاخیراًمن اصحابی ”۔ میںنے اپنے اصحاب سے بہتراورباوفااصحاب نہیں دیکھے۔(٧ )
اورجب جام شہادت نوش فرماکر درجۂ شہادت پرفائزہوجائیںتومعصوم زبان پر جاری ہوا: ” السلام علیکم یاانصار دین اللّہ ،السلام علیکم یاانصاررسول اللّہ ،السلام علیکم یاانصار میرالمومنین ،السلام علیکم یاانصارفاطمہ الزھراء ،السلام علیکم یاانصارابی محمدٍالحسن…..(٨)
اے شہیدان باوفا ! تم نے اپنے عقیدوں کے سہارے صفحات تاریخ پر نصرت کے ایسے قواعد رقم کردیئے کہ اب تم صرف حسین ابن علی اوران کے اہل حرم کے یارومددگار نہیں رہے بلکہ تم اب انصاردین اللہ بھی ہوانصار رسول اللہ بھی، امیرالمومنین کے بھی حامی و ناصرہوفاطمہ زہرا کے بھی ،اور تم نے حسنین کی آوازپربھی لبیک کہی۔
ان کے علاوہ انقلاب کربلا کے پیغامات و اہداف کی ایک طولانی فہرست موجودہے لیکن یہاںان سب کے ذکر کا مقام نہیں مطالعہ کے لئے واقعہ کربلا سے متعلق تفصیلی کتابوں کی طرف رجوع کیاجاسکتاہے۔

منابع و مآخذ
١۔ دربار شام میں امام سجادعلیہ السلام کے خطبہ سے ماخوذ۔
٢۔دربار شام میں امام سجادعلیہ السلام کے خطبہ سے ماخوذ۔
٣۔مقتل خوارزمی ؛ ج١،ص١٨٨
٤۔قطرہ ٔاشک؛ ص٦٢
٥۔صف؛١٣
٦۔نساء :٩٥
٧۔ارشادمفید؛ج٢،ص٩١
٨۔زیارت وارثہ سے ماخوذ

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button