دانشکدہمقالاتکربلا شناسی

شہادت حسین (ع)، عزم و استقلال کی روشن مثال

( محمد رمضان توقیر )

نواسہ رسول (ص) سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے جب مدینہ منورہ سے کربلائے معلیٰ کی سمت شہادت کے سفر کا آغاز فرمایا تو اپنے اہل بیت و انصار کے ساتھ گفتگو میں اور امت مسلمہ کے دیگر مسلمانوں اور پیغمبر اکرم (ص) کے اصحاب کے سامنے خطبات دیتے ہوئے جس موقف کا اعلان و اظہار فرمایا اس میں واضح کیا کہ میں کسی ذاتی، گروہی، خاندانی، سیاسی یا مادی غرض و غایت کو مدنظر رکھ کر شہادت کا سفر اختیار نہیں کر رہا بلکہ میرے پیش نظر بقائے دین، تحفظ شریعت، محافظت قرآن اور مسلمانوں کی ابدی و اُخروی نجات کا حصول ہے۔ لہٰذا ہر کسی پر واضح ہونا چاہیئے کہ میرا مطمع نظر اقتدار کا حصول نہیں بلکہ امت مسلمہ کو ایسے حکمرانوں سے نجات دلانا ہے جو نہ صرف ہوس پرست اور اقتدار پرست ہیں بلکہ دین الہیٰ اور شریعت محمدی (ص) میں تبدیلی کرنے والے ہیں۔ جنہوں نے دین کو مذاق بنایا ہوا ہے اور امت مسلمہ کو اپنی جاگیر سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو مسلط رکھنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں۔ لہذا ایسے حکمرانوں کے خلاف قیام کرنا اور ان کے خلاف صف آراء ہونا نواسہ رسول (ص) ہونے کے ناطے میرا اولین فریضہ ہے۔

ظاہر ہے ایسے عظیم فریضے کی ادائیگی کے لیے کہسار جیسا عزم درکار ہوتا ہے اور اس عزم پر ڈٹ جانے کا حوصلہ بدرجہ اتم چاہیئے ہوتا ہے جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حسین (ع) کے زمانے میں حسین (ع) سے بڑھ کر باعزم و باحوصلہ انسان سرزمین خدا پر موجود ہی نہ تھا۔ انہوں نے جس عزم کے ساتھ ظلم اور ظالم کے خلاف قیام فرمایا اس عزم کی مثال نہیں ملتی۔ حسین (ع) کا عزم اللہ کے دین کو محفوظ رکھنے کے لیے تھا۔ حسین (ع) کا عزم قرآن کی بالادستی قائم کرنے کے لیے تھا۔ حسین (ع) کا عزم شریعت محمدی (ص) کے نفاذ کا عزم تھا۔ حسین (ع) کا عزم انسانیت کی بقاء کا عزم تھا۔ حسین (ع) کا عزم مظلوم کی حمایت کا عزم تھا۔ حسین (ع) کا عزم ظالم کی مذمت کا عزم تھا۔ حسین (ع) کا عزم شہادت کی اعلیٰ مثالیں قائم کرنے کا عزم تھا۔

حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ مدینة الرسول (ص) چھوڑ دوں گا لیکن رسول (ص) کی امت کو بچاوں گا۔ حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ احرام حج توڑ دوں گا لیکن حرمت کعبہ کو بچاوں گا۔ حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ خاندان کو تہہ تیغ کرا لوں گا لیکن امت مسلمہ کو محفوظ رکھنے سے دریغ نہیں کروں گا۔ حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ حکمرانوں کے سامنے ہر قسم کی مزاحمت کروں گا۔ لیکن ایک قدم پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ اپنے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کروا دوں گا لیکن نانا کی امت کے اندر انتشار پیدا نہیں ہونے دوں گا۔ حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ مخدرات عصمت کے پردوں کی قربانی دے دوں گا لیکن نسوانیت کو ہمیشہ کے لیے باپردہ بنا جائوں گا۔ حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ اپنے خانوادے کو پابند سلاسل کرا دوں گا لیکن دین خدا اور شریعت پیغمبر (ص) کو بےدین حکمرانوں کے ہاتھوں کسی صورت قید نہیں ہونے دوں گا۔ حسین (ع) نے عزم کیا تھا کہ اپنے آپ کو محصور کرا دوں گا لیکن امت کو دائمی آزادی دلا کر رہوں گا۔

مدینہ سے لے کر میدان کربلا تک یہ عزم پروان چڑھتا رہا اور امام عالی مقام (ع) نے اپنے خانوادے، آل، اصحاب اور انصار کو اس عزم میں شامل رکھا۔ خدا و رسول (ص) کے ساتھ گہری وابستگی کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس عزم کو اپنے خطبات، بیانات، فرمودات اور کردار سے جوان کرتے رہے تاکہ جب میدان کربلا میں روز عاشور استقلال کی منزل آئے تو کسی بھی ساتھی کے قدم ڈگمگا نہ پائیں۔ کسی صحابی کے حوصلے میں کمی نہ آئے۔ خاندان کا کوئی فرد فرط محبت کے ہاتھوں مغلوب نہ ہو جائے۔ کوئی سپاہی مدمقابل سرکاری افواج کے سامنے خوف و ملال کا شکار نہ ہو۔ کوئی ساتھی اپنے لشکر کی کمی اور کم نفری کے باعث اپنے آپ کو تنہا محسوس نہ کرے۔ حسین (ع) نے اس عزم کو استقلال میں بدلنے کے لیے جو سب سے بڑا اسلحہ استعمال کیا وہ شہادت کی آرزو تھی۔

نواسہ رسول (ص) کے روشن موقف اور حقائق پر مبنی خطبات نے کاروان حسینی کے ایک ایک فرد کے عزم کو چٹان بنادیا، جس کے نتیجے میں وہ آرزوئے شہادت میں اس قدر سبقت لے گئے کہ ہر فرد چاہتا تھا کہ عزم کو استقلال میں بدل کر شہادت کا رتبہ سب سے پہلے اُسے ملے۔ شبِ عاشور سے لے کر عصر عاشور تک حسین (ع) اور ان کے جانثاروں کے عزم کا امتحان تھا جبکہ شام غریباں سے لے کر مدینہ واپسی تک سیدہ زینب (س) اور ان کے ہمسفروں کے عزم کا امتحان تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حسین (ع) کا استقلال اور شہادت باقی رہ جانے والے نفوس کو ایسا عزم عطا کرگیا کہ اذیت ناک سفر، مسلسل قید و بند کی صعوبتوں، ظلم و تشدد کی انتہائوں اور بے پردگی کے باوجود ان کے پائے استقلال میں ذرہ برابر لغزش نہیں آئی بلکہ مکمل استقامت کے ساتھ مختصر قافلے کے باوجود حاکمان وقت و جابران عصر کے ناپاک عزائم کا پردہ چاک کرتے رہے۔

امام حسین (ع) کا عزم جتنا بلند و بالا اور عظیم تھا اتنا ہی آپ کا استقلال بھی اعلٰی و برتر نظر آیا۔ شب عاشور میدان کربلا میں انصاران حسین (ع) نے جس استقامت اور استقلال کا عزم کیا روز عاشور اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ شیر خوار علی اصغر (ع) سے لے کر ضعیف ترین حبیب ابن مظاہر تک جس شہید کی شہادت کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے کوئی بھی بے عزم و بے استقلال نظر نہیں آتا۔ یہ استقلال کی انتہاء ہے کہ ایک باپ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کے سینے میں برچھی لگتی دیکھ رہا ہے، لیکن اس کے استقلال میں کسی طرح کمی نہیں آئی۔ ایک بہن اپنے ایک نہیں دو دو بھائیوں کے لاشے گرتے ہوئے دیکھ رہی ہے، لیکن اس کے استقلال میں کمی نہیں آئی۔ ایک ماں اپنے نونہال کا لاشہ وصول کر رہی ہے لیکن اس کے استقلال کی منزلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اور سب سے زیادہ استقلال کا مظاہرہ امام عالیٰ مقام کی ذات اقدس نے فرمایا جس کے سامنے سارے کے سارے اقرباء، انصار اور اصحاب شہید ہوئے۔

جس کے سامنے عباس علمدار (ع) نے اپنے بازو کٹوا کر بےبسی اور وفاداری دونوں کا ثبوت پیش کیا۔ جس کے سامنے علی اکبر (ع) جیسے کڑیل جوان کے سینے میں نیزہ پیوست ہوا۔ جس کے سامنے قاسم ابن حسن (ع) جیسے خوبصورت پھول کو مسل دیا گیا۔ جس کے سامنے عون و محمد (ع) کے حسین چہروں کو دھڑ سے جدا کیا گیا۔ جس کے سامنے باوفا اصحاب پیغمبر کو قتل کیا گیا۔ جس کے سامنے اس کے پیارے ساتھیوں کو نیزوں سے چھلنی کردیا گیا۔ جس کے سامنے علی اصغر (ع) جیسے کمسن کے گلے کوسہ شاخہ تیر سے ترازو کیا گیا۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب حسین (ع) کے استقلال کی آخری منزل قریب آئی اور وہ میدان کربلا میں یکہ و تنہا رہ گئے۔ حسین (ع) کو ان کے عزم اور استقلال سے دور کرنے کے لیے یزید اور اس کے کارندوں نے کیا کیا حیلے نہ کئے؟ کیا کیا بہانے نہ بنائے؟ کیا کیا جواز نہیں تراشے؟ کیا کیا چالیں نہ چلیں؟ کیا کیا مکاریاں اور عیاریاں اختیار نہ کیں؟

مدینہ سے لے کر میدان کربلا میں امام حسین (ع) کے تنہا رہ جانے کے وقت تک ہر لمحے، ہر موڑ، ہر مرحلے پر یزید اور اس کے گماشتوں نے حسین (ع) کو متعدد بار بار پیشکش کی کہ اگر بیعت کرلیں یا ان کی مرضی کے فیصلے قبول کرلیں تو نہ صرف ان کی جان بخشی ہو سکتی ہے بلکہ انہیں اور ان کے آل و اصحاب کو مراعات بھی دی جا سکتی ہیں لیکن یزیدی حربے اور لالچ کسی بھی موڑ پر حسین (ع) کے عزم و استقلال کو ختم تو کیا ذرہ برابر بھی کم نہ کر سکے۔ وقت شہادت میدان کربلا میں بھی یزیدی فوج نے کوشش کی کہ اکیلے رہ جانے والے حسین (ع) کو موم کیا جائے اور اہل بیت رسول (ص) کی خواتین کی عصمت، بے پردگی اور قید کی دھمکی دے کر حسین (ع) کو جھکنے پر مجبور کیا جائے لیکن امام مظلوم نے کسی بھی حربے کو کامیاب نہیں ہونے دیا بلکہ سابقہ سے بھی زیادہ عزم کے ساتھ ڈٹے رہے اور منزل شہادت پر فائز ہو گئے۔ تاریخ انسانی میں حسین (ع) جیسے عزم و استقلال کی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی اور شاید تاقیام قیامت عزم استقلال کا یہ مظاہرہ چشم فلک دیکھ ہی نہ پائے۔ حسینی عزم کا ایک بڑا اور بیّن ثبوت ٦١ ہجری سے لے کر لمحہ موجود تک حریت اور شہادت پر مبنی تحریکیں ہیں جنہیں اگر عزم و استقلال کا عملی سبق ملتا ہے تو وہ صرف اور صرف حسین (ع) کی ذات سے۔

یہ سچ ہے کہ عزم و استقلال کے بغیر نہ کامیابی نصیب ہوتی ہے اور نہ شہادت۔ دنیا میں بہت ساری تحریکیں اور انقلاب محض اسی وجہ سے ناکام ہوئے ہیں کہ ان کے رہبران اور حامیان کے اندر عزم و استقلال کا شدید فقدان تھا۔ جذبات کی رو میں بہنے والے، ذاتی اغراض کا شکار لوگ، اقتدار کے حصول میں کوشاں طبقات اور زبردستی حاکمیت کی دھونس جمانے والے گروہ کبھی بھی پائیدار اور مستقل کامیابی حاصل نہیں کرسکتے لیکن صرف وہ لوگ، وہ گروہ، وہ طبقات اور وہ افراد جو عزم حسینی اور استقلال شبیری سے نہ صرف زبانی بلکہ عملی استفادہ لیتے ہیں۔ ہمارے معاشروں میں بھی یہی المیہ چارسو موجود ہے کہ ہم ہر بہتر اور نیک کام کے لیے عزم تو بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں لیکن اس عزم کو استقلال کا جامہ نہیں پہنا سکتے اور یوں ہمارا ہر عزم آغاز سے ہی محض دعویٰ ثابت ہو جاتا ہے۔ عزم کو استقلال کی منزل تک پہنچانے کے لیے ہر فرد کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر کردار حسینی اور تاریخ کربلا کا مطالعہ کرنا ہوگا اور پھر اس کے نفاذ کے لیے عملی کوششیں کرنا ہوں گی۔

Related Articles

Back to top button