اسلامی تعلیمات

باب 16 - قرآن مجید دعوت فکر

قرآن اور اسلام کی حقانیت اور سچائی پر دیگر ہزاروں دلیلوں کے علاوہ یہ بات بھی ایک واضح ثبوت ہے کہ قرآن مجید انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ اس عمل کو عبادت قرار دیا ہے اور ترک کرنے پر مذمت کرتا ہے اگر اسلام حق و حقیقت پر مبنی نہ ہوتا تو لوگوں کو تحقیق اور جستجو کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا۔ کم از کم اس عمل کی ترغیب تو نہ دیتا کیونکہ فکر و تعقل حقائق سے پردے اٹھا دیتا ہے اور ہر قسم کی غلط فہمیاں دور ہو جاتی ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:

قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ بَدَاَ الۡخَلۡقَ (سورہ عنکبوت، 20)

کہہ دیجیے کہ تم زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ خلقت کی ابتدا کیسے ہوئی۔

اس آیت مبارکہ میں اگر غور و فکر کریں تو معلوم ہو گا کہ تحقیق کا سائنسی طریقہ (Scientific Method) اصل میں قرآنی طریقہ تحقیق کا ہی نام ہے۔ مذکورہ آیت میں سیروا فی الارض دعوت مشاہدہ ہے اور قرآن انسان کو اس بات کی طرف دعوت دیتا ہے کہ زمین کی نشانیاں دیکھو۔ پس قرآن اور سائنس دونوں مشاہدے کو معارف انسانی کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح فانظروا کا مطلب یہ ہوا کہ مشاہدات و محسوسات کی بناء پر عقل کو یہ سمجھنے کا موقع فراہم ہو گا کہ اللہ نے مخلوق کو پہلی مرتبہ کیسے خلق فرمایا۔ بس اس آیت سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ قرآن اس طرح کے استدلال کو صحیح مانتا ہے جس میں محسوسات اور مشاہدات پر عقلی دلیل اور نتیجہ موجود ہو۔ کیونکہ صرف عقلی دلیل یا صرف مشاہدہ سے کسی مفہوم تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

اس آیت کے علاوہ قرآن مجید میں بہت ساری آیات ہیں جو انسان کو اللہ کی نشانیوں میں جستجو کرنے کی دعوت دیتی ہیں۔

نباتات میں تفکر و جستجو

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

پس انسان کو اپنے طعام کی طرف نظر کرنی چاہیے کہ ہم نے خوب پانی (بارش) برسایا پھر ہم نے زمین کو خوب شگافتہ کیا پھر ہم نے اس میں دانے اگائے نیز انگور، سبزیاں، زیتون، کھجوریں، گھنے باغات، میوے، چارے بھی جو تمہارے لیے اور تمہارے مویشیوں کے لیے سامان زیست ہیں۔ (سورہ عبس 24 تا 32)

ایک اور مقام پر فرماتا ہے:

اُنۡظُرُوۡۤا اِلٰی ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَ یَنۡعِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکُمۡ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ (سورہ انعام 99)

ذرا اس کے پھل کو جب وہ پھلتا ہے اور اس کے پکنے کو دیکھو، اہل ایمان کے لیے یقیناً ان میں نشانیاں ہیں۔

ان قرآنی آیات میں نباتات اور میوہ جات کے متعلق فکر و جستجو کے درج ذیل مراحل بیان ہوئے ہیں اور ان کے بارے میں مطالعہ کرنے کی دعوت دی گئی۔

1۔ آبیاری: یعنی سب سے پہلے زمین کو پانی دے کر فصل کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔

2۔ زمین کی شگافتگی: بیج بوئے جانے کے بعد زمین شگافتہ ہو کر پودے کو زمین سے باہر آنے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔

3۔پودے کی پرورش: کسان ایک مخصوص وقت تک پودے کی نگہداشت اور پرورش میں مصروف رہتا ہے۔

4۔ پھل کا آنا: بالآخر محنت کش کی محنت رنگ لاتی ہے اور پودے پر پھل آنے لگتا ہے۔

5۔ پھل کی تیاری: طویل محنت اور کوشش کے بعد پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے اور کسان کو اس کی محنت کا صلہ مل جاتا ہے۔

خداوند متعال نے ان تمام مراحل میں غور و فکر کی دعوت دی ہے کہ اگر خدا کی رحمت انسان کے شامل حال نہ ہوتی تو یہ سارے مراحل پایۂ تکمیل کو کبھی نہ پہنچتے۔

آسمانوں کے بارے میں غور و فکر

زمین میں اگنے والی کھیتی کے دلچسپ مراحل پر غور و فکر کی دعوت دینے کے بعد اللہ تعالیٰ انسان کو آسمانوں میں تفکر و تعقل کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔

اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ (سورہ اعراف، 185)

کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں، ان میں غور نہیں کیا ؟