اسلامی تعلیمات

باب 15 - بخل و اسراف

شریعت مقدسہ اسلام انسان کی ہر قدم پر ہدایت و راہنمائی کرتی ہے اور اسے ہر شعبہ حیات میں ایسی روش دیتی ہے کہ جس کو اپنانے سے اس کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رزق اپنے ذمہ لیا ہے اور انسان کے ذمے اس کے لیے سعی و کوشش کرنا رکھا ہے اور اس رزق کو صحیح استعمال کرنے کا طریقہ و سلیقہ بھی بتایا ہے کہ جو مال تمہیں عطا کیا جائے اسے کیسے اور کہاں استعمال کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ نہ تو مال کو خرچ کرنے سے منع فرماتا ہے اور نہ ہی اسے بے دریغ ضائع کرنے پر راضی ہوتا ہے۔ بلکہ احکام شریعت کے مطابق مال خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کہ جتنا ضرورت ہو خرچ کرو اور اس میانہ روی کی بہت زیادہ تاکید اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اگرچہ ہر کام میں میانہ روی اچھا عمل ہے مگر خصوصاً مال کو خرچ کرنے کے سلسلے میں اس کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ جیسا کہ امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ ’’جو میانہ روی اختیار کرے میں اس کے فقیر نہ ہونے کی ضمانت دیتا ہوں‘‘۔

جو میانہ روی اختیار نہ کرے اور افراط و تفریط کا شکار ہو جائے تو اسلام میں ایسے شخص کی بہت مذمت کی گئی ہے اور اس کے لیے آخرت کے ساتھ دنیا کی بھی بہت سی مشکلات کا ذکر کیا گیا ہے۔

بخل

بخل کنجوسی کو کہتے ہیں یعنی ایسی جگہ جہاں مال خرچ کرنا چاہیے وہاں پر مال خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے۔

قرآن مجید اور فرامین معصومینؑ میں بخل کو امور قبیحہ میں سے شمار کیا گیا ہے اور بخیل شخص کی کھلے الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔

ارشاد رب العزت ہے:

مَّنْ یَّبْخَلُ وَمَنْ یَّبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ۔ (سورہ محمد:38)

جو شخص بخل کرتا ہے تو خود اپنے آپ سے بخل کرتا ہے۔

اسی طرح بہت سی روایات میں بھی بخل کی مذمت ہوئی ہے کہ انسان اپنی مرضی سے مال کو خرچ نہیں کرتا ہے اور اس میں وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔

رسول اکرمؐ سے مروی ہے کہ:

اللہ تعالیٰ کے نزدیک بخیل عبادت گزار سے ایک سخی جاہل شخص زیادہ محبوب ہے۔

امام علی نقی علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

سب سے مذموم اخلاق بخل کرنا ہے۔ اسی طرح امام صادقؑ سے مروی روایت میں سب سے زیادہ بد کردار بخیل کو قرار دیا گیا ہے۔ ’’تم میں سب سے زیادہ بد کردار وہ ہے جو بخیل ہے‘‘۔

روایات معصومینؑ میں بخیل شخص کا ٹھکانا جہنم بیان ہوا ہے اور اس کو رحمت خدا سے دور رہنے والوں میں شمار کیا گیا ہے۔ اسی سلسلے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک روایت منقول ہے کہ:

بخیل شخص اللہ تعالیٰ اور لوگوں سے دور ہوتا ہے۔ اور جنت سے بھی دور ہوتا ہے جبکہ جہنم کے قریب ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ شریعت اسلام نے ہر عمل میں میانہ روی کا حکم دیا ہے اسی وجہ سے بخل فقط مال خرچ کرنے اور نہ کرنے کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ روایات میں اور بھی کئی امور کو بخل میں سے شمار کیا گیا ہے۔

1۔ سلام میں بخل کرنا

امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ:

’’ بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے‘‘۔

2۔ صلوات میں بخل

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

’’ حقیقتاً بخیل وہ شخص ہے کہ جس کے سامنے میرا تذکرہ کیا جائے اور وہ مجھ پر صلوات نہ بھیجے‘‘۔

3۔ ادائیگی فرائض میں بخل

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مروی ہے کہ

سب سے زیادہ بخیل وہ شخص ہے جو ان امور میں بخل کرے کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس پر فرض قرار دیا ہے۔جب ہم اس سلسلے میں روایات معصومینؑ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں بخل کے بہت زیادہ نقصانات کا علم ہوتا ہے۔ کہ جن کو مختصر اً یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔

1۔ بخل اللہ تعالیٰ سے دوری اور جہنم سے قریب کرنے کا موجب بنتا ہے۔

2۔ بخیل شخص چونکہ اپنی ذات پر بھی خرچ کرنے سے کتراتا ہے اسی وجہ سے دوسروں پر خرچ کرنے کا تو سوچتا بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بخیل شخص کو ہمیشہ دوستوں اور ساتھیوں کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور بہت کم لوگ اس سے دوستی کرتے ہیں۔ جبکہ اس کے دشمنوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔

3۔ اللہ تعالیٰ نے بخیل شخص کے لیے جنت کو حرام قرار دیا ہے۔

4۔ بخل انسان کو دوسرے کئی گناہ انجام دینے پر آمادہ کرتا ہے، جیسے مال حرام کا کسب کرنا۔

5۔ بخل کے نتیجے میں اگرچہ شخص فقر و ناداری سے بچنا چاہتا ہے مگر وہ جلدی فقیر ہو جاتا ہے دنیا میں فقیروں جیسی زندگی گزارتا ہے مگر قیامت کے دن اس سے امیر لوگوں جیسا سخت حساب لیا جائے گا۔

6۔ بخل انسان کی ذلت و رسوائی کا موجب بنتا ہے۔

7۔ بخیل شخص کے رشتہ دار بھی اس کی اس حرکت سے نالاں ہوتے ہیں اور یہ عمل اس کے قطع رحمی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

8۔ بخیل شخص کو کبھی سکون و راحت نصیب نہیں ہوتا ہے۔

9۔ بخل انسان کو اموال شرعیہ (خمس، زکوٰۃ) ادا کرنے سے روکتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

اسراف

اسراف فضول خرچی کو کہتے ہیں اور یہ بخل کی ضد ہے یعنی جہاں پر جتنا ضرورت ہو اس سے زیادہ خرچ کرنا اور مال کا بے دریغ خرچ، اسراف و تبذیر کہلاتا ہے۔

جس طرح اسلام نے بخل کی مذمت کی اسی طرح اسراف کرنے سے بھی روکا ہے اور نعمات الہٰی کو ضائع کرنے اور ان کے نامناسب استعمال سے منع فرماتا ہے۔

چنانچہ ارشاد قدرت ہے:

وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا (سورہ اسراء:26)

اور فضول خرچی نہ کرو۔

بلکہ بعض مقامات پر اسراف کرنے والے کو شیطان کا ہم نشین قرار دیا ہے اور فرمایا کہ:

اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْ ٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ (سورہ اسراء 27)

فضول خرچی کرنے والے یقیناً شیاطین کے بھائی ہیں۔

اور اس گناہ کبیرہ کی ناپسندیدگی کو اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے:

انہ لا یحب المسرفین (سورہ انعام، 141)

یقیناً اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

جیسا کہ بخل کی بحث میں بیان ہو چکا ہے کہ بخل صرف مال کے خرچ نہ کرنے میں نہیں ہوتا ہے اسی طرح ’’اسراف‘‘ بھی فقط مال کے بے دریغ استعمال کرنے کو نہیں کہا جاتا ہے بلکہ ہر وہ عمل کہ جو حد اعتدال سے بڑھ کر انجام دیا جائے، اسراف کہلاتا ہے۔ جیسے اگر وضو کے لیے ایک لوٹا پانی کافی ہو تو اس سے زیادہ پانی کا استعمال بھی اسراف شمار ہو گا۔

بلکہ اس سلسلے میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:

نیکی کے کاموں کے علاوہ ہر شئی میں اسراف مذموم ہے۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک کام جتنے زیادہ انجام دیے جائیں ان میں اسراف کا عنوان نہیں آتا اور نہ ہی اس سلسلے میں مذمت وارد ہوئی ہے بلکہ بہت سی آیات و روایات کثرت سے افعال خیر انجام دینے کی تاکید کرتی ہیں۔

پس ہمیں چاہیے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے اصول پر عمل کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کریں اور بخل و اسراف جیسے افعال کہ جن سے خدا کی ناراضگی کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو بچائے رکھیں اور خداوند کریم سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)