اسلامی تعلیمات

باب 3 - دوسروں کے مال کا استعمال

اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں عرب کا معاشرہ غیر مہذب اور ناخواندہ تھا اور لوگ دوسروں کے حقوق سے اصلاً ناآشنا تھے وہ ایک ایسا معاشرہ تھا کہ جس میں انسانی جان کی کوئی قدر و منزلت نہ تھی بلکہ وہ لوگ اپنی اولاد (بیٹیوں) تک کو زندہ درگور کرنے پر راضی ہو جاتے تھے مگر شریعت مقدسہ اسلام نے اسی معاشرے کو ایک مہذب ترین معاشرے کے تمام قواعد و قوانین سے آشنا کرایا اور انسانی جان کے ساتھ ساتھ اس کی عزت و مال کی حفاظت کو بھی ملحوظ رکھا۔ اسی وجہ سے شریعت اسلام میں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ کسی کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر استعمال کیا جائے۔

اور بلا اجازت دوسروں کا مال استعمال کرنے کی سخت مذمت کی گئی۔ دوسروں کا مال چند طرح سے بلا اجازت استعمال کیا جا سکتا ہے جن میں سے صرف دو کو ذکر کریں گے۔

1۔ چوری کرنا

2۔ خیانت کرنا

1۔چوری

چوری کسی دوسرے کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر خفیہ طور پر یا چھپا کر لے لینے کا نام ہے۔

یہ وہ واحد گناہ ہے کہ جس کی سزا اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر ہاتھ کاٹنا قرار دیا ہے۔

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَاجَزَآء ًم بِمَا کَسَبَا نَکافضل مِّنَ اللّٰہِ۔ وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ (سورہ مائدہ:37)

اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت ان کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کے عمل کی سزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ہے اور اللہ زبردست اور صاحب حکمت ہے۔

چوری کرنا گناہان کبیرہ میں سے ہے اور روایات معصومینؑ میں بھی اس کی بہت زیادہ مذمت کی گئی ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں بہت سی احادیث میں یہ بات ملتی ہے کہ جب چور چوری کرنے میں مصروف ہوتا ہے تو اس وقت اس کے پاس ایمان نہیں ہوتا۔ چور کے بارے میں فقہ کا مسئلہ ہے کہ اگر چور ایک دفعہ چوری کرے تو اسکے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو جڑ سے کاٹ دیا جائے اور اگر اس کے بعد وہ پھر چوری کرے تو اس کے بائیں پاوں میں سے نصف قدم کو کاٹ دیا جائے، اور اگر اس کے باوجود وہ باز نہ آئے تو اس کو عمر قید کی سزا سنائی جائے اور اگر وہ پھر بھی باز نہ آئے اور زندان میں بھی چوری کرے تو اس کو سزائے موت دے دی جائے۔

حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

’’چوری اس لیے حرام ہے کہ اس سے مال برباد ہوتا ہے جانیں ضائع ہوتیں ہیں۔ نزاع و حسد کے جذبات ابھرتے ہیں۔ چور کا دایاں ہاتھ کاٹنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ انسان اپنے اکثر کام دایاں ہاتھ سے کرتا ہے۔ دایاں ہاتھ انسانی وجود کا سرمایہ ہے چوری کی سزا میں دایاں ہاتھ اس لیے کاٹا جاتا ہے کہ چور کو نصیحت اور دوسروں کو عبرت ہو، اور چور کا انجام دیکھ کر دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں اور چوری نہ کریں۔

نقصانات

چور کی بری عادت کی وجہ سے چور کو دنیا و آخرت میں مختلف قسم کے نقصانات جھیلنے پڑتے ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔چوری کرنے سے چور کا ایمان زائل ہو جاتا ہے اور وہ اس عمل کی وجہ سے مؤمن نہیں رہتا۔

2۔اللہ تعالیٰ اور اس کی برگزیدہ ہستیوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

3۔چور اس دنیا میں اپنے جسم کے اہم اجزا (ہاتھ اور پاؤں) یا پھر بعض اوقات اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

4۔چور کبھی حلال مال نہیں کھا سکتا۔

5۔چور، چوری کرنے کی وجہ سے سستی اور کاہلی کا شکار ہو جاتا ہے اور محنت مزدوری کر کے کھانے سے کتراتا ہے۔

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ دوسروں کے مال کو بلا اجازت استعمال کرنے سے مراد صرف چوری کرنا ہی ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ اس میں ڈاکہ وغیرہ بھی شامل ہے۔

اسی طرح معاشرے میں جب ہم یہ دیکھیں کہ دو دوست بیٹھے ہوں اور ان میں سے کوئی ایک دوسرے دوست کی کسی چیز کو بغیر اجازت کے اٹھالے اور وہ چیز جس کی ہے وہ راضی نہ ہو تو یہ بھی دوسروں کے مال کو بلا اجازت استعمال کرنے میں شامل ہو گا۔ اسی طرح کسی کے موبائل سے اس کی اجازت کے بغیر کہیں پر کال یا ایس ایم ایس کرنا جبکہ مالک راضی نہ ہو یا یہ کہ آدمی کسی کی دکان پر جائے اور باتوں ہی باتوں میں اس کی دکان میں سے کوئی چیز اٹھا کر کھالے جبکہ دکاندار اس بات پر راضی نہ ہو تو یہ سب باتیں دوسروں کے مال کو بلا اجازت استعمال کرنے کے ضمن میں آجاتی ہیں اس طرح کی اور بھی مثالیں جو حقیقتاً دوسروں کے مال کو بلا اجازت استعمال کرنے میں شمار ہوتی ہیں مگر ہم ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور بے خیالی میں اتنے بڑے گناہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں لہٰذا ہر کام کرنے سے پہلے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں اس کام سے کسی کا حق یا مال تو ضائع نہیں ہو رہا۔

2۔خیانت

یعنی وہ حقوق جن کی محافظت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے ان کی حفاظت نہ کرنا خیانت کہلاتا ہے۔

علماء اخلاق نے خیانت کو بھی دوسروں کے مال کو بلا اجازت استعمال کرنے کی ایک قسم شمار کیا ہے خیانت چاہے جس طرح بھی کی جائے یہ ممنوع اور حرام ہے۔ ہاں البتہ مختلف موارد میں خیانت کا گناہ مختلف ہوتا ہے۔ اسی لیے اگر کوئی شخص کسی کی امانت میں خیانت کرے تو اسے گناہان کبیرہ میں سے شمار کیا گیا ہے۔

عام طور پر معاشرے میں خیانت سے مرادیہ لی جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس کوئی مال امانت کے طور پر رکھے اور وہ اس مال کے واپس کرنے سے انکار کر دے یا اصلاً مال رکھنے سے ہی مکر جائے تو اسے خیانت کہا جاتا ہے۔ مگر خیانت کا مفہوم وسیع ہے اور ہر حق کی حق تلفی کرنے کو خیانت شمار کیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خائن شخص کی شدید مذمت کی ہے اور اس کام سے واضح طور پر منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ وَتَخُوْنُوْآ اَمٰنٰتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (سورہ انفال:27)

اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت نہ کرو اور اپنی امانتوں میں بھی خیانت نہ کرو درحالانکہ تم جانتے ہو۔

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

وَمَنْ یَّغْلُلْ یَاْت ِبِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃ۔ (سورہ آل عمران:161)

جو کوئی خیانت کرے تو قیامت کے دن خیانت سمیت پیش ہو گا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ:

’’جو شخص دنیا میں کسی امانت میں خیانت کرے اور حقدار تک نہ پہنچائے اور اس حالت میں اسے موت آجائے تو وہ میرے دین پر نہیں مرے گا، اللہ اس پر غضبناک ہو گا اور جو شخص جان بوجھ کر چوری یا خیانت کا مال خریدے تو وہ بھی خائن کی طرح ہے‘‘۔

یہ اتنا قبیح عمل ہے کہ اس کی مذمت میں ائمہ طاہرینؑ کی بے شمار احادیث موجود ہیں اور ان میں یہاں تک حکم دیا گیا ہے کہ جس نے تم سے خیانت کی ہو اس سے بھی خیانت نہ کرو کہ کہیں تم بھی اس جیسے نہ ہو جاؤ اور اس پر جو عقاب و عذاب ہو گا وہ تمہارا مقدر بھی نہ بن جائے۔

اسی طرح امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ

اللہ سے ڈرو اور جن لوگوں نے تمہیں امین بنایا ہے ان تک امانت پہنچا دو، اگر امام علیؑ کا قاتل بھی میرے پاس امانت رکھے تو میں اس کی امانت اس کو واپس کر دوں گا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خائن شخص کو اپنی امت سے خارج شمار فرمایا ہے اور اسے جہنم کی وعید سنائی ہے۔

چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ:

مسلمان مکر اور دھوکہ نہیں کرتا میں نے جبرائیل سے سنا انہوں نے کہا کہ مکر و دھوکہ انجام دینے والے دوزخ میں ہوں گے پھر فرمایا جو کسی مسلمان کو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں اور جو کسی مؤمن سے خیانت کرے وہ بھی ہم میں سے نہیں۔

وہ مقامات جو خیانت میں شمار ہوتے ہیں بہت زیادہ ہیں ان میں سے چند ایک قابلِ ذکر ہیں:

1۔اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت اور اس کی معصیت کرنا اللہ تعالیٰ کے حق میں خیانت شمار ہوتی ہے۔

2۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے حق کو ادا نہ کرنا خیانت ہے۔

3۔کسی مؤمن کی امانت کو واپس نہ کرنا اور اس کا انکار کر دینا خیانت ہے۔

4۔کسی مؤمن کے راز کو افشاء کرنا بھی خیانت شمار ہوتا ہے۔

5۔روایت کے مطابق کسی مؤمن بھائی کی حاجت روائی میں کوتاہی کرنا خیانت میں شمار ہوتا ہے۔

6۔کسی خائن شخص کی امانت اپنے پاس رکھنا یا خیانت کے ذریعے حاصل کیے گئے مال کو خریدنا خیانت ہے۔

7۔گناہگار اور شر و فساد پھیلانے والا شخص بھی اپنے نفس کے حق کو ضائع کرنے کی وجہ سے خائن شمار ہوتا ہے۔

واقعہ

ایک شخص کے پاس ایک ہزار تومان کی ایک تھیلی تھی۔ وہ صبح سویرے نہانے کے ارادے سے عمومی حمام کی طرف چلا۔ راستے میں ایک دوست ملا وہ بھی اسی طرف جا رہا تھا۔ جب ایک دوراہا آیا تو دوست اس شخص سے کچھ کہے بغیر الگ ہو گیا اتفاق سے پیچھے ایک چور آ رہا تھا وہ رقم سے بھری ہوئی اس تھیلی کو چوری کرنے کے چکر میں تھا وہ شخص حمام پہنچا تو وہ چور بھی پیچھے پیچھے حمام پہنچ گیا، اس شخص نے رقم سے بھری ہوئی تھیلی حمام والے کے سپرد کی اور اندر نہانے چلا گیا اتفاق سے حمام والے کو خود بھی نہانے کا خیال آگیا اس نے یہ سمجھ کر کہ یہ چور اس تھیلی والے کا دوست ہے وہ تھیلی چور کو دے دی اور کہا جب تک میں حمام سے باہر نہ آوں تم یہ امانت رکھ لو تو چور وہ تھیلی لیے وہیں بیٹھا رہا یہاں تک کہ حمام والا باہر آیا چور نے اسے تھیلی واپس کر دی جب معلوم ہوا کہ یہ شخص تھیلی والے کا دوست نہیں ہے تو حمام والے نے اس سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا: میں ایک چور ہوں۔

حمام والے نے پوچھا: پھر یہ تھیلی چوری کیوں نہ کی؟

چور نے جواب دیا: ٹھیک ہے میں ایک چور ہوں لیکن امانت میں خیانت کرنا جوانمردی کے خلاف ہے۔ مجھے امانت داری کی خاطر دو فائدے حاصل ہوئے۔ ایک یہ کہ میں ادھر بیٹھا رہا اور خیانت نہیں کی اور دوسرا یہ کہ ادھر بیٹھنے کی وجہ سے میں چوری سے بھی بچ گیا۔

تھیلی والا اس شخص سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے تھیلی کھول کر کچھ رقم اس کو دے دی۔

آپ نے ملاحظہ کیا کہ امانتداری نے اس وقت چور کو چوری سے بھی بچا لیا اور اسے تھیلی والے کے تحفے یعنی رزق حلال تک بھی پہنچا دیا اور اس طرح وہ دنیا میں بھی کامیاب اور آخرت میں بھی سعادت مند ٹھہرا۔