اسلامی تعلیمات

باب 1 - اخلاق

آغاز سخن

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی فلاح کی خاطر جس دستور کو اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے بیان فرمایا ہے وہ بنیادی طور پر تین اقسام کا ہے۔

1۔ عقائد (اصول دین)

2۔اعمال و احکام (فروع دین)

3۔ اخلاقیات

قرآن مجید میں بھی ان تینوں قسموں کی اہمیت و تشخیص کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ سورہ عصر میں ان تینوں اقسام کا ایک ساتھ ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَالْعَصْرِ (1) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ (2) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ۔ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔ (سورہ عصر)

انسان خسارے میں ہے سوائے ان (انسانوں) کے جو ایمان لائے (عقائد) اور عمل صالح کرتے رہے (فروع دین) اور حق و صبر کی تلقین کرتے رہے۔ (اخلاقیات)

اخلاقیات

اس حقیقت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ہر انسان نقصان سے بچنا چاہتا ہے اور انسان کی عقل اس کو ہر مضر اور نقصاندہ کام کو انجام دینے سے منع کرتی ہے۔ اگرچہ کسی کام سے نقصان پہنچنے کا احتمال بھی ہو تو اس سے بچاؤ کی تدبیر کرنا ضروری ہے اور اگر نقصان یقینی ہو تو اس سے بچنا مزید ضروری ہو جاتا ہے۔

اگر کسی کام کی وجہ سے آنے والے دنوں میں نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو حال ہی میں اس سے بچاؤ کی تدبیر کرنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح اگر کسی کام سے کوئی فائدہ ملنے کا علم ہو تو عقل انسانی اس عمل کو انجام دینے کی تشویق دلاتی ہے کہ اس سے فائدہ حاصل کر لیں۔ اگر یہ فائدہ و نقصان دنیا سے مربوط ہوں تو اس فائدہ کا حاصل نہ ہونا اور نقصان و ضرر کا اٹھانا قابل برداشت ہیں مگر انبیاء کرامؑ اور ان کے اوصیاءؑ نے ہمیں آخرت کے یقینی فائدہ و نقصان کو بالکل واضح کرکے بیان کر دیا ہے اور ان کی صداقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم آخرت کے فائدہ کے حصول اور اس دائمی و ابدی نقصان سے بچنے کے لیے ابھی سے تدبیر کریں۔

علم اخلاق و اخلاقیات معاشرے میں ہمیں صحیح طریقہ سے رہنے سہنے کے آداب اور لوگوں سے معاشرت کی تربیت دیتا ہے اور اسی علم کی وجہ سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ کون سا عمل ہمارے فائدے کا ہے اور کن کاموں کی وجہ سے ہمیں خسارہ اٹھانا پڑے گا۔

اخلاق

اخلاق و اخلاقیات ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور ہر ایک مذہب اپنے حساب سے رہنے سہنے اور معاشرت کے کچھ قوانین و ضوابط رکھتا ہے۔ مذہب اسلام کا یہ خاصہ ہے کہ اس سے بہتر تعلیمات و اخلاقیات کسی اور مذہب میں موجود نہیں ہیں اور شریعت اسلام نے ’’اخلاقیات‘‘ کو حد درجہ اہمیت دی ہے۔ اخلاقیات کی اہمیت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں آپؐ کی اس صفت و خوبی کو خصوصی طور پر بیان فرمایا کہ:

وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ۔ (سورہ القلم:4)

اور بے شک آپؐ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں۔

اور اسی طرح خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی اپنی بعثت کا مقصد ’’اخلاقیات‘‘ کو قرار دیا ہے۔

چنانچہ آپؐ سے منقول ہے کہ:

انّما بعثتُ لاتمم مکارم الاخلاق۔

بے شک مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔

یہی حسن خلق اور اچھا کردار ہے کہ جس کے ذریعے انسان پوری دنیا کو اپنا بنا سکتا ہے اور دنیاوی فوائد کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی لاتعداد فوائد اچھے اخلاق والے کے منتظر ہیں۔

جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ:

قیامت کے دن کسی شخص کے ’’میزان‘‘ میں حسن خلق سے بہتر کوئی چیز نہیں رکھی جائے گی۔

اخلاق، اسلام سے ہٹ کر کوئی علیٰحدہ چیز نہیں ہے بلکہ اسلامی عقائد و احکام کا عملی نمونہ اخلاق کہلاتا ہے یعنی اخلاق کا کچھ حصہ خالق اور کچھ مخلوق کے ساتھ خاص ہے۔ اس اعتبار سے اخلاق کو دو قسموں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1۔ حقوق اللہ

اللہ کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور ایک بندے پر اس کے مولا کے جتنے حقوق واجب الادا ہوتے ہیں ان کو بطریق احسن انجام دیا جائے۔

2۔ حقوق العباد

حقوق العباد میں اخلاق کو مزید دو قسموں میں تقسم کیا جاتا ہے۔

1۔ حق النفس

یعنی انسان کی اپنی ذات کا بھی اس پہ حق ہے کہ اس سے احسن طریقہ سے پیش آئے انسان کوئی ایسا عمل نہ کرے جو اس کی ذات و نفس کے لیے نقصان دہ ہو تو یہ اس کا اپنے ساتھ حسن خلق ہو گا۔ اسی وجہ سے اسلام نے خود کو تکلیف دینا اور نقصان پہنچانا حرام قرار دیا ہے۔

2۔ حق الغیر

جہاں اسلام نے انسان کی اپنی ذات کی پرواہ کی ہے وہیں اس نے دوسروں کی بھی پرواہ کی ہے اور اس نے دوسروں کی جان و مال کا بھی خیال میں رکھا ہے اور انسان پہ بہت سے افراد کے حقوق کو ضروری قرار دیا ہے جیسا کہ ماں، باپ، ہمسایہ، مؤمن بھائی وغیرہ کے حقوق کہ جن کو انجام نہ دینے سے بہت بڑے خطرہ کا سامنا کرنا ہو گا۔

ہر انسان فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ وہ معاشرہ میں معزز و معتبر مانا جائے او روہ عزت و مقام کو حاصل کرنے کے لیے کوشش و محنت کرتا ہے۔ اس عزت وکمال کو حاصل کرنے کے لیے وہ خود سے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے بعض اوقات تو وہ طریقے اسے عزت دلاتے ہیں مگر اکثر طور پر وہ کچھ ایسے راستے پر چل نکلتا ہے کہ جہاں اسے دنیا میں بھی ملامت اٹھانی پڑتی ہے اور آخرت میں بھی ذلت آمیز عقاب چکھنا پڑے گا۔

دین و مذہب فقط چند مخصوص اوقات میں چند خاص طرح کے افعال انجام دینے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ وہ طرز حیات ہے کہ جس کو خالق کائنات نے ہمارے لیے تیار کیا ہے۔ ہم اپنے لیے خود طریقہ حیات ڈھونڈتے ہیں اور دنیا و آخرت کی خواری اٹھاتے ہیں اور اگر ہم اس کے طریقہ کو اختیار کریں کہ جس نے ہمیں خلق کیا اور جو ہماری ساری ضروریات سے آگاہ ہے تو ہم دنیا و آخرت میں عزت و مقام کے ساتھ ساتھ فلاح پا سکتے ہیں۔

حقیقی عزت و کمال تک رسائی اس وقت ممکن ہے جب انسان خالق کے بیان کردہ قانون کی اتباع کرے۔ پس اچھی معاشرت اور بہترین اخلاق وہ ہی ہے جو اللہ نے بیان فرمایا ہے اور اسی کے ذریعے انسان عزت و کمال کو حاصل کر سکتا ہے اور دوسری طرف اخلاق سے عاری انسان اپنے لبادہ کا کفن اوڑھے جسم کا جنازہ اٹھائے پھر تا رہتا ہے کیونکہ جس طرح جسم کی زندگی روح سے مربوط ہے اسی طرح حیات روح اچھے اخلاق سے پیوستہ ہے۔

خلاصۃً اخلاق ’’اچھے کردار اور رویہّ‘‘ کو کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اخلاق کو دین اسلام کا تیسرا بڑا رکن قرار دیا ہے۔

خداوند متعال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ویسا بننے کی توفیق عطا کرئے کہ جیسا وہ ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔