اسلامی تعلیمات

باب 14 - عقیدہ توسل

وسیلہ اور توسل کا مطلب یہ ہے کہ جس کے ذریعے کسی دوسری چیز تک پہنچا جائے۔ وسیلہ بنانا اور توسل کرنا ایک اسلامی عقیدہ ہے۔ جب انسان مشکلات میں گھر جائے تو اولیاء اللہ اور خدا کے مقرب بندوں کا دامن پکڑ لیتا ہے تاکہ وہ خدا کی اجازت سے اس کے حضور ان لوگوں کی مشکلات حل کروائیں۔ اسی طرح گناہ گار انسان معصوم افراد کو وسیلہ اور واسطہ قرار دیتا ہے تاکہ خدا ان معصوم ہستیوں کے صدقے اس کے گناہ معاف کرے۔ ان معصوم ہسیتوں کے وسیلہ سے اسے ہدایت و کامیابی دے۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوااتَّقُواا للّٰہَ وَابْتَغُوْآ اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (سورہ مائدہ 35)

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہنا اور خدا کے قرب کے لیے وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں کوشش کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔

پس اس آیت میں واضح طور پر ایمان والوں کو وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر توسل کرنا، وسیلہ بنانا غیر شرعی اور غیر اسلامی فعل ہو تو قرآن مجید میں اس کا حکم کیوں دیا جاتا ہے؟ اس طرح مسند احمد، صحیح بخاری و دیگر کتب اہل سنت میں یہ معتبر حدیث موجود ہے کہ آپؐ نے فرمایا جو شخص اذان سنے اور اس کے بعد اذان والی دعا پڑھے جس میں ہے:

آتِ مُحَمّداًالْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ جَلَّتْ لَہ شَفَاعَتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃ۔

محمدؐ کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما۔ تو اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت ہوگی۔

اس حدیث میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وسیلہ کی دعا کرے تو اسے آپؐ کی شفاعت نصیب ہوگی۔

اسی طرح حضرت عمر کی یہ دعا مشہور ہے کہ جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی میں قحط ہو جاتا تو صحابہ کرامؓ آپؐ کے پاس آتے تھے اور آپؐ دعا فرماتے تو بارش ہو جاتی۔ اسی طرح آپؐ کی وفات کے بعد قحط پڑا تو حضرت عمر نے اس طرح دعا کی: اے اللہ جب ہم نے تیرے نبی کے ذریعے توسل کیا تو، تو نے ہمیں بارش سے سیراب کیا اب حضرت محمدؐ کے چچا سے توسل کرتے ہیں ہمیں بارش نصیب فرما۔ حضرت عمر کی اس دعا سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نہ فقط حضرت کی ذات اقدس سے توسل جائز ہے بلکہ آپؐ کے رشتہ داروں اور اقرباء سے بھی توسل کرنا جائز ہے۔

عیون اخبار رضاؑ میں روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: آئمہؑ دین کی مضبوط رسی ہیں اور اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ روایات کے علاوہ قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر ہمیں توسل کے نمونے نظر آتے ہیں۔ جن میں سے چند ایک نمونے ذکر کرتے ہیں:

وَ لَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْآ اَنْفُسَہُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُا اللّٰہ َوَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (سورہ نساء:64)

اور جب انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا (اور گناہ کا ارتکاب کیا) اس وقت اگر وہ تیرے پاس آتے اور خدا سے استغفار طلب کرتے اور رسول خدا بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ خدا کو توبہ قبول کرنے والا اور مہربان پاتے۔

اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگر وہ گناہگار لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آ کر یعنی رسول سے توسل کر کے توبہ کرتے تو پھر خدا ان کی توبہ قبول کرتا۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے واقعہ میں دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے باپ کو وسیلہ بنایا اور کہا:

قَالُوْا یٰٓاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَآ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیْنَ (سورہ یوسف،97)

اے ہمارے باباجان! ہمارے لیے خدا سے مغفرت طلب کریں کیونکہ ہم خطاکار ہیں۔

ان کے بوڑھے باپ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے فرمایا:ـ

قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ۔ ( سورہ یوسف،98)

میں تمہارے لیے اپنے پروردگار سے مغفرت طلب کروں گا۔

یہ آیت اس بات پر شاہد ہے کہ گزشتہ امتوں میں بھی توسل کا عقیدہ پایا جاتا تھا۔

توسل میں فقط آئمہ علیہم السلام کی رہنمائی کے مطابق چلنا چاہیے اور انہیں خدا کی اجازت کے بغیر مستقل طور پر مؤثر نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیونکہ خدا کی اجازت اور اذن کے بغیر وہ کسی فائدے اور نفع کے مالک نہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

قُلْ لَآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لاَ ضَرًّا اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہُ۔َ (سورہ اعراف:188)

اے رسول کہہ دو ! میں اپنے لیے کسی قسم کے نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر یہ کہ جو خدا چاہے۔

اللہ تعالیٰ انبیاء و ائمہ علیہم السلام کے صدقے انسانوں کی دعا قبول فرماتا ہے۔