اسلامی تعلیمات

باب 13 - محبت اہل بیت علیہم السلام

ہمارا عقیدہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کی محبت ہر شخص پر واجب ہے۔ قرآن مجید میں بڑے واضح انداز میں تمام مسلمانوں پر اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرنا واجب قرار دیا گیا ہے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم خدا ہوا:

قُلْ لاٰ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبیٰ (سورہ شوریٰ:23)

کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے اقرباء سے محبت کرو۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاء کرامؑ نے احکام الٰہی کی تبلیغ کی انہوں نے یہی کہا کہ ہمارا اجر خدا کے ذمے ہے۔ لیکن رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کا یہ حکم ہوا کہ تم لوگوں سے اپنی تبلیغ کا اجر مانگو، اور وہ اجر محبت اہل بیتؑ ہے۔ پس اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرنا اجر رسالت ہے اور واجب ہے۔

جب یہی آیت مودت فی القربیٰ نازل ہوئی ہے اور صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کون سے آپؐ کے رشتہ دار ہیں کہ جن کی محبت ہم پر واجب ہے تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ حضرت علیؑ، جناب فاطمہ (س) اور ان کے بیٹے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اہل بیتؑ سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔

سوال یہ ہے کہ خداوند کریم نے ہم پر محبت اہل بیتؑ کو کیوں واجب قرار دیا؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اہل بیت علیہم السلام ہماری محبت کے محتاج نہیں ہیں۔ بلکہ ہم اہل البیتؑ کی محبت کے محتاج ہیں۔ کیونکہ محبت کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں، کم سے کم محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں اس کی باتوں کو بھی مانتے ہو اس کو کبھی ناراض نہیں ہونے دیتے۔ پس جب ہم اہل بیت علیہم السلام سے سچی محبت رکھتے ہوں گے تو ان کے فرامین پر عمل کریں گے۔ اس طرح اہل بیت علیہم السلام کے فرامین پر عمل کرکے ہم نجات پائیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اہل بیت علیہم السلام کو اولی الامر کہا گیا ہے اور اولی الامر کی اطاعت کرنا واجب ہوتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ۔ (سورہ النساء: 59)

اے ایمان والو اللہ کی، اللہ کے رسول کی اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔

پس ہم محبت اہل بیتؑ سے ہی نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

مَنْ مَاتَ عَلیٰ حُبِّ آل مُحَمّدٍ مَاتَ شَھِیْداً۔

کہ جو اہل بیتؑ کی محبت پر مرا وہ شہادت کی موت مرا۔

اور اگر کوئی شخص اہل بیت علیہم السلام سے دشمنی رکھے گا تو اس کی نجات ممکن نہیں۔

جیسا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

مَنْ مَاتَ عَلیٰ بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ مَاتَ کَافِراً۔ جو اہل بیتؑ کی دشمنی پر مرا وہ کفر کی موت مرا۔

اور اسی طرح فرماتے ہیں:

مَنْ مَاتَ عَلیٰ بُغْضِ آلِ مُحَمَّدٍ لَمْ یَشُمّ رَائِحَۃَ الْجَنَّۃ۔

جو اہل بیتؑ کی دشمنی پر مرے گا وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکے گا۔

جیسا کہ یہ بات واضح اور روشن ہے کہ دعویٰ محبت کی سچائی کا معیار یہ ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی کتنی بات مانتا ہے۔ وگرنہ ہمارے آئمہ اہل بیت علیہم السلام سے تو کافر بھی محبت کرتے ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ فقط محبت کرتے ہیں کہ جس میں وہ آئمہؑ کی بات پر عمل نہیں کرتے لہٰذا ان کی محبت کھوکھلی ہے۔ اگر ہمیں اپنی محبت کو ثابت کرنا ہے تو ہمیں اپنے اماموںؑ کی اطاعت کرنی چاہیے۔ ہمارے آئمہ علیہم السلام نے ہمیں نادان شخص جیسی محبت سے روکا ہے کہ جو اپنے آئمہؑ کو حد عبودیت سے بڑھا کر ان کو ربوبیت و معبودیت کے مقام تک لے جاتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے آئمہؑ خدا کی مخلوق ہیں۔

اس طرح اپنے اماموں میں سے کسی کو نبی کہنا بھی غلط ہے۔ حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں محمدؐ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں‘‘۔ آئمہؑ کی محبت و معرفت ہمیں خدا کی اطاعت کرنے سے بے نیاز نہیں کرتی۔ چونکہ خود ہمارے آئمہؑ ہمیں اطاعت خداوندی کا حکم دیتے ہیں۔

حضرت علیؑ فرماتے ہیں:

میرے بارے میں دو قسم کے لوگ ہلاک ہو جائیں گے حالانکہ اس پر ہمارا کوئی قصور نہیں ہو گا۔ ایک محبت میں حد سے بڑھ جانے والا اور دوسرا دشمنی میں حد کر دینے والا اور وہ لوگ جو ہمیں حد سے بڑھاتے ہیں ہم ان سے اس طرح بیزار ہیں جس طرح حضرت عیسیٰؑ قومِ نصاریٰ سے بیزار تھے (جو حضرت عیسیؑ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے)۔

حضرت امام زمانہ علیہ السلام کی غیبت صغریٰ کے زمانے میں ان کے نائب خاص محمد بن عثمانؓ کے جواب میں حضرتؑ نے فرمایا کہ:

خداوند کریم نے ہی جسموں کو پیدا کیا اور اس نے ہی ان کا رزق تقسیم کیا کیونکہ نہ تو وہ جسم ہے اور نہ ہی کسی جسم میں حلول کرتا ہے بتحقیق وہ سننے اور دیکھنے والا ہے۔

آئمہ علیہم السلام اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں پس وہ خلق فرماتا ہے۔ جب وہ سوال کرتے ہیں تو خدا رزق عطا فرماتا ہے، اور خدا ان کے سوال کو پورا کرتے ہوئے ان کے شان و شوکت اور عظمت کو بڑھاتے ہوئے ان کے سوال کو مسترد نہیں فرماتا۔