اسلامی تعلیمات

باب 5 - عدم تحریف قرآن

باب 5 - عدم تحریف قرآن

گذشتہ سبق میں یہ تو واضح ہو گیا کہ موجودہ قرآن کو کب اور کس نے کتابی شکل دی۔ اس سبق میں ہماری بحث اس بارے میں ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے پاس موجود ہے آیا یہ بعینہ وہی قرآن ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا؟ یا اس میں کچھ کمی یا زیادتی ہو گئی ہے؟

ہمارا عقیدہ ہے کہ آج دنیا کے مسلمانوں کے پاس جو قرآن مجید ہے یہ وہی قرآن ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا اس میں کچھ کمی واقع ہوئی ہے اور نہ کسی چیز کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ابتدائی دنوں سے ہی کاتبان وحی کی ایک بہت بڑی جماعت نزول قرآن کے بعد آیات کو لکھ لیتی تھی۔ مسلمانوں کی ذمہ داری تھی کہ دن رات اس کی تلاوت کریں اور اپنی پنجگانہ نمازوں میں اسے دہرائیں۔ بہت سے لوگوں نے قرآن کو حفظ کر لیا تھا۔ اسلامی معاشروں میں قرآن کے حفاظ اور قاریوں کو ہمیشہ خصوصی مقام حاصل رہا ان باتوں اور دیگر وجوہات کے باعث قرآن ہر قسم کے تغیر و تبدل اور تحریف سے محفوظ رہا۔

اس میں کوئی تبدیلی ہو بھی کیوں کر ہو سکتی تھی جب کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے خاتمے تک اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس ضمانت کے باعث اس میں تغیر و تحریف محال ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ﴿۹﴾۔ ( سورہ حجر9)

اس ذکر یعنی قرآن کو یقیناً ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔

اس معروف قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن موجود بھی نہیں ہے یہ بات بھی بالکل واضح ہے اور تحقیق کا راستہ سب کے لیے کھلا ہے کیونکہ آج تمام گھروں، تمام مساجد اور لائبریریوں میں قرآن موجود ہے۔ یہاں تک کہ صدیوں پہلے لکھے گئے قلمی نسخے ہمارے عجائب گھروں میں موجود ہیں یہ سب ببانگ دہل اعلان کر رہے ہیں کہ یہ وہی قرآن ہے جو باقی اسلامی ممالک میں موجود ہے اگرچہ قبل ازیں ان مسائل پر تحقیق کے وسائل فراہم نہ تھے۔لیکن آج تو تحقیق کا دروازہ سب کے لیے کھلا ہے تھوڑی سی تحقیق سے ہی اس طرح کی غلط نسبتوں کا بے بنیاد ہونا ثابت ہو جائے گا۔ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کی حقانیت پر اللہ کی طرف سے ایک معجزہ ہے۔

لَّا یَاۡتِیۡہِ الۡبَاطِلُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ لَا مِنۡ خَلۡفِہٖ ؕ تَنۡزِیۡلٌ مِّنۡ حَکِیۡمٍ حَمِیۡدٍ﴿۴۲﴾ (سورہ حم سجدہ 42)

باطل نہ اس کے سامنے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ حکمت والے اور لائق ستائش کی نازل کردہ ہے۔

بعض کوتاہ فکر یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ قرآن مجید میں تحریف اور تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔ دلیل کے طور پر وہ کچھ ایسی روایات پیش کرتے ہیں جن میں تحریف کا لفظ موجود ہے اگرچہ ان روایات میں تحریف کا لفظ صریحاً موجود ہے لیکن ان میں تحریف سے مراد تحریف معنوی ہے۔ تحریف معنوی کا مطلب یہ ہے کہ مفاد پرستوں نے آیات قرانی کے مطالب کو ان کے حقیقی مفہوم و معنی سے ہٹا کر اپنی رائے اور ذاتی یا گروہی خواہشات کے مطابق استعمال کیا ہے۔ ان لوگوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ لا یعرفون الا خطہ ‘‘ یعنی وہ لوگ قرآن کے صرف خطوط اور نقوش کو پہچانتے ہوں گے۔

اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ لوگ قرآن میں معنوی تحریف تو کریں گے لیکن الفاظ قرآن محفوظ رہیں گے۔ تحریف قرآن ناممکن ہے۔ قرآن میں تحریف اس لیے ناممکن ہے کہ اس کی معجزاتی ترکیب اپنے اندر کسی قسم کی تحریف کو قبول نہیں کرتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم مندرجہ ذیل دلائل پیش کرتے ہیں۔

1۔ اصول و کلیات: گذشتہ امتوں پر نازل شدہ کتب میں تحریف واقع ہونے کے اہم اسباب میں سے ایک سبب یہ تھا کہ آسمانی کتب میں جو دستور حیات دیا گیا تھا وہ حکمرانوں اور مفاد پرستوں کے مفادات کے خلاف ہوتا تھا لہٰذا کچھ لوگوں نے ان کی مخالفت کی۔ کچھ نے ان حقائق کو چھپانے کی کوشش کی اور کچھ نے تحریف کر ڈالی۔ لیکن خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ابدی معجزے قرآن کو تحریف سے محفوظ رکھنے کا انتظام خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اس مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اصول و کلیات ہی بیان کئے اور تفسیر و تشریح کا کام سنت پر چھوڑ دیا۔ اس لیے قرآن میں اس دور کے لوگوں میں سے کسی کا نام مذکور نہیں۔ نہ برگذیدہ ہستیوں کے نام مذکور ہیں نہ قابل مذمت لوگوں کے نام درج ہیں۔ صرف ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت نام لے کر کی گئی ہے۔ کیونکہ ابولہب کی کھلی عداوت اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رشتہ دار ہونا ایسی باتیں تھیں جن کی وجہ سے ان کا نام صراحت سے لیا گیا کیونکہ مستقبل میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاندان کی طرف سے کسی تحریف کا خطرہ نہیں تھا۔