Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، جب تک تم دنیا سے روگردانی نہیں کرلو گے اس وقت تک تمہارے دلوں کیلئے ایمان کی مٹھاس کا احساس حرام ہوگا۔ اصول کافی باب ذم الدنیا والزھد فیھا حدیث 2، وسائل الشیعۃ حدیث20831

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 5: پیغمبر(ص) کے بعد جب ابو سفیان نے آپ (ع) کے ہاتھ پر بیعت کرنا چاہی تو اس موقع پر فرمایا

جب رسول اللہ نے دنیا سے رحلت فرمائی تو عباس اور ابو سفیان ابن حرب نے آپ سے عرض کیا کہ ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں جس پر حضرت نے فرمایا۔

اے لوگو ! فتنہ و فسا د کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر اپنے کو نکال لے جاؤ۔ تفرقہ و انتشار کی راہوں سے اپنا رخ موڑ لو، فخر و مباہات کے تاج اتار ڈالو۔ صحیح طریقہ عمل اختیار کرنے میں ۔ کامیاب وہ ہے جو اٹھے تو پر وبال کے ساتھ اٹھے اور نہیں تو (اقتدار کی کرسی ) دوسروں کے لئے چھوڑ بیٹھے اور اس طرح خلق خدا کو بد امنی سے راحت میں رکھے۔ (اس وقت طلبِ خلافت کے لئے کھڑا ہونا ) یہ ایک گندلا پانی اور ایسا لقمہ ہے جو کھانے والے کے گلو گیر ہو کر رہے گا۔ پھلوں کو ان کے پکنے سے پہلے چننے ولا ایسا ہے جیسے دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والا۔ اگر بولتا ہوں تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ دنیوی سلطنت پر مٹے ہوئے ہیں اور چپ رہتا ہوں تو کہتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے۔ افسوس اب یہ بات جب کہ میں ہر طرح کے نشیب و فراز دیکھے بیٹھا ہوں ۔ خدا کی قسم ابو طالب (۲) کا بیٹا موت سے اتنا مانوس ہے کہ بچہ اپنی ماں کی چھاتی سے اتنا مانوس نہیں ہوتا۔ البتہ ایک علم پوشیدہ میرے سینے کی تہوں میں لپٹا ہوا ہے کہ اسے ظاہر کردو ں تو تم اسی طرح پیچ و تاب کھانے لگو جس طرح گہرے کنوؤں میں رسیاں لرزتی اور تھرتھراتی ہیں ۔

----------------------------------------------------------

(۱) جب پیغمبر اکرم کی وفات ہوئی ہے تو ابو سفیان مدینہ میں موجود نہ تھا۔ واپس آرہا تھا کہ راستہ میں اس المناک حادثہ کی اطلا عی ملی۔ فوراً پوچھنے لگا کہ مسلمانوں کی امارت و قیاد ت کس کو ملی ہے اسے بتایا گیا کہ لوگوں نے ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ یہ سن کر عرب کا مانا ہوا فتنہ پرداز سونچ میں پڑ گیا اور آخر ایک تجویز لے کر عباس ابن عبدالمطلب کے پاس آیا اور کہا کہ دیکھو ان لوگوں نے دھاندلی مچا کر خلافت ایک تیمی کے حوالے کر دی اور بنی ہاشم کو ہمیشہ کے لئے محروم کر دیا اور یہ اپنے بعد بنی عدی کے ایک درشت خودتندمزاج کو ہمارے سروں پر مسلط کر جائے گا۔ چلو علی ابن ِ ابی طالب سے کہیں کہ وہ گھر کا گوشہ چھوڑیں اور اپنا حق لینے کے لیے میدان میں اتر آئیں ۔ چنانچہ وہ عباس کو ہمراہ لے کر حضرت کے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہاتھ بڑھائیں ۔ میں آپ کی بیعت کرتا ہوں ۔ اور کوئی مخالفت کے لئے اٹھا تو میں مدینہ کے گلی کوچوں کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں گا۔ امیرالمومنین کے لیے یہ انتہائی نازک مرحلہ تھا۔ وہ اپنے کو پیغمبر کا صحیح وارث و جانشین سمجھتے تھے اور ابو سفیان ایسا جتھے قبیلے والا امداد کے لیے آمادہ کھڑا تھا۔ صرف ایک اشارہ کافی تھا کہ جنگ کے شعلے بھڑکنے لگتے ، مگر امیر الموٴمنین  کے تدبر و اصابت رائے نے مسلمانوں کو فتنہ سے بچا لیا اور آپ کی دور رس نظروں نے بھانپ لیا کہ یہ قبائلی تعصب اور نسلی امتیاز کو اُبھا ر کر آپس میں لڑوانا چاہتا ہے تاکہ اسلام میں ایک ایسا زلزلہ آئے جو اس کی بنیاد تک کو ہلا دے، لہذا آپ نے اس کی رائے کو ٹھکرا کر اسے سختی سے جھڑکا اور اس موقع پر یہ کلمات ارشاد فرمائے جن میں لوگوں کو فتہ انگیزیوں اور بیجا سربلندیوں سے روکا ہے اور اپنا موقف یہ بتایا ہے کہ میرے لئے دوہی صورتیں ہیں یا تو جنگ کے لیے اٹھ کھڑا ہوں یا اپنے حق سے دستبردار ہو کر ایک گوشہ میں چپکے سے بیٹھ جاؤں ۔ اگر جنگ کے لیے کھڑا ہوتا ہوں تو کوئی یارو مدد گار دکھائی نہیں دیتا کہ ان ابھرنے والے فتنوں کو دبا سکوں ۔ اب یہی چارہٴ کار ہے کہ خاموشی سے وقت کا انتظار کروں یہاں تک کہ حالات سازگار ہوں ۔
اس موقع پر امیرالموٴمنین کی خاموشی مصلحت بینی و دُور اندیشی کی آئینہ دار تھی، کیونکہ ان حالات میں اگر مدینہ مرکز جنگ بن جاتا تو اس کی آگ تمام عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ مہاجرین و انصار میں جس رنجش و چپقلش کی ابتداء ہو چکی تھی وہ بڑھ کر اپنی انتہا کو پہنچتی۔ منافقین کی ریشہ دوانیاں اپنا کام کرتیں اور اسلام کی کشتی ایسے گرداب میں جا پڑتی کہ اس کا سنبھلنا مشکل ہو جاتا ۔ اس لئے امیرالمونین  نے دکھ سہے، کڑیاں جھیلیں ، مگر ہاتھوں کو جنبش نہیں دی۔ تاریخ شاہد ہے کہ پیغمبر نے مکہ کی زندگی میں ہر طرح کی تکلیفیں اور زحمتیں برداشت کیں ، مگر صبرو استقلال کو چھوڑ کر لڑنے الجھنے کے لیے تیار نہ ہوئے، چونکہ آپ جانتے تھے کہ اگر اس وقت جنگ چھڑ گئی تو اسلام کے پھلنے پھولنے کی راہیں بند ہو جائیں گی، البتہ جب پشت پر اتنے اعوان و انصار ہو لیے کہ جو کفر کی طغیانیوں کو دبانے اور فتنوں کو کچلنے کی طاقت رکھتے تھے تو دشمن کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اسی طرح امیرالموٴمنین  پیغمبر کی سیرت کو مشعل راہ بناتے ہوئے تلوار کی قوت اور دست وبازو کے زور کا مظاہرہ نہیں کرتے، چونکہ آپ سمجھ رہے تھے کہ دشمن کے مقابلہ میں بے یارو مدد گار اٹھ کھڑا ہونا کامرانی و کامیابی کے بجائے شورش انگیزی و زیاں کاری کا سبب بن جائے گا۔ اس لیے اس موقع کے لحاظ سے طلب ِ امارت کو ایک گندلے پانی اور گلے میں پھنس جانے والے لقمہ سے تشبہہ دی، چنانچہ جن لوگوں نے چھینا جھپٹی کر کے اس لقمہ کو چھین لیا تھا اور ٹھونس کر اسے نگل لینا چاہا ، ان کے گلے میں بھی یہ لقمہ اٹک کر رہ گیا نہ نگلتے بنتی تھی اور نہ اگلتے بنتی تھی۔ ، یعنی نہ تو وہ اسے سنبھال سکتے تھے جیسا کہ ان لغزشوں سے ظاہر ہے جو اسلامی احکام کے سلسلے میں کھائی جاتی تھیں اور نہ یہ پھندااپنے گلے سے اتار نے کے لیے تیار ہوتے تھے۔ پھر اسی مطلب کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان فرمایا ہے کہ اگر میں ان ناساز گار حالات میں خلافت کے ثمر نا رسیدہ کو توڑنے کی کوشش کرتا تو اس سے باغ بھی اجڑتا اور میرے ہاتھ بھی کچھ نہ آتا ۔ جیسے کہ ان لوگوں کی حالت ہے کہ غیر کی زمین میں کھیتی تو کر بیٹھے مگر نہ اس کی حفاظت کر سکے نہ جانوروں سے اسے بچا سکے۔ نہ وقت پر پانی دے سکے اور نہ اس سے کوئی جنس حاصل کر سکے ، بلکہ ان لوگوں کی تو یہ حالت ہے کہ اگر کہتا ہوں کہ اس زمین کو خالی کر و تاکہ اس کا مالک خود کاشت کرے اور خود نگہداشت کرے تو یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کتنے حریص اور لالچی ہیں اور چپ رہتے ہیں تو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ موت سے ڈر گئے ہیں ۔ بھلا یہ تو بتائیں کہ میں کس موقعہ پر ڈرا اور کب جان بچا کر میدان سے بھاگا ، جبکہ ہر چھوٹا بڑا معرکہ میری بے جگری کا شاہد اور میری جراٴت و ہمت کا گواہ ہے جو تلواروں سے کھیلے اور پہاڑوں سے ٹکرائے وہ موت سے نہیں ڈر ا کرتا ۔ میں تو موت سے اتنا مانوس ہوں کہ بچہ ماں کی چھاتی سے بھی اتنا مانوس نہیں ہوتا۔ سنو! میرے چپ رہنے کیوجہ سے وہ علم ہے جو پیغمبر نے میرے سینے میں ودیعت فرمایا ہے ۔ اگر ابھی سے اسے ظاہر کردوں تو تم سراسیمہ و مضطرب ہو جاؤ گئے، کچھ دن گزرنے دو تو تم خود میری خاموشی کی وجہ جان لو گے اور دیکھ لو گے کہ اسلام کے نام پر کیسے کیسے لوگ اس مسند پر آئیں گے اور کیا کیا تباہیاں مچائیں گے۔ میری خاموشی کا یہی سبب ہے کہ یہ ہو رکر رہے گا، ورنہ بے وجہ خاموشی نہیں ۔
خموشی معنیٴ وارد کہ در گفتن نمی آید
(۲) موت کے متعلق فرماتے ہیں کہ مجھے اتنی محبوب ہے کہ بچے اپنی ماں کی آغوش میں اپنے سر چشمہٴ غذا کی طرف ہمک کر بڑھنا اتنا محبوب نہیں ہوتا، کیونکہ ماں کی چھاتی سے بچے کا انس ایک طبعی تقاضے کے زیر ِ اثر ہوتا ہے اور طبعی تقاضے سن کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں ، چنانچہ زمانہ رضاعت کا محدود عرصہ گزارنے کے بعد جب اس کی طبیعت پلٹا کھاتی ہے تو جس سے مانوس رہتا ہے پھر اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا اور نفرت سے منہ پھیر لیتا ہے ، لیکن لقائے پروردگار سے انبیاء اولیاء کا انس عقلی و روحانی ہوتا ہے اور عقلی و روحانی تقاضے بدلا نہیں کرتے اوران میں ضعف و انحطاط آیا کرتا ہے ، چونکہ موت لقائے پروردگار کا ذریعہ اور اس منزل کا پہلا زینہ ہے ۔ اس لیے موت سے بھی ان کی شیفتگی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ اس کی سختیاں ان کے لیے راحت کا سازو سامان اور اس کی تلخیاں ان کے کام و دہن کے لیے لذت اندوزی کا سروسامان بن جایا کرتی ہیں اورا س سے ان کا انس ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ پیاسے کا کنویں سے اور بھٹکے ہوئے مسافر کا منزل سے ، چنانچہ امیرالمومنین  جب ابن ملجم کے قاتلانہ حملے سے مجروح ہوئے تو فرمایا کہ ” میں موت کا چشمہ لگاتار ڈھونڈ رہا تھا کہ اس کے گھاٹ پر آپہنچا اور اسی منزل کی طلب و تلاش میں تھا کہ اسے پالیا اور نیکو کاروں کے لیے اللہ کے یہاں کی نعمتوں سے بڑھ چڑھ کر کیا ہو سکتا ہے اور پیغمبر اکرم کا بھی ارشاد ہے کہ لیس للمومن راحة ودن لقاء اللہ لقائے ربانی کے علاوہ مومن کہیں پر راحت کا سروسامان نہیں ہے۔