Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، فیصلہ کرنے کی آفت، لالچ اور طمع ہے غررالحکم حدیث3936

نہج البلاغہ خطبات

شبہ کو شبہ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے شباہت رکھتا ہے، تو جو دوستانِ خدا ہوتے ہیں ، ان کےلیے شبہات (کے اندھیروں ) میں یقین اُجالے کا اور یدائت کی سمت رہنما کا کام دیتی ہے۔ اور جو دشمنانِ خدا ہیں وہ ان شبہات میں گمراہی کی دعوت و تبلیغ کرتے ہیں ، اور کوری و بےبصری ان کی رہبر ہوتی ہے۔ موت وہ چیز ہے کہ ڈرنے والا اس سے چھٹکارا نہیں پا سکتا اور ہمیشہ کی زندگی چاہنے والا ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔

میرا ایسے لوگوں سے سابقہ پڑا ہے جنہیں حکم دیتا ہوں تو مانتے نہیں ۔ بلاتا ہوں ، تو آواز پر لبیک نہیں کہتے۔ تمہارا بُرا ہو۔ اب اپنے اللہ کی نصرت کرنے میں تمہیں کس چیز کا انتظار ہے۔ کیا دین تمہیں ایک جگہ اکھٹا نہیں کرتا اور غیرت و حمیت تمہیں جوش میں نہیں لاتی؟میں تم میں کھڑا ہو کر چلاتا ہوں اور مدد کے لیے پکارا ہوں ، لیکن تم نہ میری کوئی بات سنتے ہو، نہ میرا کوئی حکم مانتے ہو یہاں تک کہ ان نافرمانیوں کے بُرے نتائج کھل کر سامنے آجائیں ۔ نہ تمہارے ذریعے خون کا بدلا لیا جا سکتا ہے، نہ کسی مقصد تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میں نے تم کو تمہارے ہی بھائیوں کی مدد کے لیے پکارا تھا۔ مگر تم اس اونٹ کی طرح بلبلا نے لگے۔ جس کی ناف میں درد ہو رہا ہو، اور اس لاغر کمزور شتر کی طرح ڈھیلے پڑ گئے جس کی پیٹھ زخمی ہو پھر میرے پاس تم لوگوں کی ایک چھوٹی سی متزلزل و کمزور فوج آئی۔ اس عالم میں کہ گویا اسے اس کی نظروں کے سامنے موت کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔

سید رضی فرماتے ہیں کہ اس خطبہ میں جو لفظ "متذاےب"آیا ہے، اس کے معنی مضطرب کے ہیں ۔ جب ہوائیں بل کھاتی ہوئی چلتی ہیں ، تو عرب اس موقعہ پر "تذائبت الریح" بولتے ہیں اور بھیڑ یئے کو بھی ذئب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی چال میں ایک اضطرابی کیفیت ہوتی ہے۔معاویہ نے مقامِ مین التمر پر دھاوا بولنے کے لیے دو ہزار سپاہیوں کا ایک دستہ نعمان ابنِ بشیر کی سر کردگی میں بھیجا۔ یہ جگہ کوفہ کے قریب امیرالمومنین کا ایک دفاعی مورچہ تھی۔ جس کے نگران مالک ابن کعب ارحبی تھے۔ گو ان کے ماتحت ایک ہزار جنگجو افراد تھے۔ مگر اس موقعہ پر صرف سو ۱۰۰ آدمی وہاں موجود تھے۔ جب مالک نے حملہ آور لشکر کو برھتے دیکھا تو امیرالمومنین کو کمک کے لیے تحریر کیا جب امیرا لمومنین کو یہ پیغام ملا ہے ، تو آپ نے لوگوں کو ان کی امداد کے لیے کہا، مگر صرف تین سو آدمی آمادہ ہوئے ۔ جس سے حضرت بہت بد دل ہوئے اور انہیں زجرو توبیخ کرتے ہوئے یہ خطبہ ارشاد فرمایا۔ حضرت خطبہ دینے کے بعد جب مکان پر پہنچے، تو عدی ابن حاتم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا امیرالمومنین میرے ہاتھ میں بنی طے کے ایک ہزار افراد میں اگر آپ حکم دیں تو انہیں روانہ کر دوں ؟ حضرت نے فرمایا کہ یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دشمن کے سامنے ایک ہی قبیلہ کے لوگ پیش کیے جائیں ۔ تم وادی نخیلہ میں جا کر لشکر بندی کرو۔ چنانچہ انہوں نے وہاں پہنچ کر لوگو ں کو جہاد کی دعوت دی ، تو بنی طے کے علاوہ ایک ہزار اور جنگ آزما جمع ہو گئے۔ یہ ابھی کوچ کیتیاریکر ہی رہے تھےکہ مالک ابنِ کعب کا پیغام آگیا کہ اب مدد کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم نے دشمن کو مار بھگایا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہوئی تھی کہ مالک نے عبداللہ ابن جوزہ کو قرظہ ابنِ کعب اور مخنف ابنِ سلیم کے پاس دوڑا دیا تھا کہ اگر کوفہ سے مدد آنے میں تاخیرہو تو یہاں سے بر وقت امداد مل سکے۔ چنانچہ عبداللہ دونوں کے پاس گیا مگر قرظہ سے کوئی امداد نہ مل سکی۔ البتہ مخنف ابنِ سلیم نے پچاس آدمی عبدالرحمن ابنِ مخنف کے ہمراہ تیار کیے، جو عصر کے قریب وہاں پہنچے۔ اس وقت تک یہ دو ہزار آدمی مالک کے سو آدمیوں کو پسپا نہ کر سکے تھے۔ جب نعمان نے ان پچاس آدمیوں کو دیکھا ، تو یہ خیال کیا کہ اب ان کی فوجیں آنا شروع ہو گئی ہیں ۔ لہذا وہ میدان سے بھاگ کھڑا ہوا۔ مالک نے ان کے جاتے جاتے بھی عقب سے حملہ کر کے ان کے تین آدمیوں کو مار ڈالا۔خطبہ ۴۰:خوارج کے قول " لاحکم الا للہ" کے جواب میں فرمایا

خطبہ 39: جنگ جی چرانے والوں کی مذمت میں