Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، ایک شخص کسی مومن کو غمگین کرنے کے بعد اسے تمام دنیا بھی عطا کردے تب بھی یہ اس کا کفارہ نہیں ہوسکتا اور نہ اسے کوئی اجر ملے گا بحارالانوار ج72ص150،تتمۃ کتاب العشرۃ، تتمۃ ابواب حقوق المومنین، باب57من أخاف مومناً، مستدرک الوسائل حدیث10336

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ29: جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا

اے وہ لوگو جن کے جسم یکجا اور خواہشین جُدا جُدا ہیں تمہاری باتیں تو سخت پتھروں کو بھی نرم کر دیتی ہیں ، اور تمہارا عمل ایسا ہے کہ جو دشمنوں کو تم پر دندان آز تیز کرنے کا موقعہ دیتا ہے ۔ اپنی مجلسوں میں تو تم کہتے پھرتے ہو کہ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے فاور جب جنگ چھڑ ہی جاتی ہے ، تو تم اس سے پناہ مانگنے لگتے ہو، جو تم کو مدد کے لئے پکارے اس کی صدابے دقعت اور جس کا تم جیسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہو، اس کا دل ہمیشہ بے چین ہے ۔ حیلے حوالے ہیں غلط سلط اور مجھ سے جنگ میں تاخیر کرنے کی خواہشیں ہیں ۔ جیسے نادہند مقروض اپنے قرض خواہ کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھا م نہیں کر سکتا اور حق تو بغیر کوشش کے نہیں ملا کرتا۔ اس گھر کے بعد اور کون سا گھر ہے ۔ جس کی حفاظت کرو گے اور میرے بعد اور کس امام کے ساتھ ہو کر جہاد کرو گے۔ خدا کی قسم جسے تم نے دھوکا دے دیا ہو اس کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور جسے تم جیسے لوگ ملے ہوں تو اس کے حصہ میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے اور جس نے تم کو (تیروں کی طرح ) دشمنوں پر پھینکا ہو، اس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے ، جس کا سوفار لُوٹ چکا ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو ۔ خدا کی قسم ! میری کیفیت تو اب یہ ہے نہ میں تمہاری کسی بات کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی آس مجھے باقی رہی ، اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں ۔ تمہیں کیا ہو گیا، تمہارا مرض کیا ہے اور اس کا چارہ کیا ہے اس قوم (اہلِ شام ) کے افراد بھی تو تمہاری ہی شک و صورت کے مرد ہیں ، کیا باتیں ہی باتیں رہیں گی ۔ جانے بُوجھے بغیر اور صرف غفلت و مدہوشی ہے ۔ تقویٰ و پرہیز گاری کے بغیر (بلندی کی) حرص ہی حرص ہے ۔ مگر بالکل ناحق۔

(۱) جنگ نہر دان کے بعد معاویہ نے ضحاک ابن قیس فہری کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ اطراف ِ کوفہ میں اس مقصد سے بھیجا کہ وہ ان نواحی میں شورش و انتشار پھیلائے ، اور جسے پائے اسے قتل کر دے اور جہاں تک ہو سکے قتل و غارت کا بازار گرم کرے تاکہ امیر الموٴمنین سکون و اطمینان سے نہ بیٹھ سکیں ۔ چنانچہ وہ اس مقصد کو سر انجام دینے کے لئے روانہ ہوا، اور بے گناہوں کے خون بہاتا ہوا، اور ہر طرف تباہی مچاتا ہوا مقام ثعلبیہ تک پہنچ گیا۔ یہاں پر حجاج کے ایک قافلہ پر حملہ کیا اور ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور پھر مقامِقطقطانہ پر صحابی رسول ﷺ عبداللہ ابن مسعود کے بھتیجے عمر و ابن عمیس اور ان کے ساتھیوں کو تہ تیغ کر دیا اور یُونہی ہر جگہ وحشت و خونخواری شروع کر دی ۔ امیر الموٴمنین  کو جب ان غارت گریوں کا علم ہوا، تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جنگ کے لئے بلایا تاکہ ان درندگیوں کی روک تھام کی جائے۔ مگر لوگ جنگ سے پہلو بچاتے ہوئے نظر آئے۔ آپ ان لوگوں کی سست قدمی و بددلی سے متاثر ہو کر منبر پر تشریف لے گئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ان لوگوں کو غیرت دلائی ہے کہ وہ بزدلوں کی طرح جنگ سے بچنے کی کوشش نہ کریں ، اور اپنے ملک کی حفاظت کے لئے جوانمردوں کی طرح اُٹھ کھڑے ہوں ، اور غلط سلط حیلے حوالوں سے کام نہ لیں ۔ آخر حجر ابن عدی کندی چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ دشمن کی سرکوبی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور مقام تدمر پر اسے جا لیا۔ ابھی دونوں فریق میں معمولی سی چھڑپ ہوئی تھی کہ رات کا اندھیرا پھیلنے لگا ، اور وہ صرف انیس آدمی کٹوا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ امر الموٴمنین  کی فوج میں سے بھی دو آدمیوں نے جامِ شہادت پیا۔