Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جو مجھ سے محبت کرتا ہے اسے میرے ان دونوں بیٹوں سے (بھی) محبت کرنا ہوگی، کیونکہ اللہ نے مجھے ان کی محبت کا حکم دیا ہے بحارالانوارکتاب تاریخ فاطمۃ ؑوالحسن ؑ والحسین ؑ باب12

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 218: ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا

امیرالمومنین[ع]نے آیت الہکم التکاثر حتیّٰ زرتم المقابر(تمہیں قوم قبیلے کی کثرت پر اترانے نے غافل کردیا یہاں تک کہ تم نے قبریں دیکھ ڈالیں )کی تلاوت (۱) کرنے کے بعد فرمایا:۔

دیکھو تو ان بوسیدہ ہڈیوں پر فخر کرنے والوں کا مقصد کتنا دور از عقل ہے ،او ریہ قبروں پر آنے والے کتنے غافل و بے خبر ہیں اور یہ مہم کتنی سخت و دشوار ہے ۔انہوں نے مرنے والوں کی کیسی کیسی عبرت آمو ز چیزوں سے خالی سمجھ لیا او ردور دراز جگہ سے انہیں (سرمایہ افتخار بنانے کے لئے)لے لیا ۔کیا یہ اپنے باپ داداؤں کی لاشوں پر فخر کرتے ہیں ۔یا ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے اپنی کثرت میں اضافہ محسوس کرتے ہیں ،وہ ان جسموں کوپلٹانا چاہتے ہیں وجوبے روح ہوچکے ہیں او ران جنبشوں کو لوٹانا چاہتے ہیں جو تھم چکی ہیں ۔وہ سبب افتخار بننے سے زیادہ سامان عبرت بننے کے قابل ہیں ۔ان کی وجہ سے عجز و فروتنی کی جگہ پراترنا ،عزت و سر فرازی کے مقام پرٹھہرنے سے زیادہ مناسب ہے۔انہوں نے چند ھیائی ہوئی آنکھوں سے انہیں دیکھا اور ان سے (عبرت لینے کی بجائے) جہالت کے گہراؤ میں اتر پڑے ۔اگر وہ ان کی سر گذشت کو ٹوٹے ہوئے مکانوں اور خالی گھروں کے صحنوں سے پوچھیں تو وہ کہیں گے کہ وہ گمراہی کی حالت میں زمین کے اندر چلے گئے اور تم بھی بے خبری و جہالت کے عالم میں ان کے عقب میں بڑھے جا رہے ہو،تم ان کی کھوپڑیوں کو روندتے ہو، اور ان کے جسموں کی جگہ پر عمارتیں کھڑی کرنا چاہتے ہو ،جس چیز کو انہوں چھوڑدیا ہے ،اس میں چر رہے ہو او رجسے وہ خالی چھوڑ کر چلے گئے ہیں ۔اس میں آبسے ہو ،او ر یہ دن بھی تمہارے اور ان کے درمیان ہیں تم پر رو رہے ہیں اور نوحہ پڑھ رہے ہیں ۔تمہاری منزل منتہا پر پہلے سے پہنچ جانے والے اورتمہارے سر چشموں پر قبل سے وارد ہونے والے وہی لوگ ہیں جن کے لئے عزت کی منزلیں تھیں اور فخر و سر بلندی کی فراوانی تھی کچھ تاجدار تھے کچھ دوسرے درجہ کے بلند نصب مگر اب تو وہ برزخ کی گہرائیوں میں راہ پیما ہیں کہ جہاں زمین ان پر مسلّط کردی گئی ہے جس نے ان کا گوشت کھا لیا ہے اورلہو چوس لیا ہے۔چنانچہ وہ قبر کے شگافوں میں نشو ونما کھو کر جماد کی صورت میں پڑے ہیں او ریوں نظر وں سے اوجھل ہو گئے ہیں کہ(ڈھونڈھے سے) نہیں ملتے ۔نہ پر ہول خطرا ت کا آنا انہیں خوفزدہ کرتا ہے نہ حالات کا انقلا ب انہیں اندوہناک بنا تا ہے ،نہ زلزلوں کی پروا کرتے ہیں ،نہ رعد کی کڑک پر کان دھرتے ہیں وہ ایسے غائب ہیں کہ جن کا انتظار نہیں کیا جا تا اور ایسے موجود ہیں کہ سامنے نہیں آتے وہ مل جل کر رہتے تھے جو اب بکھر گئے ہیں اور اب آپس میں میل محبت رکھتے ہیں ،جو اب جدا ہوگئے ہیں ان کے گھرو ں کی خاموشی امتدا دزمانہ اور دوسری منزل کی وجہ سے نہیں بلکہ انہیں (موت کا )ایسا ساغر پلا دیا گیا ہے کہ جس نے ان کی گویائی چھین کر انہیں گونگا بنا دیا اور قوت شنوائی سلب کر کے بہر ا کر دیا ہے اور ا ن کی حرکت و جنبش کو سکو ن و بے حسی سے بدل دیا ہے گویا کہ وہ سرسری نظر میں یو ں دکھائی دیتے ہیں جیسے نیند میں لیٹے ہوئے ہوں ۔وہ ایسے ہمسائے ہیں جو ایک دوسرے سے انس ومحبت کا لگاؤ نہیں رکھتے اور ایسے دوست ہیں جو آپس میں ملتے ملاتے نہیں ۔ان کے جان پہچان کے ر ابطے بوسیدہ ہوچکے ہیں اور بھائی بندی کے سلسلے ٹوٹ گئے ہیں ۔وہ ایک ساتھ ہوتے ہوئے پھر اکیلے ہیں ،او ر دوست ہوتے ہوئے پھر علیحدہ و جدا ہیں ۔یہ لوگ شب ہو تو اس کی صبح سے بے خبر ،دن ہو تو اس کی شام سے ناآشنا ہیں ۔جس (۲) رات یا جس دن میں انہوں نے رخت سفر باندھا ہے وہ ساعت ان پر ہمیشہ اور یکساں رہنے والی ہے ۔انہوں نے منزل آخرت کی ہولناکیوں کو اس سے بھی زیادہ ہولناک پایا ۔جتنا انہیں ڈر تھا او ر وہاں کے آثا ر کو اس سے عظیم تردیکھا جتنا کہ وہ اندازہ لگاتے تھے (مومنوں اور کافروں کی)منزل انتہا کو جائے با ز گشت (دوزخ وجنت تک پھیلا دیا گیاہے ۔وہ کافروں کے لئے)ہردرجہ خوف سے بالا تر اور(مومنوں کے لئے)ہر درجہ امید سے بالا ترہے،اگر وہ بول سکتے ہوتے جب بھی دیکھی ہوئی چیزوں کے بیان سے ان کی زبانیں گنگ ہوجاتیں ۔اگرچہ ان کے نشانات مٹ چکے ہیں اور ان کی خبروں کا سلسلہ قطع ہوچکا ہے۔لیکن چشم بصیرت انہیں دیکھتی او رگوش عقل و خروان کی سنتے ہیں ،وہ بولے مگر نطق و کلام کے طریقہ پر نہیں بلکہ انہوں نے زبان حال سے کہا شگفتہ چہرے بگڑ گئے ۔نرم و نا زک بدن مٹی میں مل گئے اور ہم نے بوسیدہ کفن پہن رکھا ہے اور قبر کی تنگی نے ہمیں عاجز کردیاہے ۔خوف و دہشت کا ایک دوسرے سے ورثہ پایا ہے۔ہماری خاموش منزلیں ویران ہوگئیں ہمارے جسم کی رعنائیاں مٹ گئیں ۔ہماری جانی پہچانی ہوئی صورتیں بدل گئیں ۔ان وحشت کدوں میں ہماری مدت رہائش دراز ہو گئی ۔نہ بے چینی سے چھٹکار ا نصیب ہے ۔نہ تنگی سے فراخی حاصل ہے ۔اب اس عالم میں کہ جب کیڑوں کی وجہ سے ان کے کان سماعت کو کھو کر بہرے ہو چکے ہیں ۔او ران کی آنکھیں خاک کا سرمہ لگا کر اندرکو دھنس چکی ہیں اور ان کے منہ میں زبانیں طلاقت و روانی دکھانے کے بعد پارہ پارہ ہوچکی ہیں اور سینوں میں دل چوکنا رہنے کے بعدبے حرکت ہو چکے ہےں ۔او ر ان کے ایک ایک عضو کو نت نئی بو سیدگیوں نے تباہ کرکے بدہیت بنا دیا ہے او راس حالت میں کہ وہ (ہر مصیبت سہنے کے لئے)بلا مزاحمت آمادہ ہیں ۔ان کی طرف آفتوں کا راستہ ہموار کردیا ہے ،نہ کوئی ہاتھ ہے جو ان کا بچاؤ کرے او ر نہ (پسیجنے والے )دل ہیں جو بے چین ہوجائیں ،اگر تم اپنی عقلوں میں ان کا نقشہ جماؤ،یا یہ کہ تمہا رے سامنے سے ان پر پڑا ہو ا پردہ ہٹا دیا جائے تو البتہ تم ان کے دلوں کے ا ندوہ اور آنکھوں میں پڑے ہوئے خس و خاشاک کو دیکھو گے کہ ان پرشدت و سختی کی ایسی حالت ہے کہ وہ بدلتی نہیں اور ایسی مصیبت و جان کا ہی ہے کہ ہٹنے کانام ہی نہیں لیتی ،اور تمہیں معلوم ہوگا کہ زمین نے کتنے باوقار جسموں اور دلفریب رنگ وروپ کو کھا لیا جو رنج کی گھڑیوں میں بھی مسرت انگیز چہروں سے دل بہلاتے تھے ۔اگر کو ئی مصیبت ان پر آن پڑتی تھی تو اپنے عیش کی تازگیوں پر للچائے رہنے اور کھیل تفر یح پرفریفتہ ہونے کی وجہ سے خوش وقتیوں کے سہارے ڈھونڈ تے تھے ا سی دوران میں کہ وہ غافل و مدہوش کرنے والی زندگی کی چھاؤں میں دنیا کو دیکھ کر ہنس رہے تھے،اور دنیا انہیں دیکھ دیکھ کر قہقہے لگا رہی تھی کہ اچانک زمانہ نے انہیں کانٹو ں کی طرح روند دیا اور ان کے سارے زور توڑ دیئے اور قریب ہی سے موت کی نظریں ان پر پڑنے لگیں او ر ایسا غم و اندوہ ان پر طاری ہوا کہ جس سے وہ آشنا نہ تھے اور ایسے اندرونی قلق میں مبتلا ہوئے کہ جس سے کبھی سابقہ نہ پڑ ا تھا ۔ا ور اس حالت میں کہ وہ صحت سے بہت زیادہ مانوس تھے ۔ان میں مرض کی کمزوریاں پیدا ہوگئیں تو اب انہوں نے انہی چیزوں کی طرف رجوع کیا جن کا طبیبوں نے انہیں عادی بنا رکھا تھا کہ گرمی کے زور کو سرد دواؤں سے سے ہٹایا جائے اور سردی کو گرم دواؤں سے فردکیاجائے مگر سردواؤں نے گرمی کو بجھان کی بجائے اور بھڑکا دیا اور گرم دواؤں نے ٹھنڈک کو ہٹانے کی بجائے اس کا جوش اور بڑھا دیا او رنہ ان طبیعتوں میں مخلوط ہو نے والی چیزوں سے ان کے مزاج نقطہ اعتدال پرآئے ۔بلکہ ان چیزوں نے ہر عضو ماؤف کا آزاد اور بڑھا دیا ۔یہاں تک کہ چارہ گر سست پڑگئے ۔تیما ردار (مایوس ہوکر)غفلت برتنے لگے ۔ گھر والے مرض کی حالت بیان کرنے سے عاجز آگئے او ر مزاج پرسی کرنے والوں کے جواب سے خاموشی اختیار کر لی اور اس سے چھپاتے ہوئے اس اند و ہناک خبر کے بارے میں اختلا ف رائے کرنے لگے ۔ایک کہنے والا یہ کہتا تھا کہ اس کی حالت جو ہے سو ظاہر ہے او ر ایک صحت و تندرستی کے پلٹ آنے کی امید دلاتا تھا اور ایک اس کی (ہونے والی)موت پر انہیں صبر کی تلقین کرتا اور اس سے پہلے گزر جانے والوں کی مصیبتیں انہیں یاد دلاتا تھا ۔اسی اثنا میں کہ وہ دنیا سے جانے اور دوستوں کو چھوڑنے کے لئے پرتول رہا تھا کہ ناگاہ گلوگیر پھندوں میں سے ایک ایسا پھندہ اسے لگا کہ اس کے ہوش و حواس پاشان و پریشان ہوگئے اور زبان کی تری خشک ہو گئی اور کتنے ہی مہم سوالات تھے کہ جن کے جواب وہ جانتا تھا ۔مگر بیان کرنے سے عاجز ہوگیا اور کتنی ہی دل سو ز صدائیں اس کے کا ن سے ٹکرائیں کہ جن کے سننے سے بہرہ ہوگیا وہ آوازیا کسی ایسے بزرگ کی ہوتی تھی جس کا وہ بڑا احترام کر تا تھا ،یا کسی ایسے خورد سال کی ہوتی تھی جس پر یہ مہربان و شفیق تھا موت کی سختیاں اتنی ہیں کہ مشکل ہے کہ دائرہ بیان میں آسکیں یا اہل دنیا کی عقلوں کے اندازہ پر پوری اتر سکیں ۔

۱۔ اس آیت کی شان نزول یہ ہے کہ بنی عبد مناف اور بنیسہم مال و دولت کی فراوانی او ر افراد قبیلہ کی کثرت پر آپس میں تفاخر کرنے لگے او ر ہر ایک اپنی کثرت دکھانے کے لئے اپنے مردوں کو بھی شمار کرنے لگا جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ تمہیں مال واولاد کی کثرت نے غافل کر دیا ہے ۔یہاں تک کہ تم نے زندوں کے ساتھ مردوں کو بھی شمار کرنا شروع کردیا ہے ۔اس آیت کے ایک معنی یہ بھی کہے گئے ہیں کہ مال واولاد کی فراوانی نے تمہیں غافل کردیا ہے ،یہاں تک کہ تم مر کر قبروں تک پہنچ گئے ۔مگر امیرالمومنین[ع]کے ارشاد سے پہلے معنی کی تائید ہوتی ہے۔

۲۔ مطلب یہ کہ جو دن کے وقت مرتے ہیں ان کی نگاہوں میں ہمیشہ دن ہی رہتا ہے اور جو رات کے وقت مرتے ہیں ان کے لئے را ت کا اندھیر ا نہیں چھٹتا ۔کیونکہ وہ ایسے مقام پر ہیں جہاں چاند ،سورج کی گردش کا اور شب و روز کا چکر نہیں ہوتا ا س مضمون کو ایک شاعر نے اس طرح ادا کیا ہے۔

لابد من یوم بلا لیلة اولیلةتاتی بلایوم

پھر اجالی رات کامنظر نہ دیکھے گا یہ دن صبح کا جلوہ نہ دیکھے گی کبھی شام فراق