Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، مومنین سے لوگ نیکیوں کی امید رکھتے ہیں اور ان کے شر سے دنیا محفوظ ہوتی ہے۔ غررالحکم حدیث 5981

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 208: اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام

ایک شخص نے آپ سے من گھڑت اور متعارض حدیثوں کے متعلق دریافت کیا جو (عام طو ر سے ) لوگوں کے ہاتھوں میں پائی جاتی ہےں تو آپ نے فرمایا کہ :۔

لوگوں کے ہاتھوں میں حق اور باطل ، سچ اور جھوٹ ،ناسخ اور منسوخ،عام اور خاص ،واضح اور مبہم ،صحیح او رغلط سبھی کچھ ہے ،خود رسو ل صلیٰ اللہ علیہ والہ وسلم کے دور میں آپ پر بہتان لگا ئے گئے یہاں تک کہ آپ کو کھڑے ہو کر خطبہ میں کہنا پڑا کہ جو شخص مجھ پر جا ن بو جھ کر بہتا ن باندھے گا تو وہ اپنا ٹھکا نہ جہنم میں بنا لے تمہارے پاس چار طرح کے لوگ حدیث لانے والے ہیں کہ جن کا پانچواں نہیں ،ایک تو وہ جس کا ظاہر کچھ ہے او ر باطن کچھ وہ ایمان کی نمائش کرتا ہے او رمسلمانوں کی سی وضع قطعہ بنا لیتا ہے ۔نہ گناہ کرنے سے گھبراتا ہے اورنہ کسی افتادمیں پڑ نے سے جھجکتا ہے ۔وہ جان بوجھ کر رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے اگر لوگوں کو پتہ چل جا تا کہ یہ منافق اور جھوٹا ہے ، تو اس سے نہ کوئی حدیث قبول کرتے اور نہ اس کی بات کی تصدیق کرتے لیکن وہ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صحابی ہے اس نے آنحضرت کو دیکھا بھی ہے اور ان سے حدیثیں بھی سنیں ہیں اور آپ سے تحصیل علم بھی کی ہے چنانچہ وہ (بے سوچے سمجھے )اس با ت کو قبول کر لیتے ہیں ۔حالانکہ اللہ نے تمہیں منافقوں کے متعلق خبر دے رکھی ہے اور ان کے رنگ ڈھنگ سے بھی تمہیں آگا ہ کر دیا ہے پھر وہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بھی باقی و بر قرار رہے اور کذب او ر بہتان کے ذریعہ گمراہی کے پیشواؤں اور جہنم کا بلاوہ دینے والوں کے یہاں اثر و رسوخ پیدا کیا ۔چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے ) عہدوں پر لگا یا اور حاکم بنا کر لو گو ں کی گردنوں پر مسلّط کر دیا او ران کے ذریعہ سے اچھی طرح دنیا کو حلق میں اتارا اور لو گوں کا تو یہ قاعدہ ہے ہی کہ وہ بادشاہوں اور دنیا (والوں ) کا ساتھ دیا کرتے ہیں ۔مگر سوا ان (محدودے چند افراد کے) جنہیں اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔

چار میں سے ایک تو یہ ہو ا اور دوسرا شخص وہ ہے جس نے (تھوڑا بہت)رسول اللہ سے سنا لیکن جوں کا توں اسے یاد نہ رکھ سکا او راس میں اسے سہو ہوگیا ۔یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتا یہی کچھ اس کے دسترس میں ہے اسے ہی دوسروں سے بیان کرتا ہے اور اسی پر خود بھی عمل پیرا ہوتا ہے اور کہتا بھی یہی ہے کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے ۔اگر مسلمانو ں کو یہ خبر ہو جاتی کہ اس کی یادداشت میں بھول چوک ہو گئی ہے تو و ہ اس کی بات کو نہ مانتے اور اگر خودبھی اسے اس کا علم ہو جاتا تو اسے چھوڑدیتا ۔

تیسرا شخص وہ ہے کہ جس نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سنا آپ نے ایک چیز کے بجالا نے کاحکم دیا ہے ۔پھر پیغمبر نے تو اس سے روک دیا ۔لیکن یہ اسے معلوم نہ ہو سکا یا یوں کہ اس نے پیغمبر کو ایک چیز سے منع کرتے ہوئے سنا پھر آپ نے اس کی اجازت دے دی لیکن ا س کے علم میں یہ چیز نہ آسکی ا س نے(قول )منسوخ کو یاد رکھا اور (حدیث )ناسخ کو محفوظ نہ رکھ سکا ۔اگر اسے خود معلوم ہو جا تا کہ یہ منسو خ ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا اور مسلمانوں کو بھی اس کے منسوخ ہو جانے کی خبر ہو تی تو وہ بھی اسے نظر انداز کر دیتے ۔

اور چوتھا شخص وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ نہیں باندھتا ۔وہ خوف خدا اور عظمت رسول اللہ کے پیش نظر کذب سے نفرت کرتا ہے اس کی یاد داشت میں غلطی واقع نہیں ہو تی بلکہ جس طرح سنا اسی طرح اسے یاد رکھا اور اسی طرح اسے بیان کیا اور نہ اس میں کچھ بڑھایا ۔نہ اس میں سے کچھ گھٹایا ۔حدیث ناسخ کو یا د رکھا ،تو اس پر عمل بھی کیا ،حدیث منسوخ کو بھی اپنی نظر میں رکھا ۔او ر اس سے اجتناب برتا ،وہ اس حدیث کو بھی جانتا ہے جس کا دائرہ محدود اور اسے بھی جو ہمہ گیر اور سب کو شامل ہے اور ہر حدیث کو اس کے محل و مقام پر رکھتا ہے ،اور یوں ہی واضح اور مبہم حدیثو ں کو پہچانتا ہے۔

کبھی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کلام دو رُخ لئے ہو تا تھا ،کچھ کلام وہ جو کسی وقت یا افراد سے مخصوص ہو تا تھا اور کچھ وہ جو تمام اوقات اور تمام افراد کو شامل ہو تا تھا او ر ایسے افراد بھی سن لیا کرتے تھے کہ جو سمجھ ہی نہ سکتے تھے ،کہ اللہ نے اس سے کیا مراد لیا ہے ۔او رپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ا س سے مقصد کیا ہے ۔تو یہ سننے والے اسے سن تو لیتے تھے اور کچھ اس کا مفہوم بھی قرار دے لیتے تھے۔مگر اس کے حقیقی معنی اور مقصد اور وجہ سے ناواقف ہو تے تھے اورا صحاب پیغمبر میں سب ایسے تھے کہ جنہیں آپ سے سوال کر نے کی ہمت ہو ،بلکہ و ہ تو یہ چاہا کرتے تھے کہ کوئی صحرائی بدو یا پردیسی آجائے اور وہ کچھ پوچھیں تو یہ بھی سن لیں مگر میرے سامنے سے کوئی چیز نہ گزرتی تھی ۔مگر یہ کہ میں اس کے متعلق پوچھتا تھا اور پھر اسے یا د رکھتا تھا ۔یہ ہیں لوگوں کی احادیث و روایات میں اختلاف کی وجوہ و اسباب ۔

۱۔ یہ سلیم ابن قیس ہلالی تھے جو امیرالمومنین کے رواة حدیث میں سے ہیں ۔

۲۔ امیرالمومنین[ع]نے اس خطبہ میں رواة حدیث کو چا ر قسموں میں منحصر کیا ہے ۔

پہلی قسم یہ ہے کہ راوی خود سے کسی روایت کو وضع کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردے ۔چنانچہ ایسی روایتیں گھڑ کر آپ کے سر منڈھ دی جاتی تھیں اوریو نہی یہ سلسلہ جاری رہا اورنت نئی ر وایتیں معرض وجود میں آتی رہیں ۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکا رنہیں کیا جاسکتا او ر اگر کوئی انکا ر کر تا ہے تو اس کی بنیاد علم و بصیرت نہیں بلکہ سخن پروری و مناظر انہ ضرورت پرہوتی ہے ۔چنانچہ ایک مرتبہ علم الہدیٰ سیّد مرتضی کو علمائے اہل سنت سے مناظرہ کا اتفا ق ہوا ۔تو سیّد مرتضی نے تاریخی حقائق سے ثابت کیا کہ اکابر صحابہ کے فضائل میں جو روایتیں نقل کی جاتی ہیں وہ خود ساختہ اور جعلی ہیں ۔اس پر ان علماء نے کہا کہ کوئی رسول اللہ پر افترا ء باندھنے کی جرات کرے او راپنی طرف سے کوئی روایت گھڑ کر ان کی طرف منسوب کر دے سیّد مرتضی نے فرمایا کہ پیغمبر کی حدیث ہے ۔

میرے بعد مجھ پر کثرت سے جھوٹ باندھا جا ئے گا۔دیکھو !جو مجھ پر جا ن بوجھ کر جھوٹ باندھے گا ا س کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

تو اگر اس حدیث کو صحیح سمجھتے ہو تو تسلیم کرو کہ پیغمبر پر جھوٹ باندھا گیا ۔او ر غلط ہو نا خود ہمارے دعویٰ کی دلیل ہے ۔بہر صور ت یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں نفا ق بھر ا ہو ا تھا او ر دین میں فتنہ و انتشا ر پید ا کرنے اور کمزور عقیدہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے من گھڑت روایتیں بناتے رہتے تھے او ر جس طرح پیغمبر کے زمانے میں مسلمانوں سے گھلے ملے رہتے تھے اس طرح ان کے بعد بھی ان کے بعد بھی ان میں گھلے ملے رہے اور جس طرح اس وقت فساد و تخریب میں لگے رہتے تھے ۔اسی طرح ان کے بعد بھی اسلام کی تعلیمات کو بگاڑنے اور اس کے نقوش کو مسخ کرنے کی فکر سے غافل نہ تھے بلکہ پیغمبر رہتے تھے کہ کہیں زما نہ میں توڈرے سہمے رہتے تھے کہ کہیں پیغمبر انہیں بے نقاب کر کے رسوا نہ کر دیں مگر آنحضرت کے بعد ان کی منافقانہ سرگرمیاں بڑھ گئیں ۔اور بے جھجک اپنے ذاتی مفاد و اغراض کے لئے پیغمبر پر افترا ء باندھ دےتے تھے او ر سننے والے انہیں صحابی رسول سمجھ کر اعتبار کر لیتے تھے کہ بس جو کہہ دیا ہے وہ صحیح ہے۔اور جو فرمادیا ہے وہ درست ہے اور بعد میں بھی الصحابة کلھم عدول(صحابہ سب کے سب عادل ہیں )کے عقیدہ نے زبانو ں پرپہرا بٹھا دیا کہ جس کی وجہ سے نقد و نظر اور جرح و تعدیل سے انہیں بلند و بالا سمجھ لیا گیا او رپھر ان کے کا رہائے نمایا ں نے انہیں بارگا ہ حکومت میں بھی مقرب بنا رکھا تھا ۔جس کی وجہ سے ان کے خلاف زبان کھولنے کے لئے جرات و ہمت کی ضرورت تھی ۔

چنانچہ امیرالمومنین[ع]کا یہ قول شاہد ہے:۔

ان لوگوں نے کذب وبہتا ن کے ذریعے گمراہی کے پیشواؤں او رجہنم کا بلا و ا دینے والوں کے یہا ں اثرو رسوخ پیدا کیا ۔چنانچہ انہوں نے ان کو (اچھے اچھے ) عہدوں پر لگا یا اور حاکم بنا کر لوگوں کو گردنوں پر مسلّط کر دیا ۔

منافقین کا مقصد اسلام کی تخریب کے ساتھ دنیا کا حاصل کرنا بھی تھا اور وہ انہیں مدعی اسلام بنے رہنے کی وجہ سے پوری افرا وانی حاصل ہو رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اسلا م کی نقاب اتا رکر اپنے اصلی خط و خال میں سامنے آنا نہیں چاہتے تھے اور اسلام ہی کے پردے میں اپنے شیطانی اطوار کو جاری رکھتے تھے اور اس کی بنیادی تخریب کے لئے روایات وضع کرکے انتشار پھیلانے میں لگے رہتے تھے ۔چنانچہ ابن الحدید نے لکھا ہے۔

جب انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا تو انہوں نے بھی بہت سی باتو ں کو چھوڑ دیا او ر جب ان سے خاموشی اختیار کر لی گئی تو انہوں نے بھی اسلام اور اہل اسلام کے بارے میں چپ سادھ لی مگر در پردہ فریب کاریاں عمل میں لاتے رہتے تھے ۔جیسے کذب تراشی کہ جس کی طرف امیرالمومنین[ع]نے ا شار ہ کیا ہے کیو نکہ حدیث میں جھوٹ کی بہت زیادہ آمیزش کردی گئی تھی اور یہ فا سد عقیدہ رکھنے والوں کے ذریعہ سے گمراہی پھیلاتے ۔دلوں میں خدشے اور عقائد میں خرابیاں پیدا کر تے تھے او ر بعض کا مقصد یہ ہو تا تھا کہ وہ ایک جماعت کو بلند کر یں کہ جس سے ان کی دنیاوی اغراض وابستہ ہوتی تھی ۔

اس دور کے گزرنے کے بعد جب معاویہ دین کی راہنمائی اورملک کی قیادت کا ذمہ دار بن کر تخت فرمانروائی پر متمکن ہو ا تو اس نے جعلی روایتیں گھڑنے کا باقاعدہ ایک محکمہ کھو ل دیا اور اپنے کارندوں کو اس پر مامور کیا ۔کہ وہ اہلیبیت اطہار کی تنقیص اور عثمان اور بنی امیہ کے فضائل میں حدیثیں گھڑ کر نشر کریں اوراس کے لئے انعامات اور جاگیریں مقرر کیں جس کے نتیجہ میں کثیرالتعداد خود ساختہ فضائل کی روایتیں کتب احادیث میں پھیل گئیں ۔چنانچہ ابوالحسن مدائنی نے کتا ب الاحداث میں تحریر کیاہے اورابن الحدید نے اپنی شرح سے درج کیا ہے کہ :۔

معاویہ نے اپنے عمال حکومت کو تحریر کیا کہ جو تمہارے یہاں عثمان کے طرفدار ہوں ،خواہ اور دوستدارہوں ان پر نظر و توجہ رکھو اور ان لوگوں کو جو ان کے فضائل و مناقب بیان کرتے ہیں انہیں اپنا دربارنشین اور مقرب قرار دو اور ا ن کا احترام کرو اور ان میں سے جو شخص جو رو ایت کرے وہ مجھے لکھو اور اس کے باپ اور اس کے قوم قبیلے کے نام سے مجھے آگاہ کرو ۔چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا یہاں تک کہ عثمان کے مناقب و فضائل کے انبار لگا دیئے کیونکہ امیر معاویہ ایسے لوگوں کو جائز سے خلعتیں عطےے اور جاگیریں دیتا تھا ۔

جب حضرت عثمان کے فضائل میں خود ساختہ روایتیں چار و انگ میں پھیل گئیں تو ا س خیال سے خلفا کا پلہ سبک نہ رہ جائے اس نے اپنے عمال کو تحریر کیا ۔

جب تمہیں میرا یہ فرمان ملے تو لوگوں کو س امر کی دعوت دو کہ وہ صحابہ اور پہلے خلفا ء کے فضائل میں بھی حدیثیں روایت کریں اور دیکھو مسلمانوں میں سے جو شخص بھی ابو تراب کے بارے میں کو ئی حدیث بیان کرے تو اسے توڑنے کے لئے صحابہ کے لئے بھی ویسی ہی حدیثیں گھڑ کر بیان کرو ،کیونکہ یہ چیز مجھے بہت پسند ہے اور میرے لئے خنکی چشم کا باعث ہے اور یہ چیز ابو تراب اور اس کے شیعوں کی محبت کو کمز ور کرنے والی اور عثمان کے فضائل و مناقب سے بھی زیادہ گراں گزرنے والی ہے ۔چنانچہ اس کے خطو ط لوگوں کو پڑھ کر سنائے گئے ۔جس کے نتیجے میں صحابہ کے فضائل میں ایسی روایتیں گھڑنا شروع ہو گئیں جن کی کو ئی اصل و حقیقت نہ ہو تی تھی۔

اس سلسلہ میں ابن عرفہ معروف نے بہ لفظو یہ نے کہ جو اکابرعلما ء و محدثین میں سے تھے اپنی تاریخ میں تحریر کیا ہے اور ابن ابی الحدید نے اسے اپنی شرح میں درج کیا ہے کہ۔

صحابہ کے فضائل میں اکثر موضوع حدیثیں بنی امیہ کے دور میں گھڑی گئیں تاکہ ا ن کی بارگاہ میں رسوخ حاصل کیا اجائے کیونکہ ان کا خیال یہ تھاکہ وہ اس ذریعہ سے بنی ہاشم کو ذلیل و پست کر سکیں گے ۔

وضع روایات کی عادت تو پڑ ہی چکی تھی ۔اب دنیا پر ستون نے سلاطین و امرا ء کا تقرب حاصل کرنے او ر مال دنیا سمیٹنے کے لئے اسے ایک ذریعہ بنالیا ۔جیسا کہ غیاث ابن ابراہیم نے مہدی ابن منصور کو خوش کرنے اور اس سے تقرب حاصل کرنے کے لئے کبو تروں کی پرواز میں ایک روایت گھڑ کر سنا دی اور ابو سعید مدائنی وغیرہ نے اسے ذریعہ معاش بنا لیا اور حدیہ ہے کہہ کر امیہ اور بعض متصوفہ نے معصیت سے روکنے او ر اطاعت کی طرف راغب کرنے کے لئے وضع کی حدیث کے جواز کا فتویٰ بھی دے دیا ۔چنانچہ ترغیب و تر ہیب کے سلسلہ میں بے کھٹکے روایتیں وضع کی جاتی تھیں اور اسے شریعت و دیانت کے خلاف نہ سمجھا جاتا تھا ۔بلکہ عموما ًیہ کام وہی سرانجام دیتے تھے کہ جو بظاہر زہدو تقویٰ اور صلاح و رشد سے آراستہ ہوتے تھے اور جن کی راتیں مصلّوں پر اور دن جھوٹی روایتوں سے دفتر سیاہ کرنے میں گزرتے تھے ۔چنانچہ ان جعلی روایتوں کی کثرت کا اندازہ ا س سے ہو سکتا ہے کہ امام بخاری نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے دو ہزار چھ سو اکسٹھ حدیثیں منتخب کیں مسلم نے آٹھ لاکھ حدیثوں میں سے چار ہزار حدیثیں قابل سمجھیں ۔ابو داؤد نے پانچ لاکھ حدیثوں میں سے چار ہزار آٹھ سو حدیثیں انتخاب کیں ۔احمد بن حنبل نے سات لاکھ پچاس ہزار حدیثوں میں سے تیس ہزار منتخب کیں ۔مگر جب اس انتخاب کو دیکھا جا تا ہے تو ایسی حدیثیں سامنے آتی ہیں کہ وہ کسی حالت میں بھی پیغمبر اکرم کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتیں ۔چنانچہ آج مسلمانوں میں ایک معتدبہ ایسا پید ا ہو چکا ہے جو کہ ان مسانید و صحا ح پر نظر کرنے کے بعد سرے سے حدیث کی جمیعت ہی سے انکار کرچکاہے ۔

دوسری قسم کے رواة وہ ہیں جو موقع محل کو سمجھے بغیر جو الٹا سیدھا انہیں یا د رہ جاتا تھا وہ روایت کر دیتے تھے چنانچہ صحیح بخاری باب البکا ء علی المیت میں ہے جب حضرت عمر زخمی ہو ئے تو صہیب روتے ہوئے ان کے ہاں آئے تو حضرت عمر نے کہا کہ :۔

اے صہیب تم مجھ پر روتے ہو ،حالانکہ رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ گھر والوں کے رونے سے میّت پر عذاب ہو تا ہے ۔

ٍ جب حضرت عمر کے انتقال کے بعد حضرت عائشہ سے اس کا ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ خدا عمر پر رحم کرے۔ رسول اللہ نے تو ایسا نہیں فرمایا تھا کہ گھر والوں کے رونے سے مومن کی میت پرعذاب ہو تا ہے۔ البتہ یہ فرمایا تھا کہ کافر کی میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب میں زیادتی ہوتی ہے اس کے بعد ام المومنین نے فرمایا کہ قرآن میں تو یہ ہے کہ لا تزر و ازرة و ز را اخریٰ (ایک کا با ر دوسرا نہیں اٹھاتا) تو یہا ں رونے والوں کا بار میت کیسے اٹھائے گی ۔پھر حضرت عائشہ سے یہ حدیث درج ہے کہ جس سے پہلی حدیث کی مزید تشریح ہو تی ہے:۔

زوجہ رسول حضرت عائشہ ۻ سے روایت کی ہے کہ انہو ں نے کہا کہ رسول اللہ ایک یہودی عورت کی طرف سے ہو کر گزرے کہ جس پر اس کے گھروالے تو اس پر رو رہے ہیں اور وہ قبر میں مبتلائے عذاب ہے :۔

تیسری قسم کے رواة وہ ہیں کہ جنہوں نے پیغمبر سے حدیث منسوخ کو سنا مگر اس کی ناسخ کو حدیث کے سننے کا ان کو موقع ہی نہ ملا کہ وہ اسے بیان کرتے یا ا س پر عمل کرتے حدیث ناسخ کی مثال پیغمبر کا یہ ارشاد ہے کہ جس میں حدیث منسوخ کی طرف بھی اشارہ ہے نھیتکم عن زیارةالقبور الا فزوروھا(میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا مگر اب تم زیارت کر سکتے ہو)اس میں زیارت قبور کی نہی کو اذان زیارت قبور سے منسوخ کر دیا ہے تو جن لوگو ں نے صرف حدیث منسوخ کو سن رکھا تھا وہ اسی پر عمل پیرا رہے ۔

چوتھی قسم کی رواة وہ ہیں کہ جو عدالت سے آراستہ فہم و ذکاکے مالک حدیث کے موردو محل سے آگا ہ ناسخ و منسوخ خاص و عام ،مقید و مطلق سے واقف کذب و افتراء سے کنا رہ کش ہو تے تھے جو وہ سنتے تھے ان کے حافظہ میں محفوظ رہتا تھا او ر اسے صحیح صحیح دوسروں تک پہنچادیتے تھے ۔انہی کی بیان کردہ احادیث اسلام کا سرمایہ غل وغش سے پاک او ر قابل اعتمادو عمل ہیں خصوصا ًوہ سر مایہ احادیث جو امیرالمومنین علیہ السلام سے امانتدار سینوں میں منتقل ہو تا رہا اور قطع و برید او رتحریف و تبدل سے محفوظ رہنے کی وجہ سے اسلام کو صحیح صورت پیش کر تا ہے ۔کاش کہ دنیا علم کے ان سرچشموں سے پیغمبر کے فیوض حاصل کرتی ۔مگر تاریخ کا یہ افسوس ناک باب ہے کہ خوارج و معاندین آل محمد سے تو حدیث لی جا تی ہے اور جہاں سلسلہ روایت میں اہل بیت کی کسی فرد کا نام آجاتا ہے تو قلم رک جا تا ہے ۔چہرے پر شکنیں پڑ جاتی ہیں اور تیور بدل جاتے ہیں ۔