Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، بدترین امور بدعتیں ہیں، یادرکھو! ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں (لےجاتی) ہے۔ مستدرک الوسائل حدیث14207

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 207: جب علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو اس کے گھر کی وسعت کو دیکھ کر اسے دارِآخرت کی طرف متوجہ کیا اور اس کے بھائی کو رہبانیت کی زندگی سے منع فرمایا

بصرہ میں اپنے ایک صحابی علاء ابن زیاد حارثی کے ہاں عیادت کے لئے تشریف لے گئے تو اس گھر کی وسعت کو دیکھ کر فرمایا:۔

تم دنیا میں اس گھر کی وسعت کو کیا کرو گے؟ درآنحالیکہ آخرت میں تم گھر کہ وسعت کے زیادہ محتاج ہو (کہ جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے) ہاں ! اگر اس کے ساتھ تم آخرت میں بھی وسیع گھر چاہتے ہو تو اس میں مہمانوں کی مہمان نوازی قریبوں سے اچھا برتاؤ اور موقع و محل کے مطابق حقوق کی ادائیگی کرو اگر ایسا کیا تو اس کے ذریعے آخرت کی کامرانیوں کو پا لوگے۔ علماء ابن زیاد نے کہا کہ یا امیر المومنین[ع]مجھے اپنے بھائی عاصم ابن زیادہ کی آپ سے شکایت کرنا ہے۔ حضرت سے پوچھا کیوں اسے کیا ہوا؟ علاء۱ نے کہا کہ اس نے بالوں کی چادر اوڑھ لی ہے اور دنیا سے بالکل بے لگاؤ ہو گیا ہے تو حضرت نے کہا کہ اسے میرے پاس لاؤ جب وہ آیا تو آپ نے فرمایا کہ : اے اپنی جان کے دشمن تمہیں شیطان خبیث نے بھٹکا دیا ہے تمہیں اپنی آل اولاد پر ترس نہیں آتا؟ اور کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ الله نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لیے حلال کیا ہے اگر تم انہیں کھاؤ۔ برتو گے تو اسے ناگوار گزرے گا تم اللہ کی نظروں میں اس سے کہیں زیادہ گرے ہوئے ہو کہ وہ تمہارے لیے یہ چاہے۔ اس نے کہا کہ یا امیر المومنین[ع]آپ کا پہناوا بھی تو موٹا جھوٹا اور کھانا روکھا سوکھا ہوتا ہے تو حضرت نے فرمایا کہ تم پر حیف ہے میں تمہیں مانند نہیں ہو۔ خدا نے آئمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے کو مفلس و نادر لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے:۔

۱ اے رہبا نیت و ترک علائق کو زمانہ قدیم سے طہارت نفس و درستگی اعمال کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے ۔ چنانچہ جو لوگ زہد و استغراق میں زندگی بسر کرنا چاہتے تھے وہ شہروں اور بستیوں سے نکل کھڑے ہوتے اور جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں سکونت اختیار کر کے بخیال خو دالله سے لو لگائے پڑے رہتے ۔ اگر کسی راہ گیر یا آس پاس کی بستی والے نے کچھ کھانے کو دے دیا تو کھا لیا ورنہ جنگلی درختوں کے پھلوں اور چشموں کے پانی پر قناعت کر لیتے اور اس طرح زندگی کے لمحات گزار دیتے اس طریقہ عبادت کی ابتدا یوں ہوئی کہ کچھ لوگ حکمرانوں کے ظلم و تشدد سے تنگ آ کر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور ان کی گرفت سے بچنے کے لئے کسی سنسان جنگل یا کسی پہاڑ کی کھو میں جا چھپے اور وہاں اللہ کی عبادت و پرستش میں منہمک ہو گئے بعد میں اس قہری زہد و انزدا نے اختیاری صورت حاصل کر لی اور لوگ بااختیار خود کھاؤں اور غاروں میں گوشہ نشین ہونے لگے اور یہ طریقہ رائج ہو گیا کہ جو روحانی ترقی کا خواہشمند ہوتا وہ تمام دینوی بندھنوں کو توڑ کر کسی گوشے میں معتکف ہو جاتا، چنانچہ صدیوں تک اس پر عمل در آمد ہوتا رہا اور اب تک اس طریقہ عبادت کے آثار بدھسٹوں اور عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں لیکن اسلام کا عتدال پسند نہ مزاج اااس خانقا ہی زندگی سے سازگار نہیں ہے وہ روحانی ترقی کے لئے دنیا کی نعمتوں اور سعادتوں سے ہاتھ اٹھالینے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ اس چیز کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے کہ مسلمان گھر بار چھوڑ کر اور ابنائے جنس سے علیحدہ ہو کر کسی گوشے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور صرف رسمی عبادت میں لگا رہے اسلام میں عبادت کا مفہم صرف چند مخصوص اعمال تک محدود نہیں ہے بلکہ جائز ذریعہ معاش حقوق و فرائض کو نظر انداز کر دے کہ نہ اہل و عیال کی ذمہ داریوں کو محسوس کرے۔ نہ کسب معاش کے لئے سعی و کوشش کو برسرکاء رکھتے اور دوسروں پر سہارا کر کے ہر وقت مراقبہ میں پڑا رہے تو وہ مقصد حیات پر پورا کرنے کے بجائے اپنی زندگی کو تباہ کر رہا ہے اگر اللہ کو یہی چیز مطلوب ہوتی تو پھر دنیا کو بسانے اور آباد کرنے کی ضروت ہی کیا تھی جب کہ پہلے ہی سے ایک ایسی مخلوق موجود تھی جو ہمہ وقت اس کی عباد ت و پرستش میں مشغول رہتی تھی ۔ انسان کو تو قدرت نے اس دو راہے پر کھڑا کیا ہے کہ جس میں حد وسط ہی ہدایت کا مرکز ہے کہ اگر ذرا اس نقطہ اعتدال سے ادھر ادھر ہوا تو اس کے لیے گمراہی ہی گمراہی ہے اور وہ حد وسط یہ ہے کہ انسان نہ دنیا کی طرف اتنا جھکے کہ آخرت کو نظر انداز کر کے صرف دنیا ہی کا ہو کر کے صرف دنیا ہی کا ہو کر رہ جائے اورنہ دنیا سے اتنا کنارہ کش ہو جائے کہ کسی چیز سے کوئی لگاؤ نہ رکھے اور ہر چیز سے دستبردار ہو کر کسی گوشہ میں معتکف ہو جائے۔ جب الله نے انسان کو دنیا میں پیدا کیا ہے تو اسے اس دنیا میں رہتے ہوئے دستور حیات پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور حدا عتدال میں رہتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ اندوز ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو کھانا برتنا خدا برستی کے خلاف ہو۔ بلکہ قدرت نے ان نعمتوں کو اسی لیے پیدا کیا ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے چنانچہ جو خاصان خدا تھے وہ دنیا میں مل جل کر رہتے تھے اور اپنے دنیا داروں کی طرح کھاتے پیتے تھے انہیں ویرانوں پہاڑوں کی غاروں کو اپنا مسکن بنانے اور دنیا والوں سے منہ موڑ کر کسی دور دراز جگہ پر منزل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ بلکہ دنیا کے حھبیلوں میں پڑ کر الله کو یاد رکھتے تھے اور زندگی کی آسائشوں اور راحتوں کے باوجود موت کو نہ بھولتے تھے۔ رہبانیت کی زندگی عموماً ایسے مفاسد کا باعث ہوتی ہے۔ کہ جو دنیا کے ساتھ عقبیٰ کو بھی تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور انسان صحیح معنے میں خسر الدنیا ولآخرة کا مصداق ہو کر رہ جاتا ہے چنانچہ جب فطری خواہشات کو حلال و مشروع طریقے سے پورا نہیں کیا جاتا تو انسان کا ذہن خیالات سے فاسدہ کا مرکز بن جاتا ہے اور اطمینان ویکسوئی سے عبادت کو سرانجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور کبھی ہوائے نفس اس طرح اس پر غلبہ پا لیتی ہے کہ وہ تمام اخلاقی بندھنوں کو توڑ کر نفسیانی خواہشوں کو پورا کرنے کے در پے ہو جاتا ہے اور پھر ہلاکت کے ایسے گڑھے میں جا پڑتا ہے کہ جس سے نکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے اسی لیے شریعت نے متاہل کی عبادت کو غیر متاہل کی عبادت پر فضلت دی ہے۔ کیونکہ وہ عبادت و اعمال میں ذہنی سکون و یکسوئی بہم پہنچا سکتا ہے۔

وہ افراد جو جامہ تصوف پہن کر ذہد و بے تعلقی دنیا اور روحانی عظمت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں وہ اسلام کی عملی راہ سے الگ اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے نا آشناہ ہیں اور صرف شیطان کے بہکانے نے خود ساختہ سہاروں پر بھروسہ کر کے ضلالت کے راستے پر گامزن ہیں ۔ چنانچہ ان کی گمراہی اس حد تک بڑھ جاتی ہے۔ کہ وہ اپنے پیشواؤں کو اس سطح پر سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا ان کی آواز خدا کی آواز اور ان کا عمل خدا کا عمل ہے اور کبھی شرعی حدود و قیود سے اپنے سے آزاد سمجھتے ہوئے ہر امر قبیح کو اپنے لئے جائز قرار دے لیتے ہیں ۔ اس الحاد و بے دینی کو تصوف کے نام سے پیش کیا جاتا ہے اور اسی کے غیر شرعی اصولوں کو طریقت کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ مسلک اختیار کرنے والے صوفی کہے جاتے ہیں سب سے پہلے ابو ہاشم کونی و شامی نے یہ لقب اختیار کیا کہ جو اموی النسب اور جبری العقیدہ تھا۔ اسے اس لقب سے پکارے جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے زہد و تقویٰ کی نمائش کے لئے صوف کا لباس پہن رکھا تھا۔ بعد میں اس لقب نے عمومیت حاصل کر لی۔ اور اس کی وجہ تسمیہ میں مختلف توجیہات گڑھ لی گئیں ۔ چنانچہ ایک توجہیہ یہ ہے کہ صوف کے تین حرف ہیں ص،و،ف، صادے سے مراد صبر، صدق اور صفا ہے اور اورو مراد د و دو اور وفا ہے۔ اورفا سے مراد فرد، فقرا اور فنا ہے دوسرا قول یہ ہے کہ یہ صفہ سے ماخوذ ہے اور صفہ مسجد نبوی کے قریب ایک چبوترا تھا جس پر کجھور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی جس میں رہنے والے اصحاب صفہ کہلاتے تھے اور غربت و بیچارگی کی وجہ سے وہیں پڑے رہتے تھے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ عرب کے ایک قبیلہ کے جد اعلیٰ کا نام صوفہ تھا۔ اور یہ قبیلہ خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت کے فرائض سر انجام دیتا تھا اور اسی قبیلہ کی نسبت سے یہ لوگ صوفی کہے جاتے تھے۔

یہ گروہ متعدد فرقوں میں بٹا ہوا ہے لیکن بنیادی فرقے صرف سات ہیں ۔

(۱) وحدتیہ:۔یہ فرقہ وحدة الوجود کا قائل ہے۔ چنانچہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز خدا ہے یہاں تک کہ ہر نجس و ناپاک چیز کو بھی یہ اسی منزل الوہیت پر ٹھہراتے ہیں اور اللہ کو دریا سے اور مخلوقات کو اس میں اٹھنے والی لہروں سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دریا کی لہریں دریا کے علاوہ کو ئی جداگانہ وجود نہیں رکھتیں بلکہ ان کا وجود بعینہ دریا کا وجود ہے جو کھبی ابھرتی ہیں اور کبھی دریا کے اندر سمٹ جاتی ہےں ۔ لہذا کسی چیز کو اس کی ہستی سے الگ نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔

(۲) اتحادیہ:۔ اس فرقہ کا خیال یہ ہے کہ وہ اللہ سے ، اور اللہ اس سے متحد ہو چکا ہے یہ اللہ کو آگ سے اور اپنے کو اس لوہے سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جو آگ میں پڑا رہنے کی وجہ سے اس کی صورت و خاصیت پیدا کر چکا ہو۔

(۳) حلولیہ:۔اس کا عقیدہ یہ ہے۔ کہ خدا وند عالم عارفوں اور کاملوں کے اندر حلول کر جاتا ہے اور ان کا جسم اس کی فرود گاہ ہوتا ہے۔ اس لیے بظاہر بشر اور باطن خدا ہوتے ہیں ۔

(۴) واصلیہ:۔یہ فرقیہ اپنے کو واصل بالله سمجھتا ہے اور اس کا نظریہ ہے کہ احکام شرع تکمیل نفس و تہذیب اخلاق کا ذریعہ ہیں اور جب نفس حق سے متصل ہو جاتا ہے تو پھر اسے تکمیل و تہذیب کی احتیاج نہیں رہتی ۔ لہذا واصلین کے لیے عبادت و اعمال بیکار ہو جاتی ہے) لہذا وہ جو چاہیں کریں ۔ ان پر حرف گیری نہیں کی جا سکتی۔

(۵) زراقیہ:۔یہ فرقہ نغمہ و سر ود کی دھنوں اور حال و قال کی سر مستیوں کو سرمایہ عبادت سمجھتا ہے اور درویشی و دریوزہ گری سے دنیا کماتا ہے اور اپنے پیشواؤں کی من گڑہت کر امتین سنا کر عوام کو مرعوب کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔

(۶) عشاقیہ:۔اس فرقہ کا نظریہ یہ ہے کہ المجازة قنطرة الحقیقت عشق مجازی عشق حقیقی کا ذریعہ ہوتا ہے لہذا عشق الٰہی کی منزل تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ کسی مہوش سے عشق کیا جائے لیکن جس عشق کو یہ عشق الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ صرف اختلال دماغی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے عاشق قبل و روح کی پوری توجہ کے ساتھ ایک فرد کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ اور اس تک رسائی ہی اس کی منزل آخر ہوتی ہے۔ یہ عشق فسق و فجور کی راہ پر تو لگا سکتا ہے ۔ مگر عشق حقیقی کی منزل سے اسے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔

عشق مجاز چوں بہ حقییقت نظر کنی دیواست و دیورا نہ بود پائے رہبری

(۷) تلقیہ:۔اس فرقے کے نزدیک علوم دینیہ کا پڑھنا اور کتب علمیہ کا مطالعہ کرنا قطعاً حرام ہے بلکہ جو مرتبہ عملی ستر برس تک پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا وہ ایک ساعت میں مرشد کے تصرف روحانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔

علمائے شیعہ کے نزدیک یہ تمام فرقے گمراہ اور اسلام سے خارج ہیں ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آئمہ اطہار کے بکثرت ارشادات موجود ہیں اور اس خطبہ میں بھی امیرالمومنین[ع]نے عاصم بن زیاد کے قطع علائق دنیا کو شیطانی وسوسہ کا نتیجہ قرار دیا ہے اوراسے اس راہ پر چلنے سے بشت منع کیا ہے۔