Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جو شخص کسی بدعتی کے پاس جاکر اس کی تعظیم کرے گا، گویا وہ اسلام کی تباہی کی کوشش کرے گا۔ من لا یحضرہ الفقیہ حدیث 4957، وسائل الشیعۃ حدیث 21544

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 2: بعثت سے قبل عرب کی حالت ، اہل بیت کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت

صفیں سے پلٹنے کے بعد فرمایا-:

اللہ کی حمدو ثنا کرتا ہوں ، اس کی نعمتوں کی تکمیل چاہنے اس کی عزت و جلال کے آگے سر جھکانے اور اس کی معصیّت سے حفاظت حاصل کرنے کے لئے اور اس سے مدد مانگتا ہوں اس کی کفایت و دستگیری کا محتاج ہونے کی وجہ سے۔ جسے وہ ہدایت کرے وہ گمراہ نہیں ہوتا، جسے وہ دشمن رکھے۔ اسے کوئی ٹھکانہ نہیں ملتا، جس کا وہ کفیل ہو، وہ کسی کا محتاج نہیں رہتا یہ (حمد اور طلبِ امداد) وہ ہے جس کا ہر وزن میں آنے والی چیز سے پلہ بھاری ہے اور ہر گنج گراں مایہ سے بہتر و برتر ہے میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو یکتا و لاشریک ہے ایسی گواہی جس کا خلوص پرکھا جا چکا ہے اور جس کا نچوڑ بغیر کسی شائبے کے دل کا عقیدہ بن چکا ہے ۔ زندگی بھر ہم اسی سے وابستہ رہیں گے ۔ یہی گواہی ایمان کو مضبوط بنیاد اور حسنِ عمل کا پہلا قدم اور اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ اور شیطان کی دوری کا سبب ہے اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے عبد اور رسول ہیں ۔ جنہیں شہرت یافتہ دین، منقول شدُہ نشان، لکھی (۱) ہوئی کتاب ، ضُوفشاں نور، چمکتی ہوئی روشنی اور فیصلہ کن امر کے ساتھ بھیجا تاکہ شکوک و شبہات کا ازالہ کیا جائے اور دلائل (کے زور) سے حجت تمام کی جائے۔ آیتوں کے ذریعے ڈرایا جائے اور عقوبتوں سے خوف زدہ کیا جائے (اس وقت حالت یہ تھی کہ ) لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جہاں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراگندہ تھے۔ نکلنے کی راہیں تنگ و تاریک تھیں ۔ ہدایت گمنام اور ضلالت ہمہ گیر تھی۔ (کھلے خزانوں ) اللہ کی مخالفت ہوتی تھی اور شیطان کو مدد دی جارہی تھی ایمان بے سہارا تھا۔ چنانچہ اس کے ستون گر گئے۔ اس کے نشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے۔ اس کے راستے مٹ مٹا گئے، اور شاہراہیں اجڑ گئیں ، وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اسکے گھاٹ پر اتُر پڑے۔ انہیں کی وجہ سے اس کے پھریرے ہر طرف لہرانے لگے تھے۔ ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سموں سے روندتے اور اپنے کھُروں سے کچلتے تھے۔ اور اپنے پنجوں کے بَل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے۔ تو وہ لوگ ان میں حیران و سرگرداں ، جاہل و فریب خوردہ تھے۔ ایک(۲) ایسے گھر میں جو خود اچھا، مگر اس کے بسنے والے بُرے تھے۔ جہاں نیند کے بجائے بیداری اور سُرمے کی جگہ آنسو تھے۔ اس سرِ زمین پر عالم کے منہ میں لگام تھی۔ اور جاہل معزز و سرفراز تھا (اسی خطبہ کا ایک حصہ اہل بیت نبی سے متعلق ہے) وہ سرِ خدا کے امین اور اس کے دین کی پناہ گاہ ہیں ۔ علمِ الٰہی کے مخزن اور حکمتوں کے مرجع ہیں ۔ کتب (آسمانی) کی گھاٹیاں اور دین کے پہاڑ ہیں ۔ انہیں کے ذریعے اللہ نے اس کی پشت کا خم سدھا کیا اور اس کے پہلوؤں سے ضعف کی کپکپی دُور کی (اسی خطبہ کا ایک حصہ جو دوسروں سے متعلق ہے) انہوں نے فسق و فجور کی کاشت کی غفلت و فریب کے پانی سے اسے سینچا اور اس سے ہلاکت کی جنس حاصل کی۔ اس امت میں کسی کو آلِ محّمد پر قیاس نہیں کیا جا سکتا جن لوگوں پر ان کے احسانات ہمیشہ جاری رہے ہوں ۔

وہ ان کے برابر نہیں ہو سکتے ۔ وہ دین کی بنیاد اور یقین کے ستون ہیں ۔ آگے بڑھ جانے والے کو ان کی طرف پلٹ کر آنا ہے اور پیچھے رہ جانے والے کو ان سے آکر ملتا ہے ۔ حقِ ولایت کی خصوصیات انہیں کے لئے ہیں اور انہی(۳) کے بارے میں ”پیغمبر کی“ وصیت اور انہی کے لئے (نبی کی) وراثت ہے۔ اب یہ وقت وہ ہے کہ حق اپنے اہل کی طرف پلٹ آیا اور اپنی صحیح جگہ پر منتقل ہو گیا۔

----------------------------------------------------------

1- لوح محفوظ ہیں ۔
2- اچھے گھر سے مراد مکہ اور برے ہمسایوں سے مراد کفار قریش ہیں ۔
3-اہلبیت پیغمبر کے متعلق فرماتے ہیں کہ دنیا کی کسی فرد کو ان پر قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان کی بلندی درجات میں کسی کو ان کا ہم پایہ سمجھا جا سکتا ہے۔ کیونکہ دنیا ان کے احسانات کی گراں باریوں میں دبی ہوئی ہے اور انہی سے نعمتِ ہدایت پا کر اخروی نعمتوں کی مستحق ہوئی ہے۔ وہ دین کی اساس وبنیاد اور اس کی زندگی و بقا کا سہارا ہیں ۔ وہ علم و یقین کے ایسے محکم ستون ہیں کہ شک و شبہات کے طوفانوں کا دھارا موڑ سکتے ہیں اور افراط و تفریط کی راہوں میں وہ درمیانی راستہ ہیں کہ اگر کوئی غلو و افراط کی حد تک پہنچ جائے یا کوتاہی و تفریط میں پڑ جائے تو ہو جب تک پیچھے ہٹ کر یا آگے بڑھ کر اس جادئہ اعتدال پر نہیں آئے گا۔ اسلام کی راہ پر آہی نہیں سکتا اور انہی میں تمام وہ خصوصیتیں پائی جاتی ہیں جو امامت و قیادت میں ان کے حق کو فائق قرار دیتی ہیں ۔ لہذا ان کے علاوہ کسی کو امت کی سر پرستی و نگہبانی کا حق نہیں پہنچتا ۔ چنانچہ پیغمبر نے انہی کو اپنا وصی و وارث ٹھہرایا۔ وصیت و وراثت کے متعلق شارح معتزلی نے لکھا ہے کہ امیر الموٴمنین (ع) کی وصایت میں تو کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ وراثت سے نیاب و جانشینی کی وراثت مرا د نہیں ہے بلکہ وراثتِ علمی مراد ہے ۔ اگرچہ فرقہ امامیہ اس سے خلاف و نیاب ہی مراد لیتا ہے اگر بقول ان کے وراثت سے وراثتِ علمی مراد لی جائے۔ جب بھی وہ اپنے مقصد میں کامران ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے ، کیونکہ اس معنی کی رو سے بھی نیابتِ پیغمبرکا حق کسی دوسرے کو نہیں پہنچتا ۔ جب کہ یہ امر مسلم ہے کہ خلافت کے لئے سب سے بڑی ضرورت علم کی ہے۔ اس لئے کہ خلیفة الرسول کے اہم ترین فرائض میں سے مقدموں کا فیصلہ کرنا، شریعت کے مسائل حل کرنا، مشکل گتھیوں کو سلجھانا اور شرعی حدود کا اجراء کرنا ہے ۔ اگر نائب رسول کے فرائض میں سے ان چیزوں کو الگ کر دیا جائے تو اس کی حیثیت صرف ایک دنیوی حکمران کی رہ جاتی ہے۔ اسے دینی اقتدار کا مرکز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ لہذا یا تو حکومت کو خلافت سے الگ رکھئے یا جو رسول کے علم کا وارث ہو ، اسے ہی خلافت کے منصب کا اہل سمجھئے۔
ابنِ ابی الحدید کی یہ تشریح اس صورت میں قابلِ لحاظ ہو بھی سکتی تھی۔ جب یہ فقرہ اکیلا آپ کی زبان پر آیا ہوتا لیکن اس موقعہ کو دیکھتے ہوئے کہ خلافتِ ظاہری کے تسلیم ہونے کے بعد کہا گیا ہے کہ اور پھر اسی کے بعد اسرجع الحق الی اھلہٖ کا فقرہ موجود ہے ۔ ان کی یہ تشریح بالکل بے بنیاد معلوم ہوتی ہے بلکہ وصایت سے بھی کوئی اور وصیت نہیں بلکہ وہ نیابت و خلافت ہی کی وصیت مراد معلوم ہوتی ہے اور وراثت بھی نہ وراثت ِ مالی اور نہ وراثتِ علمی ، جس کے بیان کا یہ کوئی موقعہ نہیں بلکہ حق امات کی وراثت ہے جو صرف بر بنائے قرابت نہیں بلکہ بر بنائے اور صافِ کمال ان کے لئے منجانب اللہ ثابت تھی۔