Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، جس کا میں مولا ہوں اس کا علی ؑ مولا ہے اصول کافی کتاب الروضۃ خطبۃلامیر المومنین ؑ

نہج البلاغہ خطبات

ا س خطبہ کا نام خطبہ قاصعہ ہے :

جس میں ابلیس کی مذمّت ہے ۔اس کے تکبر و غرور اور آدم (علیہ السلا م)کے آگے سر بسجو د نہ ہونے پر اور یہ کہ وہ پہلافرد ہے جس نے عصبیّت کا مظاہرہ کیا اور غرور و نخوت کی راہ اختیار کر لی اور لوگوں کو اس کے طور طریقو ں پر چلنے سے تنبیہ کی گئی ہے ۔

ہر تعریف ا س اللہ کے لےے ہے جو عزت و کبریائی کی روا اوڑھے ہوئے ہے او رجس نے ان دونوں صفتوں کو بلا شرکت غیرے اپنی ذات کے لےے مخصوص کیا ہے اور دوسروں کے لےے ممنوع و نا جائز قرار دیتے ہوئے صرف اپنے لےے انہیں منتخب کیا ہے ،اور اس کے بندوں میں سے جو ان صفتوں میں سے اسے ٹکرے اس پرلعنت کی ہے اور اسی کی رو سے اس نے اپنے مقرب فرشتوں کا امتحان لیا تاکہ ان میں سے فروتنی کرنے والوں کو گھمنڈ کرنے والوں سے چھانٹ کر الگ کر دے ۔چنانچہ اللہ سبحانہ٘ نے باوجو دیہ کہ وہ دل کے بھید وں اور پردہ غیب میں چھپی ہو ئی چیز وں سے آگاہ ہے ۔فرمایا کہ میں مٹی سے بشر بنانے والا ہوں ۔جب میں اس کو تیار کر لوں اور اپنی خاص روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا ۔سب کے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس کواسے سجدہ کرنے میں خار آئی اور اپنے مادہ تخلیق کی بنا پر آدم کے مقابلے میں گھمنڈ کیا اور اپنی اصل کے لحاظ سے ان کے سامنے اکڑ گیا ۔چنانچہ یہ دشمن خدا عصبیّت برتنے والوں کا سرغنہ اور سرکشوں کا پیشرو ہے کہ جس نے تعصب کی بنیاد رکھی اللہ سے اس کی روائے عظمت و کبریائی چھیننے کا تصو ّر کیا ۔تکبر و سر کشی کا جامہ پہن لیا اور عجز و فرو تنی کی نقا ب اتار ڈالی ۔پھر تم دیکھتے نہیں کہ اللہ نے اسے بڑے بننے کی وجہ سے کس طرح چھوٹا بنا دیا ،اور بلندی کے زعم کی وجہ سے کس طرح پستی دی ۔دنیا اور آخرت میں اس کے لےے بھڑکتی ہو ئی آگ مہیا کی او ر اگر اللہ چاہتا تو آدم کو ایک ایسے نور سے پیداکرتاجس کی روشنی آنکھوں کو چندھیا دے او ر اس کی خوشنمائی عقلو ں پر چھا جائے اور ایسی خوشبو سے کے جس کی مہک سانسوں کو جکڑ لے اور اگر ایسا کرتا تو ان کے آگے گردنیں خم ہو جاتیں اور فرشتوں کو ان کے بارے میں آزمائش ہلکی ہو جاتی لیکن اللہ سبحانہ٘ ،اپنی مخلوقات کو ایسی چیزوں سے آزماتا ہے جن اصل و حقیقت سے وہ نا واقف ہو تے ہیں تاکہ اس آزمائش کے ذریعے (اچھے اور برے افراد میں )امتیاز نہ کردے ۔ان سے نخوت و برتری کو الگ اور غرور و خود پسندی کو دور کرے ۔تمہیں چاہیئے کہ اللہ نے شیطان کے ساتھ جو کیا اس سے عبرت حا صل کرو ،کہ طویل طویل عبادتوں اور بھر پور

کو ششوں پر اس کے ایک گھڑی کے گھمنڈ نے پانی پھیر دیا۔حالانکہ اس نے چھ ہزار برس تک جو پتہ نہیں دنیا کے سال تھے یا آخرت کے اس کی عبادت کی تھی ،تو ابلیس کے بعد کون رہ جاتا ہے جو اس جیسی معصیّت کرکے اللہ کے عذاب سے محفوظ رہ سکتا ہو ؟ہرگز نہیں ،یہ تو جنت سے نکال باہر کیا ہو اسی پر کسی بشر کو جنت میں جگہ دے۔اس کا حکم تو اہل آسمان اور اہل زمین میں یکساں ہے ۔اللہ او رمخلوقات میں سے کسی فرد خاص کے درمیان دوستی نہیں کہ اس کو ایسے امر ممنو ع کی اجازت ہو کہ جسے تمام جہاں والوں کے لےے اس نے حرام کیا ہو ۔

خدا کے بندو ں ! اللہ کے دشمن سے ڈرو کہ کہیں وہ تمہیں اپنا روگ نہ لگا دے ،اپنی پکار سے تمہیں بہکا نہ دے ،اور اپنے سوار و پیادے لے کر تم پر نہ چڑھ نہ دوڑے اس لےے میری جان کی قسم !اس نے شر انگیزی کے تیر کو چلہ کمان میں جوڑ رکھاہے اور قریب کی جگہ سے تمہیں اپنے نشانہ کی زد پر رکھ کر کمان کو زور سے کھینچ لیا ہے ۔جیسا کہ اللہ نے اس کی زبانی فرمایا ہے کہ اے میرے پروردگار !چونکہ تو نے مجھے بہکا دیا ہے ،اب میں بھی ان کے سامنے زمین پر گناہوں کو سچ کر پیش کرو ں گا اور ان سب کو گمراہ کروں گا ،حالانکہ یہ اس نے بالکل اٹکل پچّو کہا تھا ۔اور غلط گمان کی بنا ء پر (اندھیرے میں ) تیر چلایا تھا لیکن فرزندا ن رعو نت برادران ِعصبیّت اور شہسواران غرور و جاہلیت کے اس کی بات کو سچ کر دکھایا ،یہا ں تک کہ جب تم میں سے سرکش اور منہ زور لوگ اس کے فرمانبردار ہوگئے ،اور تمہارے بارے میں اس کی ہوس و طمع قوی ہو گئی اور صورت حال پر دہ خفا سے نکل کر کھلم کھلا سامنے آگئی تو اس کا پورا پورا تسلّط تم پر ہو گیا اور وہ اپنے لشکر و سپاہ کو لے کر تمہاری طرف بڑھ آیا اور انہوں نے تمہیں ذلت کے غارو ں میں دھکیل دیا اور قتل و خون کے بھنوروں میں لا گرایا اور گھاؤ پر گھاؤ لگا کر تمہیں کچل دیا ۔تمہاری آنکھوں میں نیزے گڑ کر،تمہارے گلے کاٹ کر،تمہارے نتھنوں کو پار ہ پا رہ کر کے تمہارے ایک ایک جوڑ بند کو توڑ کر اور تمہاری ناک میں غلبہ و تسلّط کی نکیلیں ڈال کر تمہیں اس آگ کی طرف کھینچے لےے جاتا ہے جو تمہارے لےے تیار کی گئی ہے اسی طرح ان دشمنوں سے جن سے کھلم کھلا تمہاری مخالفت ہے اور جن کے مقابلے کے لےے تم فوجیں جمع کرتے ہو ،زیادہ بڑھ چڑھ کر وہ تمہارے دین کو مجروح کرنے والا اور دنیا میں تمہارے لےے (فتنہ و فساد)کے شعلے بھڑکانے والا ہے لہٰذا تم پر لازم ہے کہ اپنے جوش و غضب کا پورا مرکز اسے قرار دو ،اور پوری کوشش اس کے خلا ف صر ف کرو ۔کیونکہ اس نے شروع ہی میں تمہاری اصل (آدم)پر فخر کیا تمہارے حسب (قدرومنزلت)پرحرف رکھا ،تمہارے نسب(اصل و طینت )پر طعن کیا ،او راپنے سواروں کو لے کر تم پر پورش کی اور اپنے پیادوں کو لے کر تمہارے راستہ کا قصد کیا ہے۔و ہ ہر جگہ سے تمہیں شکار کرتے ہیں اور تمہاری انگلی کی ایک ایک پور پر چوٹےں لگاتے ہیں نہ کسی حیلہ و تدبیر سے تم اپنا بچاؤاور نہ پورا تہیا کر کے اس کی روک تھام کرسکتے ہو ،درآنحالا نکہ تم رسوائی کے بھنور تنگی و ضیق کے دائرہ ،موت کے میدان اور مصیبت و بلا کی جو لانگا ہ میں ہو ،تمہیں لازم ہے کہ اپنے دلو ں میں چھپی ہوئی عصبیّت کی آگ اور جاہلیت کے کینوں کو فرو کرو ۔کیوں کہ مسلمان میں یہ غرور خود پسندی شیطان کی وسوسہ اندازی ، نخوت پسندی ،فتنہ انگیزی اور افسوں کا ری کا نتیجہ ہوتی ہے عجز و فرو تنی کو سرکاتاج بنانے ۔کبرو خود بینی کو پیروں تلے روندے او رتکبر و رعو نت کا طوق گردن سے اتارنے کا عزم بالخبرم کرلو ۔اپنے دشمن شیطان اوراس کی سپاہ کے درمیان تواضع فروتنی کا مورچہ قائم کرو۔کیونکہ ہر جماعت میں اس کے لشکر ،یار و مددگار اور سوار و پیادے موجود ہیں ۔تم اس کی طرح نہ بنو کہ جس نے اپنے ماں جائے بھائی کے مقابلے میں غرور کیا ۔بغیر کسی فضیلت و بلندی کے کہ جو اللہ نے اس میں قراردی ہو ،سوا اس کے کہ حاسد انہ عداوت سے اس میں اپنی بڑائی کا احساس پیدا ہو ا،اور خود پسندی نے اس کے دل میں غیظ و غضب کی آگ بھڑکا دی اور شیطان نے اس کے ناک میں کبر و غرور کی ہو ا پھونک دی کہ جس کی وجہ سے اللہ نے مذامت و پشیمانی کو اس کے پیچھے لگا دیا اور قیامت تک کے قاتلوں کے گناہ اس کے ذمہ ڈال دیئے ،دیکھو!تم نے اللہ سے کھلم کھلا اتر کر اور مومنین سے آمادہء پیکار ہو کرظلم و تعدی کی انتہا کر دی۔اور زمین میں فساد مچا دیا ۔تم زمانہ جاہلیت والی خود بینی کی بنا پر فخر و غرور کرنے سے اللہ کا خوف کھاؤ ۔کیو نکہ یہ دشمنی و عناد کا سر چشمہ اورشیطان کی فسوں کاری کا مرکز ہے جس سے ا س نے گزشتہ امتوں اور پہلی قوموں کو ورغلایا ۔یہاں تک کہ وہ اس کے دھکیلنے اور آگے سے کھینچنے پر بے چون وچرا جہالت کی اندھیا ریوں اور ضلالت کے گڑھوں میں تیزی سے جا پڑیں ۔ایسی صور ت ہے جس میں ایسے لوگوں کے تمام دل ملتے جلتے ہوئے ہیں اور صدیوں کا حال ایک ہی سا رہاہے اور ایسا غرور جس کے چھپانے سے سینوں کی وسعتیں تنگ ہوتی ہیں ۔

دیکھو ! اپنے ان سردار وں اور بڑوں کا اتباع کرنے سے ڈ رو کہ جو اپنی جاہ وحشمت پر اکڑتے او ر اپنے نسب کی بلندیوں پرغرہ کرتے ہوں اور بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیتے ہوں اور اس کی قضا وقدر سے ٹکر لینے اور اس کی نعمتوں پر غلبہ پانے کے لےے اس کے احسانات سے مکسیر انکار کر دیتے ہوں ۔

یہی لوگ تو عصبیّت کی عمارت کی گہری بنیاد ،فتنہ کے کاخ دایوان کے ستون اور جاہلیت کے نسبی تفاخر کی تلواریں ہیں ،لہٰذا اللہ سے ڈرو ،اس کی دی ہو ئی نعمتوں کے دشمن نہ بنو ،او رنہ اس کے فضل و کرم کے جو تم پر ہے ۔حاسد بنو اور جھوٹے مدعیان اسلام کی پیرو ی نہ کرو کہ جن کا گندلا پانی تم اپنے صاف پانی میں سمو کر پیتے ہو اور اپنی درستگی کے ساتھ ان کی خرابیوں کو غلط ملط کر لیتے ہو اور اپنے حق میں ان کے باطل کے لےے بھی راہ پیدا کر دیتے ہووہ فسق و فجور کی بنیا د ہیں ۔اور نافرمانیوں کے ساتھ چسپیدہ ہیں ۔جنہیں شیطان نے گمراہی بار بردار سواری قرا ر دے رکھا ہے اور ایسا لشکر جس کے ساتھ لے کر لوگوں پر حملہ کرتا ہے ایسے تر جمان کے جن کی زبان سے وہ گویا ہوتا ہے تاکہ تمہاری عقلیں چھین لے تمہاری آنکھوں میں گھس جائے اور تمہا رے کانوں میں پھونک دے ۔اس طرح اس نے تمہیں اس نے تمہیں اپنے تیروں کا ہد ف اپنے قدموں کی جولانگاہ اور اپنے ہاتھو ں کا کھلونا بنالیا ہے ۔تمہیں لازم ہے کہ تم سے قبل سرکش امتوں پر جو قہر و عذاب اور عتاب و عقاب نازل ہوا ،اس سے عبرت لو،اور ان کے رخساروں کے بل لیٹنے اور پہلوؤں کے بل گرنے کے مقامات سے نصیحت حاصل کرو ،اورجس طرح زمانہ کی مصیبتوں سے پناہ مانگتے ہو ،اسی طرح معزور و سرکش بنانے والی چیزوں سے اللہ کے دامن میں پناہ مانگو ۔اگر خدا عالم اپنے بندوں میں سے کسی ایک کو بھی کبر و رعو نت کی اجازت دے سکتا ہوتا تو وہ اپنے مخصوص انبیاء و اولیا ء کو اس کی اجازت دیتا لیکن اس نے ان کو کبرو غرور سے بیزار ہی رکھا ،اور ان کے لےے عجزو مسکنت ہی کو پسند فرمایا ۔چنانچہ انہوں رخسارے زمین سے پیوستہ اور چہرے خاک آلود ہ رکھے اور مومنین کے آگے تواضع و انکسا ر سے جھکتے رہے اور وہ دنیا میں کمزور و بے بس تھے ،جنہیں اللہ نے بھوک سے آزمایا تعب و مشقت میں مبتلاکیا ۔ خوف و خطر کے موقعو ں سے انہیں تہ و بالا کیا ۔لہٰذا خد اکی خوشنو د ی کا معیار اولادو مال کو قرار نہ دو ۔کیونکہ تم نہیں جانتے کہ اللہ دولت اور اقتدار سے بھی کس کس طرح بندوں کا امتحان لیتا ہے چنانچہ اللہ سبحانہ٘ ،کا ارشاد ہے کہ "وہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو مال و اولاد سے انہیں سہارا دیتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ بھلائیاں کرنے میں سرگر م ہیں ۔مگر جو (جو اصل واقعہ ہے اسے ) یہ لوگ سمجھتے نہیں "اسی طرح کا واقعہ یہ ہے کہ اللہ اپنے ان بندوں کا جو بجائے خو د اپنی بڑائی کا گھمنڈ رکھتے ہیں ۔امتحان لیتا ہے۔اپنے ان دوستوں کے ذریعہ سے جو ان کی نظروں میں عاجز و بے بس ہیں (چنانچہ اس کی مثال یہ ہے کہ ) موسیٰ(علیہ السلام) اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اس حالت میں فرعون کے پاس آئے کہ ان کے جسم پر اونی کُرتے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں ۔اورا س سے یہ قول و قرار کیا کہ وہ اسلام قبول کرلے تو اس کا ملک بھی باقی رہے گا اور اس کی عزت بھی برقرار رہے گی ۔تو اس نے (اپنے حاشیہ نشینوں سے )کہا کہ تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ یہ دونوں مجھ سے یہ معاملہ ٹھہرا رہے ہیں کہ میری عزت بھی برقرا ر رہے گی ۔اور ذلیل صورت میں یہ ہیں تم دیکھ ہی رہے ہو (اگر ان میں اتنا ہی دم خم تھاتو پھر )ان کے ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے ۔یہ اس لےے کہ وہ سونے کو اور اس کی جمع آوری کو بڑی چیز سمجھتا تھا اور بالوں کے کپڑوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ جس وقت اس نے نبیوں کو مبعوث کیا تو ان کے لےے سونے کے خزانوں اور خالص طلا ء کی کانوں منہ کھول دیتا اور با-غوں کی کشت زاروں کو ان کے لےے مہیا کردیتا اور فضا کے پرندوں اور زمین کے صحرائی جانوروں کو ان کے ہمراہ کر دیتا تو کرسکتا تھا اور اگر ایسا کرتا تو پھر آزمائش ختم ،جزاؤسزا بیکار اور (آسمانی)خبریں اکارت ہوجاتیں اور آزمائش میں پڑنے والوں کا اجر اس طرح ماننے والوں کے لےے ضروری نہ رہتا اور نہ ایسے ایمان لانے والے نیک کرداروں کی جزا کے مستحق رہتے ۔او رنہ الفاظ اپنے معنی کا ساتھ دیتے لیکن اللہ سبحانہ٘ اپنے رسولوں کو ارادوں میں قوی اور آنکھو ں کو دکھائی دینے والے ظاہری حالت میں کمزور و ناتواں قرار دیتا ہے اور انہیں ایسی قناعت سے سرفراز کرتا ہے ۔جو (دیکھنے اور سننے والے کے )دلوں او ر آنکھوں کو بے نیازی سے بھر دیتی ہے اور افلاس ان کے دامن سے وابستہ کرتا ہے جس سے آنکھوں کو دیکھ کر اور کانوں کو سن کر اذیت ہوتی ہے ۔اگر انبیاء ایسی قوت و طاقت رکھتے کہ جسے دبانے کا قصد و ارادہ بھی نہ ہو سکتا ہوتا اور ایسا تسلّط و اقتدار رکھتے کہ جس پر تعد ی ممکن ہی نہ ہوتی اور ایسی سلطنت کے مالک ہو تے کہ جس کی طرف لوگوں کی گردنیں مڑتیں اور ا س کے رخ پر سواریوں کے پالان کسے جاتے تو یہ چیز نصیحت پذیری کے لےے بڑی آسان اور اس سے انکار وسرتابی بہت بعید ہوتی اور لوگ چھائے ہوئے خوف یا مائل کرنے والے اسباب رغبت کی بناء پر ایمان لے آتے تو اس کے پیغمبروں کا اتباع اس کی کتابوں کی تصدیق اس کے سامنے فروتنی ا س کے احکا م کی فرمانبرداری اور اس کی اطاعت یہ سب چیزیں اسی کے لےے مخصوص ہوں اور ان میں کوئی دوسر ا شائبہ تک نہ ہواور جتنی ۔آزمائش کڑی ہو گی اتنا ہی زیادہ اجرو ثواب ہوگا ۔

تم دیکھتے نہیں کہ اللہ سبحانہ٘ ،نے آدم[ع]سے لے کر اس جہاں کے آخر تک کے اگلے پچھلوں کو ایسے پتھروں سے آزمایا ہے کہ جو نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ نہ سن سکتے ہیں اور نہ دیکھ سکتے ہیں اس نے ان پتھروں ہی کو اپنا محترم گھر قرار دیا کہ جسے لوگوں کے لےے (امن کے )قیام کا ذریعہ ٹھہرایا ہے ۔پھر یہ اس نے اسے زمین کے رقبوں میں سے ایک سنگلاخ رقبہ اور دنیا میں بلندی پر واقع ہونے والی آبادیوں میں سے ایک کم مٹی والے مقام اور گھاٹیوں میں سے ایک تنگ اطراف والی گھاٹی میں قرار دیا کھرے اور کھردرے پہاڑو ں نرم ریتلے میدانوں ،کم آب چشموں اور متفرق دیہاتوں کے درمیان فرق کہ جہاں اونٹ ،گھوڑا اور گائے بکری نشوونما نہیں پاسکتے ۔پھر بھی اس نے آدم اور ان کی اولاد کو حکم دیا کہ اپنے رخ اس کی طرف موڑیں ،چنانچہ وہ ان کے سفروں سے فائدہ اٹھانے کا مرکز اور پالانوں کے اترنے کی منزل بن گیا کہ دور افتادہ بے آب و گیا بانوں دور درازگھاٹیوں کے نشیبی راہوں اور (زمین سے)کٹے ہوئے دریاؤں کے جزیروں سے نفوس انسانی ادھر متوجہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ پوری فرمانبرداری سے اپنے کاکندھوں کو ہلاتے ہوئے اس کے گرد لبیک الہم لبیک کی آوازیں بلند کرتے ہیں اور اپنے پیروں سے پویہ دوڑ لگاتے ہیں ۔اس حالت میں کہ ان کے بال بکھرے ہو ئے اور بدن خاک میں اٹے ہوئے ہیں ۔انہوں نے اپنا لباس پشت پر ڈال دیا ہوتا ہے اور بالوں کو بڑھا کر اپنے کوبد صورت بنا لیا ہوتا ہے۔یہ بڑی ابتلا ،کڑی آزمائش کھلم کھلا امتحان اور پوری پوری جانچ ہے ۔اللہ نے اسے اپنی رحمت کا ذریعہ اور جنت تک پہنچنے کا وسیلہ قراردیا ہے اور اگر خداوند عالم یہ چاہتا کہ وہ اپنا محترم گھر اور بلند پایہ عبادت گاہیں ایسی جگہ پر بنائے کہ جس کے باغ و چمن کی قطاریں بہتی ہوئی نہریں ہو ں زمین نرم وہموار ہو کہ (جس میں ) درختوں کے جھنڈ اور (ان میں ) جھکے ہوئے پھلوں کے خوشے ہوں جہا ں عمارتوں کا جال بچھا ہو اہو۔اور آبادیوں کا سلسلہ ملا ہو اہو۔جہاں سرخی مائل گیہوں کے پودے ، سر سبز مرغزار ،چمن درکنار سبزہ زار پانی میں شرابور میدان ،لہلہاتے ہوئے کھیت اور آبا د گزرگاہیں ہوں ،تو البتہ وہ جزا و سزا کو اسی اندازے سے کم کر دیتاہے کہ جس اندازہ سے ابتلاء وآزمائش میں کمی واقع ہوئی اگر وہ بنیاد کہ جس پر اس گھر کی تعمیر ہوئی ہے او ر وہ پتھر کہ جس پراس کی عمارت اٹھائی گئی ہے زمرد سبز ویاقوت سرخ کے ہوتے اور (ان میں ) نور و ضیاء( کی تابانی) ہوتی تو یہ چیز سینے میں شک و شبہات کے ٹکراؤ کو کم کر دیتی اور دلوں سے شیطان کی دو ڑ (کا اثر)مٹا دیتی اور لوگوں سے شکوک کے خلجان دور کردیتی ۔لیکن اللہ سبحانہ٘ اپنے بندوں گو ناگوں سختیوں سے آزماتا ہے اور ان سے ایسی عبادت کا خواہاں ہے کہ جو طرح طرح کی مشقتوں سے بجا لائی گئی ہواور انہیں قسم قسم کی ناگواریوں سے جانچتا ہے تاکہ ان کے دلوں سے تمکنت و غرور کو نکال باہر کرے اور ان کے نفوس میں عجز و فروتنی کو جگہ دے اور یہ کہ اس ابتلاؤآزمائش( کی راہ)سے اپنے فضل و اتنان کے کھلے ہوئے دروازوں تک (انہیں ) پہنچائے او ر اسے اپنی معافی و بخشش کا آسان وسیلہ و ذریعہ قرار دے ۔دنیامیں سرکشی کی پاداش اور آخرت میں ظلم کی گرانباری کے عذاب اور غرور و نخوت کے برے انجام کے خیال سے اللہ کا خوف کھاؤ کیونکہ یہ(سرکشی ظلم او رغرور و تکبر ) شیطان کا بہت بڑا جال اور بہت بڑا ہتھکنڈا ہے جو لوگوں کے دلوں میں زہر قاتل کی طر ح اتر جاتا ہے ۔نہ اس کا اثر کبھی رائیگاں جاتا ہے نہ اس کا وار کسی سے خطا کرتا ہے ۔نہ عالم سے اس کے علم باوجود اور نہ پھٹے پرانے چیتھڑوں میں کسی فقیر بے نوا سے ۔یہی وہ چیز ہے جس سے خدا وند عالم ایمان سے سر فراز ہونے والے بندوں کو نماز ،زکٰوة اور مقرر دنوں میں روزوں کے جہاد کے ذریعہ محفوظ رکھتا ہے اور اس طرح اس کے ہاتھ پیروں (کی طغیانیوں )کو سکو ن کی سطح پر لاتا ہے ۔ان کی آنکھوں کو عجزو شکستگی سے جھکا کر نفس کو رام اور دلوں کو متواضع بنا کر رعونت و خود پسندی کو ان سے دور کرتا ہے (نماز میں )نازک چہروں کو عجز و نیاز مندی کی بنا ء پر خاک آلودہ کیا جاتاہے اور روزوں میں ارزوئے فرمانبرداری پیٹ پیٹھ سے مل جاتے ہیں اور زکٰوةمیں زمین کی پیداوار وغیرہ کو فقراء اور مساکین تک پہنچایا جاتا ہے ۔

دیکھو ! کہ ان اعمال وعبادت میں غرور کے ابھرے ہوئے اثرات کو مٹانے اور تمکنت کے نمایا ں ہونے والے آثار دبانے کے کیسے کیسے فوائد مضمر ہیں ۔ میں نے نگاہ دوڑائی تو دنیا بھر میں ایک فرد کو بھی ایسا نہ پایا کہ وہ کسی چیز کی پاسداری کرتاہو ،مگر یہ کہ اس کی نظروں میں اس کی کوئی وجہ ضرور ہوتی ہے کہ جو جاہلوں کے اشتباہ کا باعث بن جاتی ہے یا کوئی ایسی دلیل ہوتی ہے جو بیوقوفوں کی عقلوں سے چپک جاتی ہے۔سوا تمہارے کہ تم ایک چیز کی جا نب داری کرتے ہو ،مگر اس کی کوئی علت اور وجہ نہیں معلوم ہوتی ،ابلیس ہی کو لو کہ اس نے آدم کے سامنے حمیّت و جاہلیت کا مظاہرہ کیا تو اپنی اصل (آگ)کی وجہ سے اور ان پر چوٹ کی تو اپنی خلقت و پیدائش کی بناء پر ،چنانچہ اس نے آدم سے کہا کہ میں آگ سے بنا ہوں اور تم مٹی سے ( یونہی) خوش حال قوموں کے مالدار لوگ اپنی نعمتوں پر اتراتے ہوئے بڑی بول بولے کہ "ہم مال و اولاد میں بڑھے ہوئے ہیں ہمیں کیونکر عذاب کیا جاسکتا ہے "۔اب اگر تمہیں فخر کرنا ہی ہے تو ا س کی پاکیزگی اخلاق ،بلند کردار اور حسن سیرت پر فخر و ناز کرو کہ جس میں عرب گھرانوں کے با عظمت و بلند ہمت سر داران قوم اپنی خوش اطواریوں بلند پایہ دانائیوں اعلیٰ مرتبوں اور پسندیدہ کارناموں کی وجہ سے ایک دوسرے پر برتری ثابت کرتے تھے ۔تم بھی ان قابل ستائش خصلتوں کی طرفداری کرو۔جیسے ہمسایوں کے حقوق کی حفاظت کرنا عہدو پیمان کو نبھانا ۔نیکوں اطاعت او ر سر کشوں کی مخالفت کرنا حسن سلوک کا پابند اور ظلم و تعدی سے کنارہ کش رہنا خونریزی سے پناہ مانگنا،خلق خدا سے عدل و انصاف برتنا غصہ کو پی جانا،زمین میں شر انگیزی سے دامن بچانا تمہیں ان عذابوں او ر بد کرداریوں کی وجہ سے نازل ہو ئے اور (اپنے)اچھے اوربر ے حالا ت میں ان کے احوال و وار دات کو پیش نظر رکھو اور اس امر سے خائف و ترساں رہو کہ کہیں تمہیں بھی انہی کے جیسے نہ ہو جاؤ۔اگر تم نے ان کی دونوں (اچھی بری ) حالتوں پر غور کرلیا ہے تو پھر ہراس چیز کی پابندی کرو کہ جس کی وجہ سے عزت و برتری نے ہر حال میں ان کاساتھ دیا اور دشمن ان سے دور دور رہے اور عیش و سکون کے دامن ان پرپھیل گئے ۔اور نعمتیں سرنگوں ہو کر ان کے ساتھ ہو لیں اور عزت و سرفرازی نے اپنے بندھن ان سے جوڑ لےے ۔(وہ کیاچیز یں تھیں )یہ کہ وہ افتراق سے بچے اور اتفاق و یکجہتی پر قائم رہے ۔اسی پرایک دوسرے کو ابھارتے تھے او راسی کی باہم سفارش کرتے تھے اور تم ہر اس امر سے بچ کر رہو کہ جس نے ان کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ ڈالا اور قوت و توانائی کو ضعف سے بدل دیا ۔(اور وہ یہ تھا )کہ انہوں نے دلوں میں کینہ اور سینوں میں بغض رکھا ایک دوسرے کی مدد سے پیٹھ پھر الی او ر باہمی تعاون سے ہاتھ اٹھا لیا ۔اور تم کو لازم ہے کہ گزشتہ زمانہ کے اہل ایمان کے وقائع و حالات پر غور و فکرکرو،کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جانکاہ )مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی کیا وہ ساری کائنات سے زیادہ گرانبار تمام لوگوں سے زائد مبتلائے تعب و مشقت اور دنیاجہان سے زیادہ تنگی و ضیق کے عالم میں نہ تھے ؟کہ جنہیں دنیا کے فرعون نے اپنا غلام بنارکھاتھا اور انہیں سخت سے سخت اذیتیں پہنچاتے اور تلخیوں کے گھونٹ پلاتے تھے ا ور ان کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ وہ تباہی و ہلاکت کی ذلتوں اورغلبہ و تسلّط کی قہر سامانیوں میں گھرتے چلے جارہے تھے ۔نہ انہیں بچاؤ کی کو ئی تدبیر اور نہ روک تھام کا کوئی ذریعہ سو جھتا تھا ۔ یہاں تک کہ جب اللہ سبحانہ٘ نے دیکھا کہ یہ میری محبت میں اذیتوں پر پوری کدو کاوش سے صبر کئے جارہے ہیں اور میرے خیال سے مصیبتوں کو جھیل رہے ہیں تو ان کے لےے مصیبت و ابتلاء کی تنگنائے سے وسعت کی راہیں نکالیں اور ان کی ذلت کو عز ت و سرفرازی حاصل ہوئی ۔غور کرو !کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا ،خیالات یکسو اور دل یکساں تھے او ران کے ہاتھ ایک دوسرے کو سہارا دیتے اور تلواریں ایک دوسرے کی معین و مددگار تھیں اور ان کی بصیرتیں تیز اور ارادے متحد تھے ،تو اس وقت ان کا کیا عالم تھا ،کیا وہ اطراف زمین میں فرمانروا اور دنیا والوں کی گردنوں پر حکمرا ن نہ تھے؟اور تصویر کا یہ رخ بھی دیکھو !جب ان میں پھوٹ پڑگئی ۔یکجہتی درہم برہم ہو گئی ۔ان کی باتوں اور دلوں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے ،او ر وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے اور الگ جتھے بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے تو ان کی نوبت یہ ہوگئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا پیراہن اتار لیا اور نعمتوں کی آسائش ان سے چھین لیں اور تمہارے درمیان ان کے واقعات کی حکایتیں عبر ت بن کر رہ گئیں ۔

(اب ذرا ) اسماعیل کی اولاد اسحاق کے فرزندوں اوریعقوب کے بیٹوں کے حالات سے عبرت حاصل کرو ۔حالات کتنے ملتے ہوئے ہیں اور طور طریقے کتنے یکساں ہیں ۔ان کے منتشر و پراگند ہ ہو جانے کی صورت میں جو واقعات رو نما ہو ئے ،ان میں فکر و تعامل کرو کہ جب شاہا ن عجم اور سلاطین روم پر حکمران تھے وہ انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے خار دار جھاڑیوں ہواؤں کے بے روگ گزر گاہوں اور معیشت کی دشواریوں کی طرف دھکیل دیتے تھے اور آخر کار انہیں فقیرو نادار او رزخمی پیٹھ والے اونٹوں کا چرواہا اور بالوں کی جھونپڑیوں کا با شند ہ بنا چھوڑتے تھے ۔ان کے گھر بار دنیا جہاں سے بڑھ کر خستہ و خراب اور ان کے ٹھکانے خشک سالیو ں سے تباہ حال تھے ،نہ ان کی کوئی آواز تھی جس کے پرو بال کا سہارا لیں ،نہ انس و محبت کی چھاؤں تھی جس کے بل بوتے پر بھروسا کریں ۔ان کے حالات پراگندہ ہاتھ الگ الگ تھے کثرت و جمعیت بٹی ہوئی ، جانگدار مصیبتوں اورجہالت کی تہ بہ تہ تہوں میں پڑے ہو ئے تھے یوں کہ لڑکیا ں زندہ درگور تھیں (گھر گھر مورتی پوجا ہوتی تھی)رشتے ناتے توڑے جا چکے تھے اورلوٹ کھسوٹ کی گر م با زاری تھی ۔

دیکھو ! کہ اللہ نے ا ن پر کتنے احسا نات کئے ہیں کہ ان میں اپنا رسول بھیجا کہ جس نے اپنی اطاعت کا انہیں پابند بنایا اور انہیں ایک مرکز وحدت پر جمع کر دیا اور کیونکہ خوش حالی نے اپنے پروبال ان پر پھیلا دیئے اور ان کے لےے بخشش و فیضان کی نہریں بہا دیں او ر شریعت نے انہیں اپنی برکت کے بے بہا فائدوں میں لپیٹ لیا چنانچہ وہ اس کی نعمتوں میں شرابور اور اس کی زندگی کی ترو تازگیوں میں خوشحا ل اور ایک مسلّط فرمانروا (اسلا م کے)زیر سایہ ان کی زند گی کے تمام شعبے (نظم و ترتیب سے) قائم ہو گئے اور ان کے حالات (کی درستگی) نے انہیں غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دی او رایک مضبوط سلطنت کی سر بلند چوٹیوں میں (دین و دنیا کی ) سعادتیں ان پر جھک پڑیں ۔وہ تما م جہان پر حکمران اور زمین کی پہنائیوں میں تخت و تاج کے مالک بن گئے اور جن پابندیوں کی بنا پر دوسروں کے زیر دست تھے ۔اب یہ انہیں پابند بنا کر ان پر مسلّط ہوگئے ۔نہ ان کا دم خم ہی نکالا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کا کس بل توڑا جاسکتا ہے ۔

دیکھو ! تم نے اطاعت کے بندھنوں سے اپنے ہاتھوں کو چھڑا لیا اور زمانہ جاہلیت کے طور طریقوں سے اپنے گرد کھچے ہوئے حصار میں رخنہ ڈال دیا خدا وند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا ہے جس کی قدر وقیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہو ئی ) سے گراں تر اور ہر شرف بلندی سے بالاتر ہے ۔اور وہ یہ کہ ا ن کے درمیان انس ویکجہتی کا رابطہ (اسلام)قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں ،اور جس کے کنا ر (عاطفت ) میں پناہ لیتے ہیں ۔

یہ جانے رہو کہ تم (جہالت و نادانی ) کو خیر باد کہہ دینے کے بعد صحرائی بدوباہمی دوستی کی بعد پھر مختلف گروہوں میں بٹ گئے ہو اسلام سے تمہارا واسطہ نام کو رہ گیا ہے اور ایمان سے چند ظاہری لکیروں کے علاوہ تمہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا تمہارا قول یہ ہے کہ آگ میں کود پڑیں گے ۔مگر عار قبو ل نہیں نہ کریں گے گویا تم یہ چاہتے ہو کہ اسلام کی ہتک حرمت اور اس کا عہد توڑ کر اسے منہ کے بل اوندھا کر دو ،و ہ عہد کہ جسے اللہ نے زمین میں پناہ اور مخلوقات میں امن قرار دیا ہے ۔(یاد رکھو !کہ) اگر تم نے اسلام کے علاوہ کہیں اور کا ر خ کیا تو کفار تم سے جنگ کے لےے اٹھ کھڑے ہوں گے پھر نہ جبرئیل و میکا ئیل ہیں اور نہ انصار و مہاجر ہیں کہ تمہاری مدد کریں ،سوا اس کے کہ تلواروں کو کھٹکھٹاؤ یہاں تک کہ اللہ تمہارے درمیان فیصلہ کردے خدا کا سخت عذاب ،جھنجھوڑنے والا عقاب ابتلاؤں کے دن اور تعزیر و ہلاکت کے حادثے تمہارے سامنے ہیں ۔اس کی گرفت سے انجان بن کر اور اس کی پکڑ کو آسان سمجھ کر اور اس کی سختی سے غافل ہو کر اس کے قہرو عذاب کو دور نہ سمجھو ۔خدا وند عالم نے گزشتہ امتوں کو محض اس لےے اپنی رحمت سے دور رکھا کہ وہ اچھائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے سے منہ موڑ چکے تھے ۔چنانچہ اللہ نے بے وقوفوں پر ارتکاب گناہ کی وجہ سے اور دانشمندوں پر خطاؤں سے باز نہ آنے کے سبب سے لعنت کی ہے۔

دیکھو! تم نے اسلام کی پابندیاں توڑ دیں اور اس کی حدیں بیکار کر دیں اور اس کے احکام سرے سے ختم کردیئے ۔معلوم ہوناچاہیئے کہ اللہ نے مجھے باغیوں عہد شکنوں اور زمین میں فساد پھیلا نے والوں سے جہاد کرنے کاحکم دیا ۔چنانچہ میں نے عہد شکنوں (اصحاب جمل)سے جنگ کی نافرمانو ں (اہل صفین ) سے جہاد کیا او ر بے دینوں (خوارج نہروان ) کو بھی پوری طرح ذلیل کرکے چھوڑا ۔مگر گڑھے (میں گر کر مرنے) والا شیطان میرے لےے اس کی مہم سر ہو گئی ۔ایک ایسی چنگھاڑ کے ساتھ کہ جس میں اس کے دل کی دھڑکن او رسینے کی تھرتھر ی کی آوا زمیرے کانوں میں پہنچ رہی تھی۔اب باغیوں میں سے کچھ رہے سہے باقی رہ گئے ہیں اگر اللہ نے پھر مجھے ان پر دھاوا بولنے کی اجازت دی تو میں انہیں تہس نہس کر کے دولت و سلطنت کا رخ دوسری طرف موڑ دوں گا (پھر ) وہی لوگ بچ سکیں گے جو مختلف شہروں کی دور دراز حدوں میں تتر بتر ہوچکے ہوں گے ،میں نے تو بچپن ہی میں عرب کا سینہ پیوند زمین کر دیا تھا اور قبیلہ ربیعہ و مضر کے ابھرے ہوئے سینگو ں کو توڑ دیا تھا ۔تم جانتے ہی ہوکہ رسول اللہ سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدرومنزلت کی وجہ سے میرا مقام ان کے نزدیک کیا تھا میں بچہ ہی تھا کہ رسول نے مجھے گودمیں لے لیا تھا ۔اپنے سینے سے چمٹائے رکھتے تھے ۔بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے اورتھے اور اپنی خوشبو مجھے سنگھاتے تھے ۔پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے انہوں نے نہ تو میری کسی بات جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی اللہ نے آپ کی دودھ بڑھائی کے وقت ہی سے فرشتوں میں سے ایک عظیم المرتبت ملک (روح القدس)کو آپ کے ساتھ لگا دیا تھا جو انہیں شب و روز بزرگ خصلتوں او ر پاکیزہ سیرتوں کی راہ پر لے چلتا تھا ،اور میں ان کے پیچھے یوں لگا رہتا تھا اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے ۔آپ ہر روز میرے لےے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کرتے تھے او رمجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے اور ہر سال (کوہ)حرا میں کچھ عرصہ قیام فرماتے تھے اور وہا ں میرے علاوہ کوئی انہیں نہیں دیکھتا تھا ۔اس وقت رسول اللہ اور (ام المومنین)خدیجہ ۻکے گھر کے علاوہ کسی گھر کی چار دیواری میں اسلام نہ تھا البتہ تیسرا ان میں میں تھا میں وحی و رسالت کا نور دیکھتا تھا اور نبوت کی خوشبو سو نگھتا تھا ۔

جب آپ پر (پہلے پہل )وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ کیسی آواز ہے ۔آپ نے فرمایا کہ یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہوگیا ہے (اے علی)جو میں سنتا ہو ں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہو ں تم بھی دیکھتے ہو ،فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقینا بھلائی کی راہ پر ہو ۔میں رسول اللہ کے ساتھ تھا کہ قریش کی ایک جماعت آپ کے پاس آئی اور انہو ں نے آپ سے کہا کہ اے محمد آپ نے ایک بہت بڑا دعویٰ کیا ہے ۔ایسا دعویٰ نہ تو آپ کے باپ داد ا نے کیا نہ آپ کے خاندان والو ں میں سے کسی اور نے کیا ہم آپ سے ایک امر کا مطالبہ کرتے ہیں اگر آپ نے اسے پورا کر کے ہمیں دکھلا دیا تو پھر ہم بھی یقین کر لیں گے کہ آپ نبی و رسول ہیں اور اگر نہ کر سکے تو ہم جان لیں گے کہ(معاذاللہ) آپ جادوگر اور جھوٹے ہیں حضرت نے فرمایا کہ وہ تمہارا مطالبہ کیا ؟انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے لےے اس درخت کو پکاریں کہ یہ جڑ سمیت اکھڑ آئے اور آپ کے سامنے آکر ٹھہر جائے آپنے فرمایا بلاشبہ اللہ ہر چیز پرقادر ہے ۔اگر اس نے تمہارے لےے ایسا کر دکھایا تو کیا ایمان لے آؤ گے ۔اور حق کی گواہی دو گے ؟انہوں نے کہا ہاں آپنے فرمایا کہ اچھا جو تم چاہتے ہو تمہیں دکھائے دیتا ہوں اور میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم بھلائی کی طرف پلٹنے والے نہیں ہو ۔یقیناتم میں سے کچھ لوگ تو وہ ہیں جنہیں چاہ(بدر) میں جھونک دیا جائے گا اور کچھ وہ ہیں جو (جنگ )احزاب میں جتھا بندی کریں گے ۔پھر آپ نے فرمایا اے درخت اگر تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ۔تو اپنی جڑ سمیت اکھڑ آ یہاں تک کے تو بحکم خد ا میرے سامنے آکر ٹھہر جائے ۔(رسو ل کا یہ فرمانا تھا کہ) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا وہ درخت جڑ سمیت اکھڑ آیا اور ا س طرح آیا کہ اس سے سخت کھڑکھڑاہٹ اور پرندوں کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ کی سی آوازآتی تھی یہاں تک کہ وہ لچکتا جھومتا ہو ا رسول اللہ کے رو برو آکر ٹھہر گیا اور بلند شاخیں ان پر اور کچھ شاخیں میرے کندھوں پر ڈال دیں اور میں آپ کی دائیں جانب کھڑا تھا ۔جب قریش نے یہ دیکھا نخوت و غرور سے کہنے لگے کہ اسے کہیں کہ آدھا آپ کے پاس آئے اور آدھا اپنی جگہ پر رہے۔چنانچہ آپ نے اسے حکم دیا تو اسکا ادھا حصہ آپ کی طرف بڑھ آیا اس طرح کہ اس کا آنا پہلے آنے سے زیادہ عجیب صورت سے زیسدہ تیز آواز کے ساتھ تھا اوراب کہ وہ قریب تھا کہ وہ رسول اللہ سے لپٹ جائے انہوں نے کفر او شرکشی سے کہا کہ اب اس ادھے کو حکم دیجیے کہ کہ یہ اپنے دوسرے حصے کے پاس پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا چنانچہ آپ نے اسے یہی حکم دیا تو اس کا آدھا حصہ آپ کی طرف بڑھ آیا اس طرح کہ اس کا آنا (پہلے آنے سے بھی) ذیادہ عجیب صورت سے اور ذیادہ آواز کے ساتھ تھا اور اب وہ اس کے قریب تھا کہ وہ رسول اللہ سے لپٹ جائے اب انہوں نے کفر و سر کشی سے کہا کہ اب اس آدھے کو حکم دیجیے کہ یہ اطنے دوسرے حصے کی طرف پلٹ جائے جس طرح پہلے تھا چنانچہ آپ نے حکم دیا اور وہ پلٹ گیا میں نے (یہ دیکھ کر )کہا کہ لاالہ الااللہ اے اللہ کے رسو ل میں آپ پر سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں ، اور سب سے پہلے اس کا اقرار کرنے والا ہوں کہ اس کے درخت نے بحکم خدا آپ کی نبوت کی تصدیق اورآپ کے کلام کی عظمت و برتری دکھانے کے لےے جو کچھ کیا ہے و ہ امر واقعی ہے ۔(کوئی آنکھ کا پھیر نہیں )یہ سن کر وہ ساری قو م کہنے لگی کہ یہ (پناہ بخدا ) پرلے درجے کے جھوٹے اور جادوگر ہیں ۔ان کا سحر عجیب و غریب ہے اور ہیں بھی اس میں چابکد ست اس امر پر آپ کی تصدیق ان جیسے ہی کر سکتے ہیں اور اس سے مجھے مراد لیا (جو چاہیں کہیں )میں تو اس جماعت میں سے ہوں کہ جن پر اللہ کے بارے میں کوئی ملامت اثر انداز نہیں ہوتی وہ جماعت ایسی ہے جن کے چہرے سچوں کی تصویر اور جن کے کلام نیکوں کے کلام کا آئینہ وارہے ،وہ شب زندہ وار دن کے روشن مینار اور خدا کی رسی سے وابستہ ہیں یہ لوگ اللہ کے فرمانوں اور پیغمبر کی سنتوں کو زندگی بخشتے ہیں ،نہ سربلندی دکھاتے ہیں نہ خیانت کرتے ہیں اور نہ فساد پھیلاتے ہیں ۔ان کے دل جنت میں اٹکے ہوئے اور جسم اعمال میں لگے ہوئے ہیں ۔

۱۔ مطلب یہ کہ جس طرح حاسد محسود کی تباہی کے درپے ہوتا ہے اسی طرح تم کفران نعمت و ارتکاب معاصی سے زوال نعمت کے اسباب پیدا نہ کرو ۔

۲۔ مطلب یہ ہے کہ اگر ظاہری رعب و دبدبہ سے مرعو ب ہو کر ایمان لایا جائے گا اور قوت و طاقت سے متاثر ہو کر عبادت کی جائے گی تو یہ ایمان اپنے حقیقی مفہوم پر اور نہ عبادت اپنے اصلی معنی پر باقی رہے گی کیو نکہ ایمان تصدیق باطنی اور یقین قلبی کا نام ہے اور جبرو اکراہ سے جس یقین کا مظاہرہ کیا جائے گا وہ صرف زبانی اقرار ہو گا ۔مگر قلبی اعتراف نہیں ہو گا اور عبادت عبودیت کے م-ظا ہرہ کانام ہے اور جس عباد ت میں احساس عبو دیت و جذبہ نیاز مندی نہ ہو اور صرف سطوت و ہیبت کے پیش نظر بجا لائی گئی ہو وہ عبادت نہیں ہو سکتی ۔لہٰذا ایسا ایمان اور ایسی عبادت اپنے صحیح معنی و مفہوم کی آئینہ وار نہ ہوگی۔

۳۔ عالم اور فقیر کی وجہ تخصیص یہ ہے کہ عالم کے پاس علم کی روشنی ہوتی ہے جو اس کی رہنمائی کر سکتی ہے اور فقیر کی بے مائگی ا س کے لیے مانع ہو سکتی ہے مگراس کے باوجود عالم و فقیر دونوں اس کے فریب میں آجاتے ہیں تو پھر جاہل کس طرح اپنے کو اس کے ہتھکنڈوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور مالدار کہ جس کے پاس بے راہ روی کے سارے وسائل و ذرائع موجود ہوتے ہیں کس طرح اس سے اپنا بچاؤ کر سکتا ہے۔ کلا ان الانسان لیطغیٰ ان رآہ استغنیٰ بے شک انسان جب اپنے کو مالدار دیکھتا ہے تو سر کشی کرنے لگتا ہے ۔

امم سابقہ کے عرو ج و زوال اور وقائع و حالات پر اگر نظر کی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قوموں کا بننا بگڑنا صرف بخت و اتفا ق کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں بڑی حد تک ا ن کے افعال و اعمال کا دخل ہوتا ہے اور اعمال جس نوعیت کے ہوتے ہیں ،ویسا ہی ان کا نتیجہ و ثمرہ ظاہر ہوتا ہے چنانچہ گذشتہ قوموں کے حالات و واقعات اس کے آئینہ دار ہیں کہ ظلم و بد عملی کا نتیجہ ہمیشہ تباہی و ہلاکت اور نیکی اور سلامت روی کا ثمرہ ہمیشہ خوش بختی و کامرانی رہا ہے اور چونکہ زمانوں اور قوموں کے اختلاف سے نتا ئج میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔لہٰذا ویسے حالا ت اگر پھر پیدا ہوں اور ویسے واقعات اگر پھر دوہرائے جائیں تووہی نتائج اب بھی ظاہر ہوں ۔جو ان جیسے واقعات سے ظاہر ہو چکے ہیں لیکن نتائج کی یک رنگی ہی وہ چیز ہے جو گذشتہ واقعات کو بعد والوں کے لےے مرقع عبرت بنا کر پیش کرتی ہے چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر امیرالمومنین نے بنی اسماعیل و بنی اسحٰق وبنی اسرائیل کے مختلف حالات و ادوار اور شاہان عجم و روم کے ہاتھو ں ان کی ابتلا و مشقت اور تباہی و بربادی کا تذکرہ کر کے دعوت فکر و بصیرت دی ہے۔

حضرت ابراہیم کے بڑ ے فرزند حضرت اسماعیل کی اولاد بنی اسماعیل اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحٰق کی اولاد بنی اسحٰق کہلاتی ہے جو بعد میں شاخ در شاخ ہو کر مختلف قبیلوں میں بٹتی اور مختلف ناموں سے موسوم ہوتی گئی ،ان کا ابتدائی مسکن فلسطین کے علاقے میں مقام کنعان تھا ۔جہاں حضرت ابراہیم سر زمین دجلہ و فرات سے ہجرت کرکے مقیم ہوگئے تھے جہاں حضرت ابراہیم انہیں اور انکی والدہ کو چھوڑگئے تھے ان کے فرزند حضرت اسماعیل نے انہی اطراف میں بسنے والے قبیلہ جرہم کی ایک خاتون السیدہ بنت مضاض سے شادی کی جن سے ان کی اولاد پھلی پھولی اور اطراف و اکناف عالم میں پھیل گئی ۔حضرت ابراہیم کے دوسرے فرزند حضرت اسحٰق کنعان ہی میں مقیم رہے اور ان کے فرزند حضرت یعقو ب (اسرائیل )تھے ۔جنہو ں نے اپنے ماموں لبان ابن ناہر کی دختر لیا سے عقد کیا اور اس کے مرنے کے بعد ان کی دوسری صاحبزادی راحیل سے شادی کی اوران دونوں سے ان کی اولاد ہوئی جوبنیاسرائیل کہلاتی ہے ۔ان فرزندوں میں سے ایکفرزند حضرت یوسف تھے جو اپنے ہمسایہ ملک مصر میں ایک ناگہانی صورت سے پہنچ گئے اور غلامی و اسیری کی کڑیا ں جھیلنے کے بعد مصر بنی اسرائیل کا اس انقلاب کے بعد انہوں نے اپنے تمام عزیزوں اور کنبہ والوں کو بھی وہیں بلالیا اور اس طرح مصر بنی اسرائیل کا مستقر قرار پاگیا یہ لوگ کچھ عرصہ تک امن چین سے رہتے سہتے اور عزت و احترام کی زندگی گزارتے رہے مگر رفتہ رفتہ وہاں کے باشندے انہیں ذلت و حقارت کی نگا ہ سے دیکھنے لگے اور انہیں ہرطرح کے مظالم کا نشانہ بنالیا یہا ں تک کہ لڑکوں کو ذبح اور ان کی عورتوں کو کنیزی کے لےے رکھ لیتے تھے ،جس سے ان کی عزم وہمت پامال اور روح آزادی مضحمل ہو کر رہ گئی ۔آخر حالات نے پلٹا کھایا اور چار سو برس کے تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑ ے رہنے کے بعد نکبت و مصیبت کا دور کٹا اور فرعونی حکومت کے مظالم سے نجات دلا نے کے لےے قدرت نے حضرت موسیٰ کو بھیج دیا جو انہیں لے کر مصر سے نکل کھڑے ہوئے لیکن قدرت نے فرعون کو تباہ کرنے کے لےے اسرائیلیوں کا رخ دریائے نیل کی طرف موڑ دیا ۔جہاں آگے پانی کی طغیا نیاں تھیں ۔اور پیچھے فرعون کی دل بادل فوجیں جس سے یہ لوگ سخت پریشان ہوئے ۔مگر قدرت نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ بے کھٹکے دریا کے اندر اتر جائیں ۔چنانچہ جب وہ بڑھے تو دریا میں ایک چھوڑ کئی راستے پیدا ہو گئے اور حضرت موسیٰ اسرائیلیوں کو لے کر دریا کے اس پار اتر گئے ۔فرعون عقب سے آہی رہا تھا ۔جب اس نے ان کو گزرتے ہوئے دیکھا تو لشکر کے ساتھ آگے بڑھا اور جب وسط دریا میں پہنچا تو رکے ہوئے پانی میں حرکت پید اہوئی اور فرعون کو اور اس کے لشکر کو اپنی لپیٹ میں لے کر فنا کے گھاٹ اتار دیا چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے:

اور اس وقت کو یا د کرو کہ جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تمہیں برے سے بر اعذا ب دیتے تھے تمہارے لڑکوں کو ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہا ری عورتوں کو زندہ رہنے دیتے تھے ۔اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی کٹھن آزمائش تھی۔

بہر صور ت جب یہ حدود مصر سے نکل کراپنے آبائی وطن فلسطین و شام میں پہنچے تو اپنی سلطنت و حکومت کی بنیاد رکھ کر آزادی کی فضا ء میں سانس لینے لگے۔اور قدرت نے ان کی پستی و ذلت کو فرمانروائی کی بلندی و رفعت سے بدل دیا ۔

چنانچہ اللہ تعالےٰ کا ارشاد ہے۔

ہم نے اس جماعت کو جو کمزور و ناتواں سمجھی جاتی تھی زمین کے پو رب و پچھم کے ان حصوں کا وارث بنایا ۔جنہیں ہم نے اپنی برکتوں سے مالامال کیا ہے ۔ اے پیغمبر !تمہارے پروردگار کا خوشگوار وعدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا ۔چونکہ وہ (فرعون کے مظالم پر)صبرو استقامت سے جمے رہے اور جو کچھ فرعون او ر اس کی قوم بناتی اور جو عمارتیں بلند کرتی تھی ہم نے سب برباد کردیں ۔

اسرائیلیوں نے تخت فرما نر وائی پر قدم رکھنے اور خوشحال و فارغ البالی حاصل کرنے کے بعد دور غلامی کی تمام ذلتوں او ر رسوئیوں کو فرا موش کر دیا ۔اور اللہ کی بخشی ہوئی شکر گزار ہونے کی بجائے سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے چنانچہ وہ بد کرداری و بد اخلاقی کی طرف بے جھجک بڑھتے ۔شرارتوں اور فتنہ انگیزیوں میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیتے ،حیلے حوالوں سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرانے میں کوئی باک نہ کرتے۔خدا کی طرف سے تبلیغ و دعوت کے فرائض سرانجام دینے والے انبیا ء کو ستاتے اور ان کے خون ناحق سے ہاتھ رنگتے ۔اب ان کی بد اعمالیوں کا تقاضا یہی تھا انہیں ان کے پاس عمل کی گرفت میں جکڑ لیا جائے ۔چنانچہ بخت نصر کہ جو ۶۰۰ق ۔م۔بابل (عراق )پر اپنا پرچم حکو مت لہرا رہا تھا ۔شام فلسطین پر حملہ کرنے کے لےے اٹھا اور اپنی خونچکاں تلوارو ں ستر ہزا ر اسرائیلیوں کو قتل اور ان کی بستیوں کو تباہ و بربا د کردیا ،اور بقیتہ السیف کو بھیڑ بکریو ں کی طرح ہنکا کر کے اپنے ساتھ لے لیا ،اور انہیں غلامی کے بندھنوں میں کر قعر مذلت میں لا پھینکا ۔اگرچہ اس تباہی و بربادی کے بعد کوئی ایسی صورت نظر نہ آتی تھی کہ وہ پھر اوج و عروج حاصل کر سکیں گے مگر قدرت نے انہیں سنبھلنے کا ایک موقع دیا ۔چنانچہ بخت نصر کے مرنے کے بعد حکومت کا نظم و نسق بیل شازار کے سپرد ہوا ،تو اس نے رعیت پر طرح طرح کے مظالم شروع کر دیئے جس سے تنگ آکر وہاں کے باشندوں نے شہنشاہ فارس (سائرس) کو پیغام بھجوایا کہ ہم اپنے فرمانروا کے ظلم وجورہتے سہتے عاجز آگئے ہیں ۔آپ ہماری دستگیری کیجئے اور بیل شازار کے مظالم سے چھٹکارا دلایئے ۔سائرس جو عدل گستر و انصاف پرور حکمران تھا ۔ اس آواز پر لبیک کہتا ہو ا اٹھ کھڑ اہو ا ،وہاں کے لوگوں کے تعاون سے اس نے بابل کی حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔جس کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کی گردنوں سے غلا می کا طوق اترااور فلسطین کی طرف پلٹ جانے کی اجازت مل گئی ۔چنانچہ انہوں نے ستر برس غلامی میں گزارنے کے بعد دوبارہ اپنے ملک میں قدم رکھا اور حکومت کی باگ سنبھال لی ۔اب وہ گزشتہ واقعا ت سے عبرت حاصل کرتے تو ان بد اعمالیوں کے مرتکب نہ ہوتے کہ جن کے نتیجہ میں انہیں غلامی کی ذلت سے دوچا ر ہو نا پڑاتھا۔ مگر اس ناہنجار قو م کے مزاج کی ساخت ہی کچھ اس طر ح کی تھی کہ جب بھی انہیں آسائش و فارغ البالی حاصل ہوتی تو دولت کی سر مستیوں میں کھو جاتے اور عیش پر ستیوں میں پڑ جاتے ۔احکا م شریعت کا تمسخر اڑاتے اور انبیاء کا استہزا ء کرتے بلکہ ان کے قتل سے بھی ان کی جبیں پر کو ئی شکن نہ آتی تھی۔چنانچہ جب ان کے فرمانروا ہیرو دیس نے اپنی محبوبہ کے کہنے سے حضرت یحی ٰ کا سر قلم کرکے اسے بطور تحفہ پیش کیا تو کسی ایک سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ وہ اس ظلم کے خلا ف کوئی آواز بلند کرتا یا اس سے کوئی اثر لیتا ۔ان کی سرکشیوں اور منہ زوریوں کا یہی عالم تھا کہ حضرت عیسیٰ نے ظہور فرمایا جو انہیں بے راہ رویوں سے روکتے اور نیکی و خوش اطواری کی تلقین فرماتے تھے لیکن انہوں نے ان کی بھی مخالفت کی اور طرح طرح کے دکھ پہنچائے یہاں تک کہ ان کی زندگی کا خاتمہ کر دینے کے درپے ہوگئے ،لیکن قدرت نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا اور حضرت عیسیٰ کو ان کے دستبرد سے محفوظ کردیا ۔جب ان کی طغیانیا ں اس حد تک بڑھ گئیں اور قبول ہدایت کی صلاحیتیں دم توڑ چکیں تو تقدیر نے ان کی ہلا کت و بربادی کا سامان مکمل کر کے ا ن کی تبا ہی کا فیصلہ کرلیا ۔چنانچہ قیصر و روم اسنبانوس نے اپنے لڑکے ملیطوس (ٹیٹس )کو شام پر حملہ کر نے کے لےے بھیجا جس نے بیت المقدس کے گرد گھیرا ڈال دیا ۔مکانوں کو مسمار اور ہیکل کی دیوارو ں کو توڑ دیا جس سے ہزاروں اسرائیلی کو چھوڑ کر منتشر ہو گئے اور ہزاروں بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر گئے اور چورہ گئے وہ تلواروں کی نذر ہو گئے اور وہ اسرائیلی جو حصار کے زمانہ میں بھاگ کھڑے ہو ئے تھے ۔اس میں سے بیشتر مجاز و یثرب میں آکر آبا د ہوگئے ۔مگر پیغمبر آخرالزماں کے انکار سے ا ن کی قومیت کا شیرازہ اس طرح بکھر کر پھر کسی مرکز عزت پر جمع نہ ہوسکے اور ذلت و رسوائی کے سوا عزت و سرفراز ی کی زندگی انہیں نصیب نہ ہو ئی۔اسی طرح شاہان عجم نے بھی عرب پر شدید حملے کئے اور وہاں کے باشندوں کو مقہور ہ مغلوب بنا لیا ۔چنانچہ سابو رابن ہر مزنے سولہ برس کی عمر مےں چارہزار جنگجوؤں کواپنے ساتھ لے کر ان عر بوں پر حملہ کےا جو حدود فارس مےں آبادتھے اورپھر بحرےن قطےف اور حجرکی طرف چڑھائی کی اور بنیتمیم وبنی بکرابن دائل و بنیعبد قیس تباہ و برباد کیا اور ستر ہزار عربوں کے شانے چیر ڈالے جس سے اس کا لقب زوالہ کناف پڑ گیا ۔اس نے عربو ں کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ صرف بالوں کی جھونپڑیوں میں رہیں اپنے سر کے بالوں کو بڑھالیں ۔سفید لباس نہ پہنیں اور بغیر زین کے گھوڑوں پر سواری کریں او رپھر عراق و شام کے درمیان نصیبین ہیں بارہ ہزار اصفہان اور فارس کے دوسرے شہروں کے باشندے بسائے اوراس طرح وہاں کے رہنے والوں کو سر سبز و شاداب جگہوں سے صحراؤں اور بے آب و گیاہ جنگلوں کی طرف دھکیل دیا ۔جہاں نہ زندگی و راحت کا کوئی ساما ن تھا ۔اور نہ معیشیت کاکوئی ذریعہ اور یہ کہ آپس کے تفرقہ و انتشار کے نتیجہ میں مدتوں تک دوسروں کی قہر سامانیوں کا نشانہ بنتے رہے آخر قدرت نے سرور کائنات کو مبعوث فرما کر انہیں ذلت سے عروج و رفعت کی بلند منزل پر پہنچا دیا ۔

۵۔گڑھے میں گر مرنے والے شیطان سے مراد ذوالشدیہ ہے جو نہروان میں صاعقہ ء آسمانی کے گرنے سے ہلاک ہو ا اور اس پر تلوار اٹھانے کی ضرور ت ہی نہ پڑی اس کی ہلاکت کے متعلق پیغمبراکرم پیشن گوئی فرما چکے تھے ۔اس لےے امیر المومنین نہروان کے میدا ن میں استیصال خوارج کے بعد اس کی تلاش میں نکلے ۔لیکن س کی لاش کہیں نظر نہ آئی ۔مگر ریان ابن صبر ہ نے نہر کے کنا رے ایک گڑھے کے اندر چالیس پچاس لاشیں دیکھیں ۔جب انہیں نکالا گیا تو ان میں ذوالثدیہ کی بھی لاش تھی اور اس کے شانے پر گوشت کا ایک لوتھڑ اابھرا ہوا تھا جس کی وجہ سے اسے ذوالثدیہ کہا جاتا تھا ۔جب امیرالمومنین[ع]نے دیکھا تو فرمایا۔

-"اللہ واکبر ۔خد اکی قسم ! نہ میں نے جھوٹ کہا تھا اور نہ مجھے جھوٹی خبر دی گئی تھی "۔

خطبہ 190: جس میں ابلیس کی مذمت ہے․اس کے تکبر و غرور اور آدم  کے آگے سر بسجود نہ ہونے پر ․اور پہلی اُمتوں کے وقائع و حالات سے مواعظ و عبرت کا درس (خطبہ قاصعہ)