Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، حقیقی معنوں میں بخیل وہ ہوتا ہے جس کے سامنے میرا نام لیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔ بحارالانوار کتاب الایمان والکفر باب36 حدیث28

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 187: پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی قبل ان تفقدونی اور بنی امیہ کے بارے میں پیش گوئی

ایک ایمان تو وہ ہوتا ہے جو دلوں میں جما ہوتا ہے اور برقرا ر ہوتا ہے، اور ایک وہ کہ دلوں اور سینے (کی تہوں ) میں ایک مقرر مد ّت تک عاریتہ ہوتا ہے لہٰذا اگر کسی ایک میں تمہیں کوئی برائی نظر آئے کہ جس سے تمہیں اظہار بیزاری کرنا پڑے تو اسے اس وقت تک مو قوف رکھو کہ اس شخص کو موت آجائے کہ اس موقعہ پر اظہار بیزاری اپنی حد پر واقع ہوگی۔ ہجرت کا اصول پہلے ہی کی طرح اب بھی برقرار ہے۔ اہل زمین میں کوئی گروہ چپکے سے خدا کا راستہ اختیا ر کر لے یا علانیہ۔ بہر حال اللہ کو اس کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔ زمین میں حجّت خدا کی معرفت کے بغیر کسی ایک کو بھی صحیح معنی میں مہاجر نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں جو اسے پہچانے اور اس کا اقرار کرے وہی مہاجر ہے اور جس تک حجّت (الٰہیہ) کی خبر پہنچے، کہ اس کے کان سن لیں ، اور دل محفوظ کر لیں تو اسے مستضعفین میں (جو ہجر ت سے مستثنی ہیں ) داخل نہیں سمجھا جا سکتا، بلاشبہ ہمارا معاملہ ایک امر مشکل و دشوار ہے جس کا متحمل وہی بندہ مومن ہوگا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے لیے پرکھ لیا ہو، اور ہمارے قول و حدیث کو صرف امانت دار کے سینے اور ٹھوس عقلیں ہی محفوظ رکھ سکتی ہیں اے لوگو مجھ سے پوچھ لو کہ میں زمین کی راہوں سے زیادہ آسمان کے راستو ں سے واقف ہوں قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیروں کو اٹھائے جو مہار کو بھی اپنے پیروں کے نیچے روند رہا ہو، اور جس نے لوگو ں کی عقلیں زائل کر دی ہوں ۔

1- امیر المومنین [ع]کے اس ارشاد کی بعض نے یہ توضیح کی ہے کہ زمین کی راہو ں سے مراد امو ر دنیا اور آسمان کے راستوں سے مراد احکام شرعیہ ہیں اور حضرت یہ کہنا چاہتے ہیں کہ امور دنیا داری سے زائد احکام شرعیہ و فتاوٰی فقیہہ کے واقف ہیں ۔ چنانچہ ابن میثم تحریر کرتے ہیں :

امام دبری سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت کا اس سے مقصد یہ ہے کہ ان کے دینی معلومات کا دائرہ دنیاوی معلومات سے وسیع تر ہے

سلونی قبل ان تفقدونی۔

لیکن سیاق و سباق کلام کو دیکھتے ہوئے یہ معنی صحیح قرار نہیں دیئے جاسکتے کیونکہ یہ جملہ۔ سلونی قبل ان تفقدونی۔ کی علت کے طور پر وارد ہوا ہے اور اس کے بعد فتنہ انگیزی کی پیشن گوئی ہے اور ان دونوں جملوں کے درمیان یہ قول کہ میں امور دنیا سے زیادہ احکام شرعیہ سے واقف ہوں کلام کو بے ربط بنا دیتا ہے۔ کیو ں کہ حضرت کا دعویٰ جو چاہو پوچھ لو احکا م شرعیہ تک محدود نہیں ہے کہ یہ جملہ اس کی علت قرار پا سکے اور پھر اس کے بعد فتنہ کے اٹھ کھڑے ہونے کی جو پیشن گوئی کی ہے اسے مسائل شرعیہ سے کوئی واسطہ نہیں ہے کہ اسے امور دنیا سے علوم دینیہ کے زیادہ جاننے کے ثبوت میں پیش کیا جائے لہٰذاالفاظ کے واضح مفہوم کو نظر انداز کر کے ایسی تاویل کرنا کہ جس کا موردو محل متحمل نہ ہوسکے کسی صحیح جذنہ کی ترجمانی نہیں کرتا جبکہ سیاق وسباق کے اعتبار سے وہی معنی درست بی-ٹھتے ہیں کہ جنہیں ظاہر الفاظ ادا کر رہے ہیں ۔ چنانچہ حضرت فتنہ بنیامیہ سے آگاہ کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ تم جوچاہو مجھ سے پوچھ لو، کیونکہ میں مقدرات الہیہ کے مجاری و مسالک کو زمین کی راہو ں سے زیادہ جانتا ہوں ۔ لہٰذا اگر تم ان امور کے متعلق بھی دریافت کرنا چاہوگے جو لوح محفوظ میں ثبت تقدیر الہی سے وابستہ ہیں تو میں تمہیں بتا سکتا ہو ں اور میرے بعد ایک سخت فتنہ اٹھنے والا ہے جس میں تمہیں شک وشبہ نہ ہونا چاہیے۔ کیونکہ میری نظریں زمین پر ابھرنے والے نقوش سے زیادہ ان فلکی خطوط سے آشنا ہیں کہ جن سے حوادث و فتن کا ظہور وابستہ ہے اور اس فتنہ کا ظہور اتنا ہی یقینی ہے جتنا آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتاہے۔ لہٰذا تم اس کی تفصیل اور اس سے بچاؤ کی صورت مجھ سے دریافت کرلو تاکہ وقت آنے پر اپنی حفاظت کا سامان کر سکو۔ اس معنی کی تائید حضر ت کے ان متواتر ارشادات سے بھی ہوتی ہے۔ کہ جو آپ نے غیب کے سلسلہ میں فرمائے اور مستقبل نے ان کی تصدیق کی۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے حضرت کے اس دعویٰ پر تبصرہ کرتے ہو ئے تحریر فرمایا ہے۔

امیرالمومنین[ع]کے اس کلا م کے متعلق لکھا جا چکاہے کہ کسی اور کو اس طرح کا دعویٰ کرنے کی جرات نہ ہوسکی اور جنہوں نے اس طرح کا دعویٰ کیا انہیں ذلت و رسوائی ہی اٹھانا پڑی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں چند واقعات درج کئے جاتے ہیں ۔

(1) مقاتل ابن سلیمان نے ایک موقع پر دعویٰ کیا کہ سلونی عمادون العرشعرش ادھر کی جو بات چاہو پوچھ لو۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا کہ جب حضرت آدم  نے حج کیا تھا تو انہوں نے سر کس سے منڈوایا تھا۔ مقاتل نے کہا اللہ نے تمہارے دل میں یہ سوال اس لیے ڈالا تاکہ مجھے اس نخوت و غرور پر رسوا و ذلیل کرے۔ بھلا مجھے اس کا کہاں علم ہو سکتا ہے۔

(2) ایک مرتبہ اسی مقاتل ابن سلیمان نے اپنے علم کا ثبوت دینے کے لیے کہا کہ مجھ سے عرش کے نیچے اور زمین کے نیچے کی جو چیز پوچھنا چاہو پوچھ لو ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں عرش اور تحت الثریٰ کی بات دریافت نہیں کرتا۔ بلکہ صرف زمین کے اوپر ہی کی ایک چیز پوچھتا ہوں جس کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے اور وہ یہ کہ اصحاب کہف کے کتے کا کیا رنگ تھا مقاتل نے سنا تو شرمندگی سے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔

(3) ابراہیم ابن ہشام نے حج کے موقع پر کہا سلونی سلونی فانا ابن الوحید لاتسئلو اعلم منی مجھ سے پوچھو میں یکتائے روزگار اور علم زمانہ ہوں ، جس پر ایک عراقی نے پوچھا کیا قربانی واجب ہے؟ مگر اس کے پا س اس کا کو ئی جواب نہ تھا۔

(4) شافعی نے مکہ میں کہا کہ سلونی ما شئتم احد ثکم من کتاب اللہ و سنتہ نبیہ جو چاہو مجھ سے پوچھ لو میں کتاب و سنت سے ا س کا جواب دوں گا۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے کہ جس نے حالت احرام میں زنبور کو مار دیا ہو۔ مگروہ کتاب و سنت سے کوئی جواب نہ دے سکے۔

(5) مقاتل ابن سلیمان کے ایسا ہی دعویٰ کرنے پر ایک شخص نے پوچھا کہ چیونٹی کی انتڑیاں اس کے جسم کے اگلے حصے میں ہوتی ہیں یا پچھلے حصہ میں ! مگر وہ کچھ جواب نہ دے سکا۔

(6) جب قتادہ کوفہ میں وارد ہوا۔ اور لوگوں کا اس کے گرد اجتماع ہوا تو اس نے کہا کہ جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے ایک شخص سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ حضر ت سلیمان کے واقعہ میں جس چیونٹی کا ذکر ہے وہ نر تھی کہ مادہ تھی اس سے دریافت کیا گیا مگر وہ جواب سے عاجز رہا۔ جب حضرت ابو حنیفہ سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہاکہ وہ مادہ تھی۔ لوگوں نے کہا کہ اس کی دلیل کیا ہے۔ کہا کہ اللہ سبحانہ٘ کا ارشاد قالت نملتہ اس کے مادہ ہو نے کی دلیل ہے۔ اگر نر ہوتا تو قالت کی بجائے قال ہوتا۔ لیکن یہ جو اب درست نہیں ہے،کیو نکہ نملتہ کا اطلاق مذکر و مؤنث پر یکساں ہو تا ہے اور فعل کی تانیث نملہ کی تانیث کی وجہ سے ہے۔ نہ اس کے مادہ ہونے کی بنا پر۔

(7) ابن جوزی نے ایک دن منبر پر یہی دعویٰ کیا تو ایک خاتون نے دریافت کیا کہ اس روایت کے متعلق تمہارا کیا خیا ل ہے کہ امیرالمومنین  سلمان کی خبر مرگ سن کر ایک ہی رات میں مدائن پہنچ گئے اور ا ن کی تجہیز و تکفین کی۔ فرمایا کہ ہاں درست ہے پھر اس نے پوچھا کہ اس روایت کے متعلق کیا کہتے ہو، کہ خلیفہ ثالث تین دن تک دفن نہ ہوسکے، حالانکہ امیرالمومنین [ع]مدینہ میں ہی تشریف فرما تھے، کہا کہ ہاں یہ بھی درست ہے۔ اس نے پھر کہا کہ امیرالمومنین  کا کون سا اقدام درست اور کون سا غلط تھا۔یہ سن کر وہ کچھ چکرا سے گئے، مگر پھر سنبھل کر بولے اے خاتون تو شوہر کے اذ ن سے آئی ہے تو اس پر لعنت ہو، ورنہ تجھ پر کہ تو بے جھجک یہاں چلی آئی ہے۔ اس نے کہاکہ ا ے جوزی کیامیں پوچھ سکتی ہوں کہ ام المومنین کا نکلنا کس ذیل میں آتا ہے ا س کے بعد جوزی کے لیے جواب کی کوئی گنجائش نہ تھی۔

(8) ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ الناصر الدین اللہ کے عہد میں ایک واعظ طلاقت لسانی بڑی شہرت رکھتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے دوران بیان میں صفا تِ باری کا مسئلہ چھیڑ دیا جس پر بغداد کے ایک شخص احمد ابن عبدالعزیز نے کچھ اعتراضات کیے جن کا کوئی معقول جواب تو وہ دے نہ سکا، البتہ اپنی عظمت و جلالت کا سکّہ بٹھا نے کے لیے پر شکوہ لفظوں اور مسجع عبارتوں سے کھیلنا شروع کردیا جس سے عوام جھومنے لگے اور ہر طرف سے تحسین و آفرین کی آوازیں آنے لگیں ۔ واعظ بھی غرور علمی کے نشہ باطل میں بہک گیا اور مجمع سے کہنے لگا کہ جو پوچھنا چاہو پوچھ لو جس پر احمد نے کہا کہ اے شخص یہ دعویٰ تو حضرت علی ابن ابی طالب کا ہے اور اس کلام کا ایک تتمہ یہ بھی ہے کہ میرے بعد یہ دعویٰ وہی کرے گا جو جھوٹا ہوگا۔ واعظ نے اپنے علم کی نمائش کرتے ہوئے بڑی تمکنت سے کہاکہ تم کس علی ابن ابی طالب کا ذکرکرتے ہو، کیا علی ابن ابی طالب ابن مبارک نیشا پو ری کایا علی ابن ابی طالب ابن اسحاق مروزی کا یا علی ابن ابی طالب بن عثمان قیروانی کا یا علی ابن ابی طالب ابن سلیمان رازی کا۔ اسی طرح کتنے اشخاص گنو ادیئے جن کانام علی ابن ابی طالب تھا یہ سن کر احمد نے کہا :

واہ سبحان اللہ !اس وسعت علمی کا کیا ٹھکانا، مگر میری مراد وہ ہیں جو سیدةالنساء العالمین کے شوہر تھے اور جب پیغمبر نے صحابہ میں ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا تھا تو انہیں اپنی اخوت کے لیے منتخب کیا تھا۔ اس نے کچھ جواب دینا چاہا کہ منبر کی داہنی طرف سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے شیخ محمد ابن عبد اللہ نام کے تو سینکڑوں ملیں گے۔ مگر ان میں ایک بھی ایسا نہ ملے گا۔ جس کے حق میں قدرت نے کہا ہو کہ۔

ماضل صاحبکم وما غوی وما ینطق و عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ

تمہارے ساتھی (پیغمبر) نہ بھٹکے نہ گمراہ ہوئے اور وہ خواہش سے مغلوب ہو کر کچھ نہیں بولتے یہ تو وحی ہے جو ان پر اترتی ہے۔

اسی طرح علی ابن ابی طالب، نام کے بہت سے افراد مل جا ئیں گے۔ مگر ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں زبان وحی ترجمان نے کہا ہو کہ انت منی بمنزلة ھارون و مو سیٰ الاانہ لا نبی بعدی (تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون موسیٰ سے رکھتے تھے، مگر یہ کہ میرے بعد کو ئی نبی نہیں ہے)۔ اب واعظ نے ادھر اُدھر رخ کرنا چاہا تو بائیں طرف سے ایک شخص اٹھا کہ ہا ں ہاں اگر تم علی ابن ابی طالب کو نہ پہچانو تواس تجاہلِ عارفانہ سے ان کی قدرو منزلت گھٹ نہیں سکتی۔

شپ پرہ گرو صل آفتاب نخواہد رونق بازار آفتاب نکاہد

اس بحثا بحثی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آپس میں الجھ پڑے اور واعظ منہ چھپا کر بھاگ کھڑا ہوا۔