Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، خلوص کے ساتھ کی جانے والی توبہ گناہوں کو ختم کردیتی ہے۔ غررالحکم حدیث3836

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 180: خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی ․پہلی اُمتوں کی حالت اور شہداء صفین پر اظہار تاٴسف

نوف بکالی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضرت نے یہ خطبہ ہمارے سامنے کوفہ میں اس پتھر پرکھڑے ہو کر ارشاد فرمایا جسے جعدہ ابن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا ۔اس وقت آپ کے جسم مبارک پر ایک اونی جُبہّ تھا ۔اور آپ کی تلوار کا پر تلہ لیف خرما کا تھا او رپیروں میں جوتے بھی کھجور کی پتیوں کے تھے ۔اور (سجدوں کی وجہ سے) پیشانی یوں معلوم ہوتی تھی جیسے اونٹ کے گھٹنے پر کاگھٹا ۔

تمام حمد اس اللہ کے لےے ہے جس کی طرف تما م مخلو ق کی باز گشت اور ہر چیز کی انتہا ہے ہم اس کے عظیم احسان روشن و واضح برہان اور لطف و کرم کی افزائش پر اس کی حمدو ثناء کرتے ہیں ۔ایسی حمد کہ جس سے ا س کا حق پورا ہو او رشکر ادا ہواور اس کے ثواب کے قریب لے جانے والی اور اس کی بخششوں کو بڑھانے والی ہو ہم اس سے اس طرح مدد مانگتے ہیں جس طرح اس کے فضل کا امیدوار اس کے نفع کا آرزو مند (دفع بلیات کا)اطمینان رکھنے والا اور بخشش و عطا کا معترف او رقول و عمل سے اس کا مطیع و فرمانبردار ا س سے مدد چاہتا ہو اور ہم اس شخص کی طرح اس پر ایمان رکھتے ہیں جو یقین کے ساتھ اس سے آس لگائے ہو او ر ایمان (کامل) کے ساتھ اس کی طرف رجوع ہو او ر اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ اس کے سامنے عاجز ی و فروتنی کرتا ہو اور اسے ایک جانتے ہوئے اس سے اخلاص برتتا ہو ،اور سپاس گذاری کے ساتھ اسے بزرگ جانتا ہو اور رغبت و کوشش سے ا س کے دامن میں پناہ ڈھونڈتا ہو ا س کا کوئی بات نہیں کہ وہ عزت و بزرگی میں اس کا شریک ہو نہ اس کے کوئی اولاد ہے کہ اسے چھوڑ کر وہ دنیا سے رخصت ہو جائے اور وہ اس کی وارث ہو جائے نہ اس کے پہلے وقت اور زمانہ تھا ،نہ اس پر یکے بعد دیگرے کمی اور زیادتی طاری ہوتی ہے بلکہ جو اس نے مضبو ط نظام (کائنات ) اور اٹل احکام کی علامتیں ہمیں دکھائی ہیں ۔ ان کی وجہسے وہ عقلو ں کے لےے ظاہر ہوا ہے چنانچہ اس آفر نیش پر گواہی دینے والوں میں آسمانوں کی خلقت ہے کہ جو بغیر ستونوں کے ثابت و برقرار اور بغیر سہارے کے قائم ہیں خداوند عالم نے انہیں پکارا تو یہ بغیر کسی سستی اور توقف کے اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے لبیک کہہ اٹھے اگر وہ اس کی ربوبیت کا اقرار نہ کرتے اور اس کے سامنے سر اطاعت نہ جھکاتے تو وہ انہیں اپنے عرش کا مقام اور اپنے فرشتوں کا مسکن اور پاکیزہ کلموں اور مخلوق کے نیک عملوں کے بلند ہونے کی جگہ نہ بناتا ۔اللہ نے ان ستاروں کو ایسی روشن نشانیاں قرار دیا ہے کہ جن سے حیران و سر گرداں اطراف زمین کی راہوں میں آنے جانے کے لےے راہنمائی حاصل کرتے ہیں ۔اندھیری رات کی اندھیاریوں کے سیاہ

پردے ان کے نور کی ضو پاشیوں کو نہیں روکتے اور نہ شب ہائے تاریک کی تیرگی کے پردے یہ طاقت رکھتے ہیں کہ وہ آسمانوں میں پھیلی ہوئی چاند کے نور کی جگمگاہٹ کو پلٹا دیں ۔پاک ہے وہ ذات جس پر پست زمین کے قطعوں اور باہم ملے ہوئے سیاہ پہاڑوں کی چوٹیوں میں اندھیری رات کی اندھیاریاں اور پرسکون شب کی ظلمتیں پوشیدہ نہیں ہیں اور نہ افق آسمان میں رعد کی گرج اس سے مخفی ہے اور نہ وہ چیزیں کہ جن بربادیوں کی بجلیا ں کو ند کرنا پیدا ہو جاتی ہیں اور نہ وہ پتے جو(ٹوٹ کر) گرتے ہیں کہ جنہیں (بارش کے)نشتروں کی تند ہوائیں اور موسلا دہار بارشیں ان کے گرنے کی جگہ سے ہٹا دیتی ہیں ۔وہ جانتا ہے کہ بارش کے قطرے کہاں گر یں گے اور کہاں ٹھہریں گے ۔اور چھوٹی چیونٹیاں کہاں رینگیں گی اور کہاں (اپنے )کو کھینچ کر لے جائیں گی اور مچھروں کو کون سی روزی کفایت کرے گی اور مادہ اپنے پیٹ میں کیا لےے ہوئے ہے ۔

تمام حمد اس اللہ کے لےے ہے جو عرش و کرسی زمین و آسمان اور جن و انس سے پہلے موجود تھا ۔نہ (انسانی)وہموں سے اسے جانا جا سکتا ہے اور نہ عقل و فہم سے ا س کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔اسے کوئی سوال کرنے والا (دوسرے سائلوں سے)غافل نہیں بناتا اور نہ بخشش و عطا سے اس کے ہاں کچھ کمی آتی ہے وہ آنکھوں سے دیکھا نہیں جاسکتا او رنہ کسی جگہ میں اس کی حد بند ی ہو سکتی ہے ۔نہ ساتھیوں کے ساتھ اسے متصف کیا جاسکتا ہے اور نہ اعضاء و جوارح کی حرکت سے وہ پیدا کرتا ہے اور نہ حواس سے وہ جانا پہچاناجاسکتا ہے ۔اور نہ انسانوں پر اس کا قیاس ہوسکتاہے وہ خد اکہ جس نے بغیراعضا ء و جوارح اور بغیر گویائی اور بغیرحلق کے کوؤں کو ہلائے موسیٰ علیہ السلام سے باتیں کیں اور انہیں اپنی عظیم نشانیاں دکھلائیں اے اللہ کی توصیف میں رنج و تعب اٹھانے والے اگرتو(اس سے عہدہ برآہونے میں )سچا ہے تو پہلے جبرئیل و میکائیل اورمقرب فرشتوں کے لاؤ لشکر کا وصف بیان کر کہ جو پاکیزگی و طہارت میں اس عالم میں سر جھکائے پڑے ہیں کہ ا ن کی عقلیں ششدرو حیران ہیں کہ وہ اس بہترین خالق کی توصیف کر سکیں ۔ صفتوں کے ذریعے وہ چیزیں جانی پہچانی جاتی ہیں جو شکل وصورت او ر اعضاء وجوارح رکھتی ہوں اور وہ کہ جو اپنی حد انتہا کو پہنچ کر موت کے ہاتھوں ختم ہوجائیں ۔اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ جس نے اپنے نور سے تمام تاریکیوں کو روشن و منورکیا اور ظلمت (عدم)سے ہر نور کو تیرہ تار بنادیا ہے۔

اللہ کے بندو ! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں جس نے تم کو لباس سے ڈھانپا اور ہر طرح کا سامان معیشیت تمہارے لےے مہیا کیا اگر کوئی دنیاوی بقاء کی (بلندیوں پر) چڑھنے کا زینہ یا موت کو دور کرنے کا راستہ پاسکتا ہوتا تو وہ سلیمان ابن داؤد (علیہا السلام) ہوتے کہ جن کے لےے نبوت و انتہائے تقرب کے ساتھ جن و انس کی سلطنت قبضہ میں دے دی گئی تھی ۔لیکن جب وہ اپناآب ودانہ پورا اور اپنی مدت (حیات ) ختم کر چکے تو فنا کی کمانوں نے انہیں موت کے تیروں کی زد پر رکھ لیا گھر ان سے خالی ہوگئے اور بستیاں اجڑ گئیں اور دوسرے لوگ ان کے وارث ہو گئے ۔تمہارے لےے گذ شتہ دوروں (کے ہر دور )میں عبرتیں (ہی عبرتیں ) ہیں (ذرا سوچو کہ) کہاں ۱#ہیں عمالقہ اور ان کے بیٹے ،اور کہاں ہیں فرعون اور ان کی اولادیں ،کہا ں ہیں اصحاب الرّس کے شہروں کے باشندے جنہوں نے نبیوں کو قتل کیا اور پیغمبروں کے روشن طریقوں کو مٹا یا اور ظالموں کے طور طریقوں کو زندہ کیا ،کہا ں ہیں وہ لوگ جو لشکروں کو لے کر بڑھے ہزاروں کو شکست دی اور فوجوں کو فراہم کر ے شہرو ں کو آباد کیا ۔

اسی خطبہ کے ذیل میں فرمایا ہے :وہ حکمت کی سپر پہنے ہوگااو ر اس کو اس کے تمام شرائط و آداب کے ساتھ حاصل کیاہو گا (جویہ ہیں کہ )ہمہ تن اس کی طرف متوجہہو اس کی اچھی طرح شناخت ہو ،اوردل (علائق دنیا سے) خالی ہو ۔چنانچہ وہ اس کے نزدیک اسی کی گمشدہ چیز او راسی کی حاجت و آرزو ہے کہ جس کا و ہ طلب گا ر وخواستگا رہے وہ اس وقت (نظروں سے اوجھل ہو کر )غریب ومسافر ہوگا کہ جب اسلا م عالم غربت میں او ر مثل اس اونٹ کے ہوگا جو تھکن سے اپنی دم زمین پر مارتا ہو اور گردن کا اگلا حصہ زمین پر ڈالے ہوئے ہو ۔وہ اللہ کی باقی ماندہ حجتوں کا بقیہ اور انبیا ء کے جانشینوں میں سے ایک وارث و جانشین ہے ۔

اس کے بعد حضرت نے فرمایا:اے لوگو! میں نے تمہیں ا س طرح نصیحتیں کی ہےں جس طرح کی انبیاء اپنی امتوں کو کرتے چلے

آ ئے ہیں اور ان چیزوں کو تم تک پہنچایا ہے جو اوصیاء بعد والوں تک پہنچایا کئے ہیں ۔میں نے تمہیں اپنے تازیانہ سے ادب سکھانا چاہا مگر تم سیدھے نہ ہوئے اور زجرد وتوبیخ سے تمہیں ہنکایا لیکن تم یک جانہ ہوئے ۔اللہ تمہیں سمجھے کیا میرے علاوہ کسی اورامام کے امید وار ہو جو تمہیں سیدھی راہ پر چلائے اورصحیح راستہ دکھائے ۔دیکھو!دنیا کی طرف رخ کرنے والی چیزوں نے جو رخ کئے ہوئے تھیں ۔پیٹھ پھرالی اور جو پیٹھ پھرائے ہوئے تھےں انہوں نے رخ کر لیا ۔اللہ کے نیک بندو ں نے (دنیا سے) کوچ کرنے کاتہیہ کرلیا ۔اور فنا ہونے والی تھوڑ ی سی دنیا ہاتھ سے دے کر ہمیشہ رہنے والی بہت سی آخرت مول لے لی ۔بھلا ہمارے بھائی بندوں کو کہ جن کے خون صفین میں بہائے گئے اس سے کیا نقصان پہنچا ،کہ وہ آج زندہ موجود نہیں ہیں (یہی نہ کہ اگر وہ ہوتے)تو تلخ گھونٹوں کو گوارہ کرتے اور گندلا پانی پیتے ۔خدا کی قسم ! وہ خد اکے حضور میں پہنچ گئے اس نے ان کو پورا پور ااجر دیا اور خوف و وہراس کے بعد انہیں امن و چین والے گھر میں اتار ا کہاں ہیں ؟وہ میرے بھائی کہ جو سیدھی راہ پر چلتے رہے ۔اورحق پر گزرگئے کہاں ہیں ؟عمار اور کہاں ہیں ؟ابن تیہان اور کہاں ہیں ؟ ذوالشہا دتین او رکہاں ہیں ان کے ایسے دوسرے بھائی کہ جو مرنے پر عہد و پیمان باندھے ہوئے تھے اور جن کے سروں کو فاسقوں کے پاس روانہ کیا گیا ۔

نوف کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت نے اپنا ہاتھ ریش مبارک پر پھیرا اور دیر تک رویا کئے اور پھرفرمایا

آہ !میرے وہ بھائی کہ جنہوں نے قرآن کو پڑھا تو اسے مضبوط کیا اپنے فرائض میں غورو فکر کیا تو انہیں اد اکیا ،سنت کو زندہ کیا اور بدعت کو موت کے گھاٹ اتا ر اجہاد کے لےے انہیں بلایا گیا تو انہوں نے لبیک کہی اور اپنے پیشوا پر یقین کامل کے ساتھ بھروسا کیا ۔تو اس کی پیروی بھی کی (اس کے بعد حضرت نے بلند آواز سے پکار اکر کہا)جہاد جہا د ۔اے بندگان خدا !دیکھو ! میں آج ہی لشکر کو ترتیب دے رہا ہوں جو اللہ کی طرف بڑ ھنے والا ہے نکل کھڑا ہو ۔

نوف کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت نے دس ہزار کی سپاہ پر حسین (علیہ السلام ) کو اوردس ہزار کی فوج پر قیس ابن سعد (رحمةاللہ)کواور دس ہزار کے لشکر پر ابو ایوب انصاری (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)کو امیر بنا یا اور دوسرے لوگو ں کو مختلف تعداد کی فوجوں پر سالار مقرر کیا او رآپ صفین کی طرف پلٹ کر جانے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ایک ہفتہ بھی گزرنے نہ پایا تھا کہہ ملعون ابن ملجم (لعنة اللہ ) نے آپ کے (سر اقدس پر )ضرب لگا ئی جس سے تمام لشکر پلٹ گئے اور ہماری حالت ان بھیڑ بکریوں کے مانند ہو گئی ۔جو اپنے چرواہے کو کھو چکی ہوں اور بھیڑیئے ہر طرف سے انہیں اچک کر لے جارہے ہوں ۔

۱#تاریخ کے صفحات اس کے شاہد ہیں کہ اکثر و بیشتر قوموں کی ہلاکت و تباہی ان کے ظلم و جور اور علانیہ فسق و فجور کی وجہ سے ظہور میں آئی۔چنانچہ وہ قومیں جنہوں نے ربع مسکون کے ہر گوشہ پراپنے اقتدار کے سکے جمائے اور شرق و غرب عالم پراپنے پرچم لہرائے جب ان کی بداعمالیوں اور بدکرداریوں سے پردہ ہٹا تو "پاداش عمل"کے قانون نے اس طرح ان کا استیصال کیا کہ صفحہئعالم سے حرف غلط کی طرح محو ہوگئے ۔عادو ثمود کی سلطنتوں کا خاتمہ ہو گیا فرعون و نمرود کی شہنشاہیاں مٹ گئیں ۔طسم و جدیس کی سر بفلک عمارتیں سنسان کھنڈر بن گئیں ۔اصحاب الرس کی بستیا ں اجڑکر ویران ہوگئیں اور جہاں زندگی کے قہقہے تھے ۔وہاں موت کی اداسیا ں اور جہاں جمگھٹے تھے وہاں بھیانک سناٹے چھا گئے یہ قوموں کا عروج وزوال چشم بینا کے لےے ہزاروں عبرت کے سامان رکھتا ہے اوران واقعات کے پیش کرنے سے مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ انسان ان کے احوال و واردات سے عبرت اندو زہو اور غرورو طغیان کی سر مستیوں میں کھو کر اپنے انجام کو بھول نہ جائے چنانچہ امیرالمومنین[ع]نے اسی موعظت و عبر ت کے لےے عمالقہ ،فراعنہ او ر اصحاب الرس کی تباہیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔کہ جو عظمت و ارتقاع کی چوٹیوں سے ہلاکت و بربادی کے قعر مذلت میں اسی طرح گرے کہ ان کانام و نشان بھی نہ رہا ۔

یہ عمالقہ کون تھے ؟اس کے لےے ابن قتیبہ نے تحریر کیا ہے:۔

ارم ابن سام ابن نوح کی اولاد میں سے طسم اور جدیس تھے کہ جو لاو د ابن سام ابن نوح کے بیٹے تھے یہ یمامہ میں فروکش ہوئے اور ان کا ایک بھائی عملیقابن لاود ابن ارم ابن سام ابن نو ح تھا کہ جس کی اولاد میں سے کچھ افراد مکہ میں اور کچھ شام میں مقیم تھے اور انہی قبائل عرب میں سے عمالقہ تھے کہ جو متعدد گروہوں کی صورت میں مختلف شہروں میں پھیل گئے اور انہی میں سے فراعنہ مصر اور شام کے فرمانروا تھے۔

لاود کا ایک بیٹا عملیقتھا اور مکہ اور ا س کے اطراف میں اس کی رہائش تھی او ر اس کی اولاد میں سے کچھ لوگ شام چلے گئے۔اور اسی کی اولاد میں سے عمالقہ تھے اور انہی عمالقہ میں سے فراعنہ مصر تھے۔

اس سے ظاہر ہو ا کہ عمالقہ عرب کے قبائل بائدہ تھے جنہوں نے شام و حجاز پر اپنی حکومتیں قائم کر رکھی تھیں چنانچہ ابتدا ء میں اس خاندان کے مورث اعلیٰ عملیق کو اقتدار حاصل تھا۔مگر اس کے بعد طسم کی طرف منتقل ہوگیا اور طسم کے بعد جب عملوق ابن طسم بر سر اقتدار آیا تو اس نے ظلم و جور اور فسق و فجور کی حد کر دی ،یہاں تک کہ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ قبیلہ جدیس کی جو عورت بیاہی جائے وہ شوہر کے ہاں جانے سے پہلے اس کے شبستا ن عشرت میں ایک رات گذار کر جائے چنانچہ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا اور جب سی خاندان کی ایک عورت عفیرہ نیت عفار کے ساتھ یہی شرمناک برتاؤ ہوا تو اس نے شوہر کے ہاں جانے سے انکار کر دیااور اپنے قبیلہ کو اشعا ر کے ذریعہ عبرت دلائی جس پر پورا قبیلہ اپنی عزت و ناموس کی بربادیوں پر تلملا اٹھا اور انتقام لینے کے درپے ہوگیا ۔چنانچہ عفیرہ کے بھائی اسود ابن عفار نے عملوق کو اس کے عملہ کے ساتھ دعوت کے بہانے سے اپنے ہاں بلوا لیا اور ان کے پہنچتے ہی بنی جدیس نے تلواریں نیاموں سے نکال لیں اور ان پر اس طرح اچانک ٹوٹ پڑے کہ ریاح ابن مر کے علاوہ کوئی اپنا بچاؤ نہ کر سکا ۔یہ بھاگ کر شاہ یمن کے دربار میں جا پہنچا اور اسے بنیجدیس پر حملہ کرنے کی ترغیب دی ۔چنانچہ وہ ایک لشکر جرار لے کر ان پر چڑھ دوڑا ،اور انہیں شکست دے کر ہلاک و منتشر کر دیا اور اقتدار ان کے ہاتھوں سے چھین لیا۔یہی عمالقہ وہی ہیں جنہوں نے ۲۰۰۰ق م مصر پر حملہ کیا تھا اور جنہیں ہیکسوس (چرواہے بادشاہ)کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔چنانچہ مسعودی نے ان کے مصر میں داخل ہونے کے سلسلہ میں لکھا ہے ۔

جب اہل مصر نے عورتوں کے ہاتھ میں اقتدار دے دیا تو دوسرے با دشاہوں کے دل میں اسے فتح کرنے کی خواہش پیدا ہوئی ۔ چنانچہ شاہان عمالقہ میں سے ایک بادشاہ جسے ولید ابن دومع کہا جاتا ہے ۔مصر پر چڑھا ئی کی اور بہت سی لڑائیاں لڑیں ۔آخر اہل مصر نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور اس کی حکومت تسلیم کر لی ۔جب یہ مرگیا تو ریان ابن ولید عملاتی تخت فرمانروائی پر بیٹھا او ریہی حضرت یوسف[ع]کے زمانہ کا فرعون تھا ۔اس کے بعد دارم ابن ریان اور پھر کامس ابن معدان عملاتی فرمانروا ہوا ۔

یہ انتہائی سر کش و ظالم حکمرا ن تھے جس کی پادا ش میں قدرت نے ان کو نیست ونابود کرنے کے سامان پیدا کر دیئے چنانچہ مسعودی تحریر کرتے ہیں ۔

عمالقہ نے زمین پر شر و فساد پھیلا رکھا تھا جس کے نتیجہ میں قدرت نے ان پر دوسرے فرمانرواؤں کومسلط کر دیا جنہوں نے انہیں فعادو برباد کر دیا ۔

ان عمالقہ کے بعد ولید ابن مصعب حکمران ہوا یہ بعض مورخین کے نز دیک شام کے قبیلہ لخم سے تھا اور بعض نے اسے قبطی لکھا ہے او یہی حضرت موسیٰ  کے عہد کا فرعون تھا ۔اس کے کبر وانانیت و غرور اور نخوت کی یہ حالت تھی کہ دعویٰ کرکے دنیا کی سار ی قوتوں کو اپنے تصرف و اختیار میں سمجھنے لگا تھا اور اس زعم میں مبتلا تھا کہ کوئی طاقت اس سے سلطنت و حکومت کو چھین نہیں سکتی۔ چنانچہ قرآن مجید میں نے اس کے دعوےٰ کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے۔

ا س نے کہا کہ اے قوم! کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور یہ میرے محل کے نیچے بہتی ہوئی نہریں میری نہیں ہیں کیا تمہیں یہ نظر نہیں آتا۔

مگر جب اس کی سلطنت مٹنے پر آئی تو لمحوں میں مٹ گئی نہ اس کی جاہ و حشمت سد ّراہ ہوئی اور نہ مملکت کی وسعت روک تھام کر سکی۔ بلکہ جن نہروں کی ملکیت پر اسے گھمنڈ تھا انہی کی تلملا تی لہروں نے اسے اپنی لپیٹ میں لے کر اس کی رو ح کو دارالبور میں اور جسم کو کائنات کی عبرت و بصیرت کے لیے کنارے پر پھینک دیا۔

اسی طرح اصحا ب الرس ایک نبی کی دعوت و تبلیغ کے ٹھکرانے اور سرکشی و نافرمانی کرنے کے نتیجہ میں ہلاک و برباد ہوگئے۔ چنانچہ قدرت کا ارشاد ہے۔

اور اسی طرح عاد و ثمود اور اصحاب الرس اور ان کے درمیانی زمانہ کی بہت سی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا ۔ہم نے سب کے لےے مثالیں بیان کی تھیں اور آخرہم نے ان سب کو جڑ بنیاد سے اکھاڑ دیا ۔

"رس"آذر بائیجان کے علاقہ میں ایک نہر کا نام تھا جس کے کنارے پر بارہ بستیاں آباد تھیں جن کے رہنے والوں کو اصحاب الرس کہا جاتا ہے ۔ان بستیوں کے نام ٌابانء۱،آذرء۲،دیء۳،بہمنء۴،اسفند آرء۵،فروردینء۶،اردیء۷،بہشت ء۸،خردادء۹،مردادء۱۰،تیرء۱۱ ،مہرء۲۱ ،اور شہرپور ء ۳۱ تھے۔ان میں اسفند ار کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور ا س میں صنوبر کا ایک درخت تھا جسے یافث ابن نوح نے لگایاتھا ۔اور اسے شاہ درخت کہا جاتا تھا ۔اسی درخت کے بیجوں سے دوسری بستیوں میں بھی ایک ایک درخت لگایا گیا تھا یہ لوگ ہر مہینے ایک بستی میں جمع ہوتے اور اس درخت کی پر ستش کرتے اور سال میں ایک مرتبہ نوروز کے موقع پر اسفندار میں ان کا اجتماع ہوتا تھا اور ا س اصل درخت کی خاص اہتمام سے پوجا کرتے ۔قربانیاں چڑھاتے اور منتیں مانتے تھے۔قدرت نے انہیں اس درخت کی عبادت سے روکنے کے لےے یہود ابن یعقوب کی نسل سے ایک پیغمبر ان کی طرف بھیجا جنہوں نے انہیں اس مشرکانہ عبادت سے روکنا چاہا ۔مگر انہوں نے ان کا کہنا نہ مانا اورانکار سرکشی پر اتر آئے اور ان کی ہلاکت کے درپے ہوگئے ۔چنانچہ ان لوگوں نے چشمہ کے اندر ایک کنواں کھودکر اس میں انہیں پھینک دیا اور اس کی منہ ایک پتھر سے بند کردیا ۔جس سے وہ تڑپ تڑپ کر جاں بحق ہوگئے ۔اس ظلم و سفا کی کے نتیجہ میں قہر الہی نے کروٹ لی اور ان پر لو کے ایسے جھونکے چنے کہ ان کے بدن جھلس کر رہ گئے اورزمین سے گندھک کا لاوا پھوٹ نکلاجس سے ان کے جسم کی ہڈیاں تک پگھل گئیں او ر ساری کی ساری بستیاں الٹ گئیں ۔

یہی نام فارسی مہینوں کے ہیں جو انہی بستیوں کے نام پر رکھے گئے تھے ۔کیونکہ ہر مہینہ ان لوگو ں کا ایک بستی میں اجتماع ہوتا تھا جس کی وجہ سے اس مہینہ کا بھی وہی نام ہوگیا جو اس بستی کا نام تھا ۔