Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے فرمایا، راہِ خدا میں جس قدر مجھے اذیت پہنچائی گئی ہے کسی اور کو نہیں پہنچائی گئی کنزالعمال حدیث5818

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 174: پن دو موعظت قرآن کی عظمت اور ظلم کے اقسام

خدا وند عالم کے ارشادات سے فائد ہ اٹھاؤ اور اس کے موعظوں سے نصیحت حاصل کرو اور اس کی نصیحتوں کو مانو کیونکہ اس نے واضح دلیلوں سے تمہارے لےے کسی عذر کی گنجائش نہیں رکھی اور تم پر (پوری طرح)حجت کو تمام کردیا ہے اور اپنے پسندیدہ و ناپسند یدہ اعمال تم سے بیان کردیئے ہیں تاکہ اچھے اعمال بجالاؤ او ر برے کاموں سے بچو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد ہے کہ جنت ناگواریوں میں گھری ہوئی ہے اور دوزخ خواہشوں میں گھرا ہوا ہے ۔یاد رکھو !کہ اللہ کی ہراطاعت ناگوار صورت میں اور اس کی ہر معصیت عین خواہش بن کر سامنے آتی ہے ۔خدا اس شخص پررحمت کر ے جس نے ہوس کو جڑ بنیاد سے اکھیڑ دیا ۔کیونکہ نفس خواہش و آرزوئے گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے ۔اللہ کے بند و!تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مومن (زندگی کے)صبح وشام میں اپنے نفس سے بد گمان رہتا ہے اور اس پر کوتاہیوں کا الزام لگا تا ہے اور اس سے (عبادتوں )میں اضافہ کا خواہشمند رہتا ہے ۔تم ان لوگوں کی طرح بنوکہ جو تم سے پہلے آگے بڑھ چکے ہیں اور تمہارے قبل اس راہ سے گذر چکے ہیں انہوں نے دنیا سے یوں اپنا رخت سفر باندھا جس طرح مسافر اپنا ڈیرا اٹھا لیتا ہے اور دنیا کو اس طرح طے کیا جس طرح (سفر کی ) منزلوں کو ۔یاد رکھوکہ یہ قرآن ایسا نصیحت کرنے والا ہے جو فریب نہیں دیتا اور ایسا بیان کرنے والا ہے جو جھوٹ نہیں بولتا ۔جو بھی اس قرآن کا ہم نشین ہوا وہ ہدایت کو بڑھا کر اور گمر اہی و ضلالت کو گھٹاکر ا س سے الگ ہو ا جان لو کہ کسی کو قرآن سے (کچھ سیکھنے )سے پہلے اس سے بے نیاز ہو سکتا ہے ا س سے اپنی بیماریوں کی شفا ء چاہو اور اپنی مصیبتوں پراس سے مدد مانگو ۔اس میں کفر و نفا ق او ر ہلاکت و گمراہی جیسی بڑی بڑی مرضوں کی شفاء پائی جاتی ہے۔اس کے وسیلہ سے اللہ سے مدد مانگو اور ا س کی دوستی کو لےے ہو ئے اس کا رخ کرو ۔اور اسے لوگوں سے مانگنے کا ذریعہ نہ بناؤ ۔یقینا بندوں کے لےے اللہ کی طرف متوجہہو نے کا ا س جیسا کو ئی ذریعہ نہیں ۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن ایسا شفاعت کرنے والا ہے جس کی شفاعت مقبول اور ایسا کلام کرنے والا ہے (جس کی ہر بات )تصدیق شدہ ہے۔قیامت کے دن جس کی یہ شفاعت کرے گا ،وہ اس کے حق میں مانی جائے گی او راس روز جس کے عیوب بتا ئے گا تو اس کے بارے میں بھی اس کے قو ل کی تصدیق کی جائے گی ۔قیامت کے دن ایک ندا دینے والا پکار کر کہے گا کہ دیکھو قرآن کی کھیتی بو نے والوں کے علاوہ ہر بونے والا اپنی کھیتی اور اپنے اعمال کے نتیجہ میں مبتلا ہے ۔لہٰذ ا تم قرآن کی کھیتی بونے والے اور اس کے پیرو کار بنو،اور اپنے پروردگا ر تک پہنچنے کے لےے اسے دلیل راہ بناؤاور اپنے نفسوں کے لےے اس سے پندو نصیحت چاہو ۔اور اس کے مقابلہ میں اپنی خواہشو ں کو غلط و فریب خورد ہ سمجھو ۔عمل کر و ،عمل کرو ۔او رعاقبت و انجام کو دیکھو ،استوار و برقرار رہو ،پھر صبرکرو صبر کرو تقویٰ و پرہیز گاری اختیار کرو تمہارے لےے ایک منز ل منتہا ہے ۔اپنے کو وہاں تک پہنچاؤ اور تمہارے لےے ایک نشان ہے اس سے ہدایت حاصل کر و ۔اسلام کی ایک حد ہے تم اس کی حد و انتہا کو تک پہنچو ۔اللہ نے جن حقوق کی ادئیگی کو تم پر فرض کیا ہے اور جن فرائض کو تم سے بیان کیا ہے انہیں ادا کر کے ا سے عہدہ برآہوجاؤ میں تمہارے اعمال کا گواہ او ر قیامت کے دن تمہاری طرف سے حجت پیش کر نے والا ہوں ۔

دیکھو ! جو کچھ ہو نا تھا ہوچکا اور جو فیصلہ خداوندی تھا وہ سامنے آگیا ۔میں الہی وعدہ و بر ہان کی رو سے کلام کرتا ہوں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ بے شک وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے او ر پھر وہ اس (عقیدہ )پر جمے رہے۔ان پر فرشتے اترتے ہیں او ر(یہ کہتے ہیں )کہ تم خوف نہ کھاؤ اور غمگین نہ ہو ۔تمہیں اس جنت کی بشارت ہو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔اب تمہارا قول تو یہ ہے کہ ہمار ا پروردگا راللہ ہے تو اب اس کی کتاب اور اس کی شریعت کی راہ اور اس کی عبادت کے نیک طریقے پر جمے رہو اور پھر اس سے نکل نہ بھاگو ،اور نہ اس میں بدعتیں پیدا کر و او ر نہ اس کے خلاف چلو۔اس لےے کہ اس راہ سے نکل کر بھاگنے والے قیامت کے دن اللہ (کی رحمت )سے جدا ہونے والے ہیں ۔پھر یہ کہ تم اپنے اخلاق و اطوار کو پلٹنے اور انہیں ادلنے بدلنے سے پرہیز کرو ۔دورخی اور متلون مزاجی سے بچتے رہو ،اور ایک زبان رکھو ۔انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کو قابو میں رکھے ۔اس لےے کہ یہ اپنے مالک سے منہ زوری کرنے والی ہے ۔خدا کی قسم! میں نے کسی پرہیز گار کو نہیں دیکھا کہ تقویٰ اس کے لےے مفید ثابت ہو ا ہو جب تک کہ اس نے اپنی زبان کی حفاظت نہ کی ہو ۔بے شک مومن کی زبان

ا س دل کے پیچھے ہے اور منافق کا دل ا س کی زبان کے پیچھے ہے کیو نکہ مومن جب کو ئی بات کہنا چاہتا ہے تو پہلے اسے دل میں سوچ لیتا ہے اگر وہ اچھی بات ہو تی ہے تو اسے ظاہر کرتا ہے اور اگر بری ہوتی ہے تو اسے پوشیدہ ہی رہنے دیتا ہے اور منافق کی زبان پر جو آتا ہے کہہ گزرتا ہے اسے یہ کچھ خبر نہیں ہو تی کہ کو ن سی بات اس کے حق میں مفید ہے اورکو ن سی مضر ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بندے کا ایمان اس وقت تک مستحکم نہیں ہو سکتا جب تک اس کا دل مستحکم نہ ہو اور د ل اس وقت تک مستحکم نہیں ہوتا جب تک زبان مستحکم نہ ہو ۔لہٰذا تم میں سے جس سے یہ بن پڑے کہ وہ اللہ کے حضور میں اس طرح پہچنے کہ اس کا ہاتھ مسلمانوں کے خون سے اور ان کے مال سے پاک و صاف اور اس کی زبان ان کی آبرو ریزی سے محفوظ رہے تو اسے ایسا ہی کرنا چاہیے ۔خد اکے بندو ! یاد رکھو کہ مومن اس سال بھی اس چیز کو حلال سمجھتا ہے جس کو پار سال حلال سمجھ چکا ہے اور اس سال بھی اسی چیز کو حرام کہتاہے جسے گذشتہ سال حرام کہہ چکا ہو او ر یاد رکھو کہ لوگوں کی پیدا کی ہوئی بدعتیں ان چیزوں کو جو خدا کی طرف سے حرام ہیں حلال نہیں کر سکتیں ۔بلکہ حلال وہ ہے جسے اللہ نے حلال کیاہے اور حرام وہ ہے جسے اللہ نے حرام کیا ہے،تم تمام چیزوں کو تجربہ و آزمائش سے پرکھ چکے ہو اور پہلے لوگوں سے تمہیں پندو نصیحت بھی کی جاچکی ہے او ر حق و باطل کی مثالیں بھی تمہارے سامنے پیش کی جا چکی ہیں اور واضح حقیقتوں کی طرف سے تمہیں دعوت دی جاچکی ہے ۔اب ا س آوا ز

کے سننے سے قاصر وہی ہو سکتا ہے ۔جو واقعی بہرا ہو او ر اس کے دیکھنے سے معذو ر وہی سمجھا جا سکتا ہے جو اندھا ہو اور جسے اللہ کی آزمائشوں اور تجربوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ۔اسے زیاں کاریاں ہی درپیش ہوں گی ۔یہاں تک کہ وہ بری باتوں کو اچھا اور اچھی باتوں کو بر ا سمجھے گا ۔چونکہ لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک شریعت کے پیرو کار اور دوسرے بدعت ساز کہ جن کے پاس نہ سنت پیغمبر کی کو ئی سند ہوتی ہے اور نہ دلیل وبرہا ن کی کوئی روشنی بلاشبہ اللہ سبحانہ٘ نے کسی کو ایسی نصیحت نہیں کی جو اس قرآن کے مانند ہو کیوں کہ یہ اللہ کی مضبوط رسی اور امانتدار وسیلہ ہے۔اسی میں دل کی بہار اور علم کے سرچشمے ہیں اور اسی سے (آئینہ )قلب پر جلا ہوتی ہے۔ باوجود یکہ یاد رکھنے والے گزر گئے اور بھول جانے والے باقی رہ گئے ہیں ۔اب تمہاراکام یہ ہے کہ بھلائی کو دیکھو تو اسے تقویت پہنچاؤ اور برائی کو دیکھو تو اس سے (دامن بچاکر)چل دو ،اس لےے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایاکرتے تھے کہ اے فرزند آدم[ع]!اچھے کام کر او ربرائیوں کو چھوڑ دے ۔اگر تو نے ایسا کیا تو تو نیک چلن اور راست رو ہے۔دیکھو! ظلم تین طرح کا ہوتا ہے ایک ظلم وہ جو بخشا نہیں جائے گا ۔اور دوسرا ظلم وہ جس کا (مواخذہ ) چھوڑ ا نہیں جائے گا ،تیسرا وہ جو بخش دیا جائے گا ۔اور اس کی باز پرس نہیں ہو گی ۔لیکن وہ ظلم جو بخشا نہیں جائے گا وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ہے ۔جیسا کہ اللہ سبحانہ٘ کا ارشاد ہے کہ خدا اس (گناہ ) کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے ۔ایک ظلم جو بخش دیا جائے گا وہ جو بندہ چھوٹے چھوٹے گناہوں کا مرتکب ہو کر اپنے نفس پر کرتا ہے ۔او ر وہ ظلم کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔وہ بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنا ہے جس کا آخرت میں سخت بدلہ لیا جائے گا ۔وہ کوئی چھریوں سے کچو کے دنیا اور کوڑوں سے مارنا نہیں ہے بلکہ ایک ایسا سخت عذاب ہے جس کے مقابلے میں یہ چیزیں بہت ہی کم ہیں ۔دین خدا میں رنگ بدلنے سے بچو ،کیونکہ تمہار احق پر ایکا کرلینا جسے تم ناپسند کرتے ہو ۔باطل کے راستوں پر جاکر بٹ جانے سے جو تمہار امحبوب مشغلہ ہے ،بہتر ہے ۔بے شک اللہ سبحانہ٘ نے اگلوں او ر پچھلوں میں سے کسی کو متفرق اور پراگندہ ہو جانے سے کوئی بھلائی نہیں دی ۔

اے لوگو! لائق مبارک باد وہ شخص ہے جسے اپنے عیوب دوسروں کی عیب گیری سے باز رکھیں اور قابل مبارکباد وہ شخص ہے جو اپنے گھر (کے گوشہ) میں بیٹھ جائے اور جو کھانا میسر آسکے اور اپنے اللہ کی عبادت میں لگا رہے اور اپنے گناہو ں پر آنسو بہائے کہ اس طرح وہ بس اپنی ذات کی فکر میں رہے اور دوسرے لوگ اس سے آر ام میں رہیں ۔