Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام علی نے فرمایا، بلاغت کا تقاضا ہے کہ کسی چیز کے جواب دینے میں دیر نہ کی جائے اور جواب میں غلطی نہ ہو۔ غررالحکم حدیث 2150

نہج البلاغہ خطبات

اے غا فلو !جن کی طرف سے غفلت نہیں برتی جارہی او ر اے چھوڑدینے والو کہ جن کو نہیں چھوڑا جائے گا تعجب ہے کہ تمہیں اس حالت میں دیکھتا ہو ں کہ تم اللہ سے دور ہٹتے جارہے ہو اور دوسروں کی طرف سے شوق سے بڑھ رہے ہو ۔گویا تم و ہ اونٹ ہو جن کا چرواہا انہیں ایک ہلاک کرنے والی چراگاہ اور تباہ کرنے والے گھاٹ پر لایا ہو ۔یہ ان چوپاؤں کی مانند ہیں جنہیں چھریوں سے ذبح کیا جارہا ہو اور انہیں یہ معلوم نہ ہو کہ جب ان کے ساتھ اچھا برتاؤکیا جا تا ہے توان سے مقصود کیا ہے ۔یہ تو اپنے دن کو اپناپورازمانہ کرتے ہیں او ر پیٹ بھر کر کھا لینا ہی اپنا کا م سمجھتے ہیں ۔خدا کی قسم ! اگر میں بتا نا چاہوں تو تم سے ہر شخص کو بتا سکتا ہوں کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور اسے کہا ں جانا ہے اوراس کے پورے حالات کیا ہیں ۔لیکن مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تم مجھ میں (کھو کر )پیغمبر سے کفر اختیا ر کر لو گے ۔البتہ میں اپنے مخصوص دوستوں تک یہ چیزیں ضرور پہنچاؤں گا جن کے بھٹک جانے کا اندیشہ نہیں ۔اس ذات کی قسم جس نے پیغمبر کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اور ساری مخلوقات میں سے ان کو منتخب فرمایا۔میں جو کہتا ہوں سچ کہتا ہو ں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام چیزوں اور ہلاک ہونے والوں کی ہلاکت اور نجات پانے والوں کی نجات اور اس امر (خلافت )کے انجام کی خبردی ہے اور ہر وہ چیز جو سر پر گزرے گی ۔ا سے میرے کانوں میں ڈالے اور مجھ تک پہنچائے بغیر نہیں چھوڑا۔اے لوگو !قسم بخدا میں تمہیں کسی اطاعت پر آمادہ نہیں کرتا ۔مگر یہ کہ تم سے پہلے اس کی طرف بڑھتا ہوں اور کسی گناہ سے تمہیں نہیں روکتا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس سے باز رہتا ہوں ۔

۱۔ سرچشمہء وحی والہام سے سیرا ب ہونے والے غیب کے پردوں میں مخفی او ر مستقبل میں رونما ہونے والی چیزوں کو اسی طرح دیکھتے ہیں جس طرح محسوسات کو آنکھ سے دیکھا جاتا ہے اور یہ ارشاد قدرت قل لایعلم من فی السّمٰوٰت و الارض الغیب الا اللہ (تم کہہ دو کہ اللہ کے سوازمین و آسمان کے بسنے والوں میں سے کوئی بھی غیب نہیں جانتا )کے منافی نہیں کیونکہ آیت میں ذاتی طور پرعلم غیب کے جاننے کی نفی جو انبیا ء اولیا کو القائے ربانی سے حاصل ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں ہومستقبل کے متعلق پیشن گوئیاں کرتے ہیں اور بہت سے احوال و واردات کو بے نقاب کرتے ہیں ۔چنانچہ اس مطلب پر قرآن مجید کی متعدد آیتیں شاہد ہیں ۔

جب رسول نے اس واقعہ کی خبراپنی ایک بیوی کو دی تو وہ کہنے لگی کہ آپ کو کس نے خبر دی ہے رسولنے کہا کہ مجھے ایک جاننے والے اور واقف کا ر نے خبر دی ہے ۔اے رسول!یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں وحی کے ذریعہ تمہیں بتا تے ہیں ۔

لہٰذا اپنے معتقدات کی سخن پروری کرتے ہوئے یہ کہنا کہ انبیا ء اولیا کو علم غیب کا حامل سمجھناشرک فی الصفات ہے حقیقت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔شرک تو اس وقت میں ہوتا کہ جب یہ کہا جاتا کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور بھی ذاتی حیثیت سے عالم الغیب ہے۔جب ایسا نہیں بلکہ انبیا و آئمہ کا علم اللہ کادیا ہوا ہے تو اس کو شرک سے کیا واسطہ اور اگر شرک کے یہی معنی ہیں تو پھر حضرت عیسیٰ کے اس دعویٰ کاکیا نام ہوگا جو قرآن مجید میں مذکور ہے ۔

میں تمہا رے لیے مٹی سے ایک پرندہ کا ڈھانچہ بناؤں گا پھر اس میں پھونکوں گا تو وہ خدا کے حکم سے سچ مچ کا پرندہ بن جائے گا ۔اور میں مادرزاد اندھے اور مبروص کو اچھا کردوں گا او راس کے حکم سے مردوں کو زندہ کردوں گا جو کچھ تم کھاتے ہو اور گھروں میں جمع کرکے رکھتے ہوتم کو بتا دوں گا ۔

کیا ان کو بحکم خدا خالق و حیات بخش مان لینے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی صفت خلق و احیا ء میں ان کو شریک سمجھا گیاہے۔اگر ایسا نہیں تو پھر اللہ کے کسی کو امور غیب پر مطلع کردینے سے یہ کہاں سمجھا جاسکتا ہے کہ اس کے عالم الغیب ہو نے میں اس کو شریک ٹھہرالیا گیا ہے کہ علم غیب کے جاننے کو شریک سے تعبیرکرکے اپنی مواحدانہ عظمت کا مظاہر ہ کیا جائے ۔

اس حقیقت سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ بعض لوگوں کو خواب میں ایسی چیزیں نظر آجاتی ہیں یا اس کی تعبیر سے ظاہر ہوجاتی ہیں کہ جن کا ظہور مستقبل سے وابستہ ہوتا ہے حالانکہ خواب کی حالت میں نہ حواس کام دیتے ہیں اور نہ ذہن و ادراک کی قوتیں ساتھ دیتی ہیں تو اگر بیداری میں بعض افراد پرکچھ حقائق منکشف ہو جائیں تو ا س پر اچنبھا کیوں او ر اس سے وجہ انکار کیا ؟جبکہ عقل کہتی ہے کہ جو چیز خواب میں واقع ہو سکتی ہے وہ بیداری میں بھی ممکن ہیں ۔چنانچہ ابن میثم نے تحریر کیا ہے ۔کہ خواب میں یہ افادہ و فیضان اس لےے ہوتا ہے کہ نفس تربیت بد ن کی الجھنوں سے آزاد او رمادی علائق سے الگ ہوتا ہے ۔ جس کی وجہسے بہت سی ایسی پوشیدہ حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے جن کے دیکھنے سے حجاب عنصری مانع ہو تا ہے یونہی وہ نفوس کاملہ جو جنبہ ء مادی سے بے اعتنا اور قلب و روح کی پوری توجہسے افاضہ علمی کے مرکز سے رجوع ہوتے ہیں ۔ان پردہ حقائق و بواطن منکشف ہوجاتے ہیں ۔جنہیں ظاہر ی آنکھیں دیکھنے سے عاجز و قاصر ہوتی ہیں ۔لہٰذا اہل بیت کی روحانی عظمت کے پیش نظر ا س میں قطعا ًکوئی استبعا د نہیں کہ وہ مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی چیزوں سے آگاہ ہوسکیں ۔چنانچہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے کہ۔جب کہ کرامات کا ظہوراوروں سے ہوسکتا ہے تو ان ہستیوں کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے کہ جو علم و دیانت کے لحاظ سے ممتاز اورنبوت کی نشانیوں کے آئینہ دار تھے او را س بزرگ اصل (رسول)پرجونظر توجہباری تھی وہ اس کی پاکیزہ شاخوں کے کمالات پرشاہد ہے ۔چنانچہ امور غیب کے متعلق اہل بیت سے بہت سے واقعات نقل کئے جاتے ہیں جو کسی او ر کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے ۔

ا س صورت میں امیرالمومنین[ع]کے دعویٰ پر کوئی وجہ نہیں جبکہ آپ پروردہ آغوش رسالت و متعلمدرس گاہ قدرت تھے ۔البتہ جن کاعلم محسوسات کی حد سے آگے نہیں بڑھتا اور ان کے علم و ادراک کا وسیلہ صرف ظاہر ی حواس ہوتے ہیں وہ عرفان و حقیقت کی راہوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے علم بالمغیبات سے انکار کردیتے ہیں ۔اگر اس قسم کادعویٰ انوکھا ہوتا اورصرف آپ ہی کے سننے میں آیا ہوتا توہوسکتا تھاکہ اسے تسلیم کرنے میں دماغ پس و پیش کرتے طبیعتیں ہچکچاتیں مگر قرآن میں جب حضر ت عیسیٰ کا یہ تک دعویٰ موجود ہے کہ میں تمہیں خبر دے سکتا ہوں کہ تم کیا کھاتے پیتے ہو اور کیا گھروں میں جمع کرکے رکھتے ہوتو امیرالمومنین[ع]کے اس دعویٰ پر کیوں پس و پیش کیاجاتا ہے ۔جب کہ یہ مسلم ہے کہ امیرالمومنین[ع]پیغمبر کے تمام کمالات و خصوصیات کے وارث تھے ۔اور یہ نہی کہا جاسکتا کہ جن چیزوں کو حضرت عیسیٰ جان سکتے تھے ۔پیغمبر اکرم ان سے بے خبرتھے۔تو پھر وارث علم پیغمبر اگر ایسا دعویٰ کرے تو اس سے انکار کیسا ۔جبکہ حضرت کی یہ علمی وسعت پیغمبر کے علم و کمال کی ایک بہترین حجت و دلیل اور ان کی صداقت کا ایک زندہ معجزہ ہے۔

اس سلسلہ میں یہ امر حیرت انگیز ہے کہ وہ حالات پر مطلع ہونے کے باوجود اپنے کسی قول وعمل سے یہ ظاہر نہ ہونے دیتے تھے کہ وہ انہیں جانتے ہیں ۔چنانچہ سیّد ابن طاؤس علیہ الرحمہ اس دعویٰ کی غیر معمولی عظمت و اہمیت پر تبصر ہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ۔

اس دعویٰ کا حیرت انگیز پہلویہ ہے کہ باوجود اس کے کہ امیرالمومنین[ع]احوال ووقائع سے باخبر تھے پھر بھی قول و عمل کے لحاظ سے ایسی روش اختیا ر کئے ہوئے تھے کہ دیکھنے والایہ ماننے کے لےے تیار نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ دوسروں کی پوشیدہ باتوں اور مخفی کاموں پر مطلع ہوں گے ۔کیونکہ عقلا کو یہ اعتراف ہے کہ جس کو یہ معلوم ہو کہ اس سے کونسا عمل ظہور پذیر ہونے والا ہے ۔یا اس کاساتھی کیا قدم اٹھانے والا ہے یا لوگوں کے چھپے ہوئے بھید اس کی نظرمیں ہوں تو اس علم کے اثرات اس کے چہرے کے خط و خال اور اس کے حرکات و سکنات سے ظاہر ہونے لگتے ہیں اور جو شخص جاننے بوجھنے نہیں جانتا تو اس کی شخصیت ایک معجزہ او ر متضاد چیزوں کا مجموعہ ہو گی ۔

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنے باطنی علم کے مقتضیا ت پر عمل کیوں نہ کرتے تھے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ احکام شریعت کی بنیاد ظاہری اسباب پر ہے ۔چنانچہ قاضی کو اگر علم ہو جائے کہ فلاں فریق حق بجانب ہے اور فلاں باطل پر ہے تو وہ اپنے علم پر بنا کرتے ہوئے فریق اوّل کے حق میں فیصلہ نہیں کر ے گا ۔بلکہ کسی نتیجہ پرپہنچنے کے لےے جو شرعی اور متعارف طریقے ہیں انہی پر چلے گا ۔اور ان سے جو نتیجہ نکلے گا اسی کا پابند ہو گا ۔مثلاًقاضی کو اگر خواب مکا شفہ یا فراست سے یہ علم ہو جائے کہ زید عمر و کی دیوا ر گرائی ہے تو اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے اس علم کے مطابق فیصلہ کرے بلکہ وہ یہ دیکھے گا کہ بینہ و شہادت کی رو سے اس پر جرم عائد ہو تا ہے یا نہیں ۔اگر ان ظاہر ی طریق سے جرم ثابت نہ ہو گا تو اسے مجرم قرار نہ دیا جائے گا ۔اگرچہ اسے اپنے مقام پراس کے مجرم ہونے کا یقین ہو ا س کے علاوہ انبیا ء و اولیا اپنے علم باطنی پر بنا کرتے ہو ئے عملدرآمد کرتے تو یہ امر اختلال و انتشار امت کا باعث ہوجاتا مثلاً اگر کوئی نبی یا ولی اپنے علم باطنی کی وجہ سے کسی واجب القتل کو سزا دے تو دیکھنے والوں میں ایک اضطراب و ہیجان پید ا ہو جائے گا کہ اس نے ناحق ایک شخص کو قتل کردیا ہے اسی لےے قدرت نے خاص موارد کے علاو ہ علم باطنی پر بنا کرکے نتائج مرتب کرنے کی اجازت نہیں دی اور صرف ظواہر کا پابند بنایا ہے ۔ چنانچہ پیغمبر بعض منافقین کے نفاق سے آگا ہ ہونے کے باوجود ان سے وہی رویہ رکھتے تھے جو ایک مسلمان کے ساتھ رکھنا چاہیے ۔

اب اعتراض کی کو ئی گنجائش نہیں کہ یہ کہا جائے کہ اگر وہ پوشیدہ چیزوں کو جانتے تھے تو اس کے مطابق عمل کیوں نہ کرتے تھے۔ کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ علم باطنی کے مقتضیات پرعمل پیرا ہونے کے لےے مامور ہی نہ تھے ۔البتہ پند و موعظمت اور انداز و بشارت کے لےے جہاں حالات و مقتضیات ہوتے تھے بعض امور کو ظاہر کردیتے تھے تاکہ پیش آئندہ واقعات کی پیش بند ی کی جاسکے ،جیسا کہ امام جعفر صادق سلام اللہ علیہ نے یحییٰ ابن زید کو مطلع کر دیا کہ وہ اگر نکلے تو قتل کر دیئے جائیں گے ۔چنانچہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے ۔

امام جعفر صادق سے صحیح طریقہ وارد ہو اہے کہ وہ اپنے بعض عزیزوں کو پیش آنے والے حادثوں سے آگا ہ کر دیتے تھے او ر وہ اسی طرح ہو کر رہتے تھے جس طرح آپ فرمادیتے تھے ۔چنانچہ آپ نے اپنے عم ابن یحییٰ ابن زید کو قتل ہو جانے سے متنبہ کیا ۔مگر وہ آپ کے حکم سے سرتا بی کرتے ہوئے چل دیئے اور جو زجان میں قتل کردیئے گئے ۔

البتہ جہاں ذہنوں میں تشو یش پیدا ہو نے کا اندیشہ ہو تا تھا ۔وہا ں اس کا اظہار تک نہ کیا جاتا تھا ۔چنانچہ اس خطبہ میں حضرت نے اس اندیشہ کے پیش نظر کہ ا ن کو رسو ل کی منزل سے بھی بالا تر سمجھنے لگےں گے ۔زیادہ تفصیل سے کام نہیں لیا ۔لیکن اس کے باوجود جس طرح حضرت عیسیٰ[ع]کے بارے میں لوگ بھٹک گئے اور انہیں ابن اللہ کہنے لگے ۔یونہی حضرت کے متعلق بعض کج فہم کچھ کا کچھ کہنے لگے اور غلو کی حد تک پہنچ کر گمراہ ہو گئے

خطبہ 173: