Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام محمد باقر نے فرمایا، حضرت امام حسن ؑ ، اپنے زمانے کے عابد ترین، زاہد ترین اور افضل ترین انسان تھے الامالی للصدوق ؒ، مجلس33، بحارالانوارکتاب تاریخ فاطمۃ ؑوالحسن ؑ والحسین ؑ باب16

نہج البلاغہ خطبات

خطبہ 171: خلافت کا مستحق کون ہے اور یہ کہ ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنے میں بصارت و بصیرت کی ضرورت ہے

وہ اللہ کی وحی کے امانتدار اس کے رسولوں کی آخری فرد، اس کی رحمت کا مژدہ سُنا نے والے اور اس کے عذاب سے ڈرانے والے تھے ۔

اے لگو! تمام لوگوں میں اس خلافت کا اہل وہ ہے جو اس ( کے نظم و نسق کے برقرار رکھنے) کی سب سے زیادہ قوت و (صلاحیت ) رکھتا ہو اور اس کے بارے میں اللہ کے احکام کو سب سے زائد جانتا ہو۔ اس صورت میں اگر کوئی فتنہ پر داز فتنہ کھڑا کرے تو( پہلے) اسے توبہ و بازگشت کے لیے کہا جائے گا اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ و جدال کیا جائے گا۔ اپنی (۱)جان کی قسم! اگر خلافت کا انعقاد تمام افراد امت کے ایک جگہ اکٹھا ہونے سے ہو تو اس کی کوئی سبیل ہی نہیں بلکہ (اس کی صورت تو انہوں نے یہ رکھی تھی کہ اس کے کرتادھرتا لوگ اپنے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنائیں گے جو (بیعت کے وقت موجود نہ ہوں گے ۔ پھر موجود کو یہ اختیار نہ ہو گا وہ (بیعت سے) انحراف کرے اور نہ غیر موجود کو یہ حق ہوگا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرے دیکھو!

میں دو شخصوں سے ضرور جنگ کروں گا ، ایک وہ جو ایسی چیز کا دعویٰ کرے جو اس کی نہ ہو، اور دوسرا جو اپنے معاہدہ کا پابند نہ رہے۔

اس خطبہ کا ایک جزیہ ہے ! اے اللہ کے بندو! میں تمہیں تقویٰ و پرہیز گاری کی ہدایت کرتا ہوں ۔ کیوں کہ بندے جن چیزوں کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے ہیں ان میں تقویٰ سب سے بہتر اور اللہ کے نزدیک تمام چیزوں کے نتائج سے بہتر و برتر ہے ۔ تمہارے اور دوسرے اہل قبلہ کے درمیان جنگ کا دروازہ کھل گیا ہے۔ اور اس (جنگ ) کے جھنڈے کو وہی اٹھائے گاجو نظر رکھنے والا(مصیبتوں پر) صبر کرنے والا اور حق کے مقامات کو پہچاننے والا ہو۔ تمہیں جو حکم دیا جائے اس پر عمل کرو۔ اور جس چیز سے روکا جائے۔ اس سے بازرہو، اور کسی بات میں جلدی نہ کرو۔ جب تک اسے خوب سوچ سمجھ نہ لو، ہمیں ان امُور میں کہ جن پر تم ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہو، غیر معمولی انقلابات کا اندیشہ رہتا ہے ۔ دیکھو! یہ دنیا جس کی تم تمنا کرتے ہو اور جس کی جانب خواہش و رغبت سے بڑھتے ہو۔ جو کبھی تم کو غصہ دلاتی ہے اور کبھی تمہیں خوش کر دیتی ہے ۔ تمہارا (اصلی) گھر نہیں ہے اور نہ وہ منزل ہے جس کے لیے تم پید ا کئے گئے ہو اور نہ وہ جگہ ہے جس کی طرف تمہیں دعوت دی گئی ہے ۔ دیکھو! یہ تمہارے لیے باقی رہنے والی نہیں اور نہ تم اس میں ہمیشہ رہنے والے ہو) اگر اس نے تمہیں ( اپنی آرائیشوں سے ) فریب دیا ہے تو اپنی بُرائیوں سے خوف بھی دلایا ہے ۔ لہذا تم اس کے ڈرانے سے متاثر ہو کر اس سے فریب نہ کھاؤ ، اور اس کے خوفزدہ کرنے کی بناء پر اس کے طمع دلانے میں نہ آؤ۔ اس گھر کی طرف بڑھو جس کی تمہیں دعوت دی گئی ہے اور اس دنیا سے اپنے دلوں کو موڑ لو تم میں سے کوئی شخص دنیا کی کسی چیز کے روک لیے جانے پر لونڈیوں کی طرح رونے نہ بیٹھ جائے ۔ا طاعت خدا پر صبر کر کے اور جن چیزوں کی اس نے اپنی کتاب میں تم سے حفاظت چاہی۔ ان کی حفاظت کر کے اس سے نعمتوں کی تکمیل چاہو۔ دیکھو! اگر تُم نے دین کے اصول محفوظ رکھے تو پھر دنیا کی کسی چیز کو کھو دینا تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا اور دین کو ضائع و برباد کرنے کے بعد تمہیں دنیا کی کوئی ایسی چیز نفع نہ پہنچائے گی جسے تو نے محفوظ کر لیا ہو۔ خدا وند عالم ہمارے اور تمہارے دلوں کو حق کی طرف متوجہ کرے اور ہمیں اور تمہیں صبر کی توفیق عطا فرمائے ۔

(۱) جب سقیفہ نبی ساعدہ میں انتخاب کے سلسلہ میں اجتماع ہوا تو وہاں کے فیصلہ کا ان لوگوں کو بھی پابند بنایا گیا جو اس موقع پر موجود نہ تھے اور یہ اصول قرار دے دیا گیا کہ جو انتخاب کے موقع پر موجود ہوا سے نظر ثانی اور بیعت سے انحراف کا کوئی حق نہ ہوگا، اور جو موجود نہ ہو وہ طے شدہ فیصلہ کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوگا۔ لیکن جب امیر الموٴمنین[ع]کے ہاتھ پر اہل مدینہ نے بیعت کی تو امیر شام نے اس بنیاد پر بیعت کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ چونکہ انتخاب کے موقع پر موجود نہ تھا لہذا اس پر اس فیصلہ کی پابندی عائد نہیں ہوتی جس پر امیر الموٴمنین نے ان مسلمات اور مقررہ اصول و شرائط کے مطابق اس خطبہ میں جواب دیا کہ جو ان لوگوں میں طے پا کر ناقابل انکار بن چکے تھے اور وہ یہ کہ جو اہل مدینہ اور انصار و مہاجرین میرے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں تو معاویہ کو اس بناء پر کہ وہ اس موقع پر موجود نہ تھا ۔ بیعت سے انحراف کا حق نہیں پہنچتا اور نہ طلحہ و زبیر بعیت کرنے کے عہد شکنی کے مجاز ہو سکتے ہیں ۔

حضرت نے اس موقع پر پیغمبر کے کسی ارشاد کو کہ جو آپ کی خلافت پر لض قطعی کی حیثیت رکھتا ہو۔ استدلال میں پیش نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ انکار کی وجہ اصول انتخاب کے طریق کار کی بنا پر تھی۔ لہذا موقع و محل کے لحاظ سے انہی کے مسلمات کی رو سے جواب دینا ہی فریق مخالف کے لیے مسکت ہو سکتا تھا اور اگر نص رسول سے استدلال فرماتے تو اسے مختلف تاویلوں کی زد پر رکھ لیا جاتا اور بات سمٹنے کے بجائے بڑھتی ہی جاتی اور پھر رحلت پیغمبر کے فوراً بعد آپ دیکھ چکے تھے کہ باوجود قرب عہد کے تمام نصوص وارشادات نظر انداز کر دیئے گئے ، تو اب جبکہ ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے اس سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہوہ اسے تسلیم کرے گا، جبکہ قولِ رسول کے سامنے من مانی کرنے کی عادت پڑ چکی تھی۔