Danishkadah Danishkadah Danishkadah
حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا، مومن کا کاروبار پاکیزہ ہوتا ہے، اس کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں، اس کا باطن صاف ہوتا ہےوہ اپنے زائد مال کو خرچ کرتاہےاور زیادہ گفتگو سے پرہیز کرتا ہے۔ اصول کافی باب المومن و علاماتہ حدیث18، وسائل الشیعۃ حدیث20244

نہج البلاغہ خطبات

عقلمندوں کی آنکھوں سے اپنا مال کار دیکھتا ہے اور اپنی اونچ نیچ (اچھی بری راہوں ) کو پہچانتا ہے دعوت دینے والے نے پکارا اور نگہداشت کرنے والے نے نگہداشت کی بلانے والے کی آواز پر لبیک کہو اور نگہداشت کرنے والے کی پیروی کرو۔

کچھ لوگ فتنوں کے دریاؤں میں اترے ہوئے ہیں اور سنتوں کو چھوڑ کر بدعتوں میں پڑ چکے ہیں ۔ ایمان والے دبکے پڑے ہیں اور گمراہوں اور جھٹلانے والوں کی زبانیں کھلی ہوئی ہیں ۔ ہم قریبی تعلق رکھنے والے اور خاص ساتھی اور خزانہ دار اور دروازے ہیں ا ور گھروں میں دروازوں ہی سے آیا جاتا ہے اور جو دروازوں کو چھوڑ کر کسی اور طرف سے آئے اس کا نام چور ہوتاہے۔

اسی خطبہ کا ایک جز یہ ہے (آل محمد) انہی کے بارے میں قرآن کی نفیس آیتیں اتری ہیں اور وہ اللہ کے خزینے ہیں اگر بولتے ہیں تو سچ بولتےہیں اور اگر خاموش رہتے ہیں تو کسی کو بات میں پہل کا حقنہیں پیشرو کو اپنے قوم قبیلے سے (ہر بات) سچ سچ بیان کرنا چاہیے اور اپنی عقل کو گم نہ ہونے دے اور اہل آخرت میں سے بنے اس لیے کہ وہ ادھر ہی سے آیا ہے ا ور ادھر ہی اسے پلٹ کر جانا ہے دل (کی آنکھوں ) سے دیکھنے والے اور بصیرت کے ساتھ عمل کرنےوالے کے عمل کی ا بتدا یوں ہوتی ہے کہ وہ (پہلے) یہجان لیتاہے کہ یہ عمل اس کیلئے فائدہ مندہے یا نقصان رساں اگر مفید ہوتا ہے تو آگے بڑھتا ہے مضر ہوتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے اس لیے کہ بے جانے بوجھے ہوئے بڑھنے والا ایسا ہے جیسے کوئی غلط راستے پر چل نکلے تو جتنا وہ اس راہ پر بڑھتا جائے گا اتنا ہی مقصد سے دور ہوتا جائے گا اور علم کی (روشنی میں ) عمل کرنے والا ایسا ہے جیسے کوئی روشن راہ پر چل رہا ہو (تو اب) دیکھنے والے کو چاہیے کہ وہ دیکھے کہ آگے کی طرف بڑھ رہا ہے یا پیچھے کی طرف پلٹ رہا ہے۔ تمہیں جاننا چاہیے کہ ہر ظاہر کا ویساہی باطن ہوتاہے جس کا ظاہر اچھا ہوتا ہے۔ اس کا باطن بھی اچھا ہوتا ہے جس کا ظاہر برا ہوتا ہے۔ اس کا باطن بھی برا ہوتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےفرمایا ہے کہ اللہ ایک بندے کو (ایمان کی وجہ سے) دوست رکھتا ہے اور اس کے عمل کو برا سمجھتا ہے ا ور (کہیں ) عمل کو دوست رکھتا ہے اور عمل کرنے والے کی ذات سے نفرت کرتا ہے۔ دیکھو ہر عمل ایک اگنے والا سبزہ ہے ا ور سبزہ کیلئے پانی کا ہونا ضروری ہے اور پانی مختلف قسم کا ہوتا ہے جہاں پانی اچھا دیا جائے گا۔ وہاں پر کھیتی بھی اچھی ہوگی اور اس کا پھل بھی میٹھا ہوگا اور جہاں پانی برا دیا جائے گا وہاں کھیتی بھی بری ہوگی اور پھل بھی کڑوا ہوگا۔

خطبہ 152: اہل بیت [ع]کی توصیف،علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ